اسلام کی رو سے کسی بھی مقدمہ میں ثبوت فراہم کرنے کے دو ہی طریقے ہوتے ہیں؛ شہادت اور قسامت‘ اور شہادت کے سلسلہ میں گواہ کا عادل ہونا اولین شرط ہے۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے بارہ اکتوبر1999ء کو اپنی دو تہائی اکثریت رکھنے والی حکومت کا تختہ الٹنے اور تین نومبر2007ء کی ایمر جنسی نافذ کرنے پر جنرل پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ درج کرانے کا اعلان کر دیا ہے۔ اگر غداری کا یہ مقدمہ درج ہوجاتا ہے تو کیا ایک سابق صدرکو بھی اس مقدمے میں سزا دی جائے گی؟ کیونکہ بارہ اکتوبر1999ء سے21 جون2001ء تک تقریباََ بیس ماہ وہ جنرل مشرف کے ہر غیر قانونی عمل میں برابر کے معاون ومددگار بنے رہے۔ 1973ء کے آئین کی اس کلاز کو‘ جس کے تحت غداری کے الزامات کا مقدمہ قائم کیا جارہا ہے‘ کی ایک ایک تفصیل کوسامنے رکھیں تواس کے مطابق اگر کوئی بھی شخص طاقت کے استعمال سے یا کسی بھی طریقے سے آئین کو پامال کرتا ہے،معطل کرتا ہے‘ اس کی تنسیخ کرتا ہے تو وہ بغاوت کا مرتکب سمجھا جائے گا اور اگر کوئی بھی شخص آئین کی پامالی، تنسیخ یا اسے معطل کرنے کے عمل میں کسی بھی طریقے سے مدد گار بنتا ہے‘ وہ بھی اس جرم میں برابر کا حصہ دار ہو گا اور اسی سزا کا مستحق ہو گا جو آئین پامال کرنے والے شخص کے لیے مختص ہو گی اور کوئی بھی عدالت بشمول ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ آئین کو توڑنے، معطل کرنے کے عمل کو قانونی جواز فراہم نہیں کر سکتی اور ایسا کرنے والے اسی سز اکے مستحق ہوں گے جو آرٹیکل چھ کے تحت دوسروں کے لیے تجویز کی جائے گی اور پارلیمنٹ بذریعہ قانون ایسے اشخاص کے لیے سزا مقرر کرے گی جنہیں سنگین غداری کا مرتکب قرار دیا گیا ہو۔ جناب وزیر اعظم نے تو بارہ اکتوبر اور تین نومبر کے اقدامات کے حوالے سے جنرل مشرف کے خلاف قانونی کارروائی کا اعلان کر دیا ہے لیکن کچھ لوگ جان بوجھ کر انتہائی چالاکی سے جنرل مشرف کے بارہ اکتوبر کے منتخب جمہوری حکومت کو بر طرف کرنے کے عمل کو بائی پاس کرتے ہوئے اس بات پر زور دیے جا رہے ہیں کہ صرف تین نومبر کے ’’ غیر آئینی‘‘ اقدامات پر ہی جنرل مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلایا جائے۔ اگر فیصلہ سازوں کی خواہش کو سامنے رکھتے ہوئے بارہ نومبر کو بائی پاس کرتے ہوئے جنرل مشرف کی تین نومبر کو لگائی جانے والی ایمر جنسی کا جائزہ لیا جائے تو… جنرل مشرف نے تین نومبر کوایمرجنسی کے نفاذ کا جو حکم نامہ جاری کیا اس میں لکھا تھا ’’اس وقت صورت حال یہ ہو چکی ہے کہ حکومت وقت کے لیے اپنے معاملات کو آئین کے تحت انجام دینا بہت ہی مشکل ہو گیا ہے اور جب ملک اس طرح کی صورت حال پر پہنچ جائے تو ملکی معاملات اور سلامتی کے عمل کو یقینی بنانے کے لیے مناسب اقدامات کرنے کے حوالے سے آئین خاموش ہے‘ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ملک میں ہنگامی حالات کا اعلان کرتے ہوئے کچھ غیر معمولی اقدامات کیے جائیں۔۔۔ اور اس صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک ہنگامی اجلاس بلایا گیا جس میں وزیر اعظم شوکت عزیز، چاروں صوبوں کے گورنر، چیئر مین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی،ملک کی تمام مسلح افواج کے سروسز چیفس،وائس چیف آف آرمی سٹاف سمیت مسلح افواج کے کور کمانڈرز شریک ہوئے۔ اس اہم اجلاس میں ملک کی موجودہ صورت حال کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد میں۔۔ جنرل پرویز مشرف بحیثیت چیف آف آرمی سٹاف ملک بھر میں ہنگامی حالت نافذ کرنے اور آئین کے تعطل کا اعلان کرتا ہوںاور ساتھ ہی ایمر جنسی کے تحت پی سی اوآرڈر نمبر ایک 2007 جاری کرتے ہوئے سوائے آئین کی بنیادی حقوق سے متعلق شق 9,10,15,16,17,19, 25 کے باقی تمام شقوں کو اپنی اصل حالت میں بحال کرنے کا اعلان کر تا ہوں۔۔۔‘‘ایمر جنسی کے نفاذ کے بیالیس دنوں کے بعد ملک میں نافذ ایمر جنسی کو ختم کرتے ہوئے جنرل مشرف نے آئین بحال کرنے اور ساتھ ہی تمام ججوں کوملکی آئین کے تحت ایک بار پھر حلف لینے کا حکم جاری کیا۔۔۔اب اگر جنرل مشرف کے خلاف تین نومبر کے اقدامات کرنے پر آئین کے آرٹیکل چھ کی خلاف ورزی کے تحت کسی بھی قسم کی کوئی کارروائی ہوتی ہے تو یہ کارروائی اس وقت( تین نومبر تک) نافذالعمل آئین اور قانون کے تحت ہو نی چاہیے نہ کہ اس اقدام کے ڈھائی سال بعد اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے بنائے جانے والے قانون کے تحت۔۔۔تین نومبر کو آئین کے آرٹیکل چھ کی طرف دیکھا جائے تو وہ یہ ہے’’ کوئی بھی شخص جو طاقت سے یا طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے آئین کی تنسیخ کرتا ہے‘ اس کی سازش کرتا ہے‘‘۔۔۔۔۔۔ جنرل مشرف نے تین نومبر کو سوائے آئین کو التوا میں رکھنے کے نہ تو آئین کو تہہ و بالا کیا اور نہ ہی اسے منسوخ کرنے کا کوئی حکم جاری کیا۔۔۔اور آئین کو التوا میں رکھنا کسی طور بھی غداری کے زمرے میں نہیں آتا۔ جنرل مشرف نے تین نومبر کو نہ تو کسی منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹا‘ نہ ہی مجلس شوریٰ یعنی پارلیمنٹ کو ختم کیا بلکہ چوبیس نومبر2007ء کو سپریم کورٹ کے ایک سات رکنی بنچ نے جنرل مشرف کے تین نومبر کے اقدامات کو جائز اور درست قرار دیتے ہوئے اس کی با قاعدہ توثیق بھی کی ۔ ایک انتہائی اہم پہلو یہ بھی سامنے رکھیں کہ بیالیس روزہ نافذ کردہ ایمرجنسی کے دوران ہی جنرل مشرف نے چیف آف آرمی سٹاف کا اپنا عہدہ چھوڑتے ہوئے جنرل کیانی کو اپنی جگہ آرمی چیف مقرر کیا۔ اگر قانون کی زبان میں بات کی جائے تو تین نومبر کو نا فذالعمل قانون کے مطابق جنرل مشرف کے خلاف تین نومبر کے اقدامات پرآرٹیکل چھ کے تحت کسی بھی صورت میں غداری کا مقدمہ چلایا جانا ممکن ہی نہیں ہے۔تین نومبر کو ایمر جنسی نافذ کرتے ہوئے جنرل مشرف کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ انہوں نے سپریم کورٹ کے ججز اور ان کے اہل خانہ کی نظر بندی کے احکامات جاری کیے تھے لیکن اسلام آباد ہائیکورٹ کے جناب جسٹس ریاض احمد خان اور جسٹس نور الحق پر مشتمل دو رکنی بنچ کی طرف سے جنرل مشرف کی اس مقدمہ میں ضمانت منظور کرتے ہوئے جو تحریری فیصلہ جاری ہوا ہے اس کے مطا بق ’’مقدمے کے ریکارڈ کے مطابق یہ ثابت نہیں کیا جا سکا کہ ججز کو نظر بند رکھنے کے احکامات جنرل پرویز مشرف نے دیے تھے‘‘۔ مقدمے کی سماعت کے دوران جنرل مشرف کی طرف سے مقرر کیے گئے صفائی کے وکلاء اگر سپریم کورٹ کی طرف سے بارہ اکتوبر کے جنرل مشرف کے اقدامات کو قانونی حیثیت دیتے ہوئے اسے جائز قراردینے اور مجلس شوریٰ یعنی پارلیمنٹ کی طرف سے جنرل مشرف کے بارہ اکتوبر اور اس کے بعد کے ہر قدم کی توثیق کے معاملے کو سامنے لاتے ہیں تو پھر ہر وہ فرد جس نے جنرل مشرف کی مدد کی یا اس کا مدد گار بنا‘ وہ آئین کے آرٹیکل چھ کا برابر کا مجرم ہو گا اور وہ اسی سزا کا مستحق ہوگا جو جنرل مشرف کے حصے میں آئے گی۔ میں نے اسی لیے اپنے مضمون کے شروع میں سوال اٹھایاتھا کہ کیا اُن انتہائی محترم سابق صدر پر بھی جو بیس ماہ تک ایک طالع آزما کے ساتھ بطور صدر فرائض سر انجام دیتے رہے اس آرٹیکل کا نفاذہوگا؟ اور کیاوہ قابل احترام لوگ بھی جنہوں نے کسی بھی حیثیت سے بارہ اکتوبر کے غیر آئینی اقدام کی توثیق کی یا اس کا ساتھ دیتے ہوئے اس کی تکمیل اور حمایت کی ہو گی سز اوار ہوں گے؟