"MABC" (space) message & send to 7575

ایک سو پیاز

میں نے سات جون کے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ’’ صاحبانِ اقتدار نے ایران سے گیس پائپ لائن کا معاہدہ ختم کرتے ہوئے قطر سے این ایل جی کی خریداری کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اور اب منگل دو جولائی کو ای سی سی کی رابطہ کمیٹی کے فیصلے کے مطا بق قطر حکومت سے 500mmcfd این ایل جی کی خرید 17.437 ( ایم ایم بی ٹی یو) کے حساب سے خریدنے کی تیاریاں شروع ہونے ہی والی ہیں‘‘ پی پی کی سابقہ حکومت نے ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کے نام سے گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیسCIDC کے ذریعے گیس استعمال کرنے والے صارفین سے جو ایک بلین روپیہ وصول کیا جسے اسلام آباد ہائیکورٹ نے\"CIDC ACT 2011\" کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے ہدایت کی تھی کہ اس ایکٹ کے تحت صارفین سے وصول کی گئی رقم انہیںواپس کی جائے۔۔۔لیکن اب ایک اطلاع کے مطا بق یہ رقم صارفین کو واپس کرنے کی بجائے جناب حکمران اسے اپنے تیار کئے گئے’’ بجٹ کا مالیاتی خسارہ‘‘ پورا کرنے کے لیے استعمال میں لانے کا پروگرام بنا رہے ہیں۔ پی پی کی گئی گزری حکومت اور اس سے پہلے کی حکومتوں کی جانب سے بجلی کے ماہانہ بلوں پر دی جانے والی رعائت آئی ایم ایف کے کہنے پر ختم کرنے کی خوشخبری وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار نے قوم کو دینی تھی لیکن وفاقی وزیر پانی وبجلی خواجہ آصف نے ڈار صاحب سے یہ اعزاز چھینتے ہوئے بی بی سی کے ذریعے کروڑوںکمزور دلوں کو دہلا کر رکھ دیا ہے کہ سبسڈی ختم کر تے ہوئے بجلی کے نرخ کمرشل اور صنعتی اداروں کے لیے بڑھا دیئے گئے ہیں ( اس کا بوجھ بھی غریب اور متوسط طبقوں پر ہی پڑے گا) اور عید کے تحفے کے طور پر گھریلو صارفین کو یہ شیر دل انعام اگست میں دیا جائے گا۔ خواجہ آصف صاحب کا فرمانا ہے کہ ہم تو تین سو یونٹ استعمال کرنے والوں کو سبسڈی دینے کے حامی تھے لیکن برا ہو آئی ایم ایف کا جس کے مطا بق اس کا اطلاق ایک سو یونٹ استعمال کرنے والے غریبوں پر ہو گا۔۔۔۔۔۔ بجلی بلوں پر عوام کو دی جانے والی سبسڈی ختم کرنے کے آئی ایم ایف کے دیرینہ مطالبے کو ہمارے نئے آنے والے حکمرانوں نے جس سرعت اور خوش دلی سے پذیرائی بخشی ہے اس سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کشکول واقعی توڑ دیا گیا ہے۔ نہ جانے کیوں یقین سا ہوتا جا رہا ہے کہ تین دہائیوں سے ہمارے ملک میں کوئلہ اور پانی سے سستی بجلی پیدا کرنے والے پاکستان کے منصوبے امریکہ، بھارت سمیت دنیا کی چند بڑی طاقتوں اور ان کی ہدایات پر کام کرنے والے عالمی مالیاتی اداروں کے دبائو پر جان بوجھ کر پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا ئے گئے ۔ آخر کیا وجہ تھی کہ ہمارے ہر حکمران نے سستی بجلی پیدا کرنے والے پن بجلی گھروں کی بجائے دن بدن کم ہوتی گیس اور تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ مہنگے پڑنے والے بجلی گھر ہی بنانے پر کیوںاصرار کیا؟۔۔۔۔ 1992ء میں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے دبائو پر مسلم لیگ ن حکومت کی کیبنٹ کمیٹی برائے نج کاری نے واپڈا کی تنظیم نو کے نام پر اس کے پاور ونگ کو کئی حصوں میں تقسیم کر دیا اور بجلی کی تقسیم کی ذمہ داری بہتر طریقے سے کرنے کے لیے پرائیویٹ شعبہ میں بجلی پیدا کرنے کے لیے جنریشن کا شعبہ اور پھر بجلی کی تقسیم کے لیے شعبہ ڈسٹری بیوشن قائم ہوا۔ 1993ء میں نواز شریف حکومت کو ختم کر دیا گیا اور اس کے بعد پی پی پی کی بے نظیر بھٹو حکومت اقتدار میں آئی تو اس نے1994ء میں نواز حکومت کے واپڈا بارے فیصلوں کو ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی خواہش پر بے چوں و چرا تسلیم کرلیا اور ساتھ ہی ان کے توانائی بارے دیئے گئے فارمولے پر زور شور سے عمل در آمد شروع کر دیا۔ اس فارمولے کے تحت پاور پالیسی کے لیے کئے گئے معاہدوں میں حیران کن اور نا قابل یقین قسم کی ایسی شرائط سامنے لائی گئیں جن کا مقصد اس کے سوا ور کچھ نہیں تھا کہ اس ملک کے بچے کھچے وسائل کو پرائیویٹ پاور پراجیکٹ کے نام سے کام کرنے والے بجلی مہیا کرنے والے ’’ جدید ٹھیکیداروں‘‘ کے پاس گروی رکھ دیئے جائیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو حکومت کے آئی پی پی ز سے کئے گئے ان معاہدوں کی ایک شق جو ہو بہو انگریزی زبان میں پیش خدمت ہے اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس ملک اور قوم کے ساتھ کیسی سازش کی گئی ۔۔۔80-20 debt-to equity ratio, minimal taxes,guaranteed capacity payments even if power plants were not proceedings.۔۔۔۔۔ ’’یعنی اگر یہ پاور پلانٹس بند بھی رہیں گے تو پھر بھی ان کے مالکان کو قوم کی جیب سے ادائیگیاں جاری رکھی جائیں گی‘‘۔اس کے علا وہ ایک اور کھیل جو NTDC کے تعاون سے کھیلا گیا۔ قوم کے اربوں روپے لوٹے گئے۔ یعنی واپڈا کا میٹر ریڈر وں والا پرانا طریقہ اختیار کر لیا گیا۔ آسان الفاظ میں اس کی تشریح اس طرح ہے کہ واپڈا کا میٹر ریڈر زائد ریڈنگ کو ریورس کرکے صارف کو فائدہ دیتے ہوئے پیسے کماتا ہے جبکہ این ٹی ڈی سی زیادہ ریڈنگ بتا کر آئی پی پی ز سے مک مکا کر کے زائد پیسے آپس میں بانٹتا ہے۔۔۔۔۔جس دن اس ملک کی کسی بھی طاقت نے ان آئی پی پی ز کا غیر جانبدارانہ اور صاف و شفاف آڈٹ کروایااسی دن اس ملک کے تمام قرضے ختم ہو جائیں گے اسی دن عوام مہنگائی اور بے روزگاری کی چکی سے نکلنا شروع ہو جائیں گے۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی ہدایات پر سب سے پہلے1292 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے لیے حب کو پاور پلانٹ کا معاہدہ کیا گیا۔ اسے ’’سال کا یاد گار معاہدہ‘‘ کا نام دیا گیا۔ پھر بعد میں اسے جنوبی ایشیا میں اس دہائی کے سب سے یاد گار معاہدے کا نام دیا جانے لگا۔۔۔۔حب کو معاہدے کا ہونا تھا کہ پھر لائن لگ گئی۔ اس قدر پر کشش شاہی پیشکش سے سیراب ہونے کے لیے دیکھتے ہی دیکھتے16 انٹر نیشنل پاور پلانٹس کمپنیوں سے مجموعی طور پر3400 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے معاہدے کیے گئے۔ جب یہ معاہدے کئے گئے تو اس وقت انتہائی باریک بینی سے ملک میں دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والی بجلی کے با وجود آنے والے وقت کی انرجی ضروریات کا اندازہ زیا دہ سے زیا دہ1500 میگا واٹ تھا۔ 1997ء میں جب مسلم لیگ نواز کی حکومت اقتدار میںآئی تو اس نے پی پی کے دور میں آئی پی پی ز کے کئے گئے فیصلوں کو منسوخ کرتے ہوئے بہت سے متعلقہ لوگوں کوسیف الرحمن کے احتساب سیل کے ذریعے گرفتار بھی کیا لیکن اب۔۔۔۔ انہی پاور پلانٹس کو زور شور سے ادائیگیاں بھی کی جا رہی ہیں اور ساتھ ہی دو جولائی کو حب کو پاور کمپنی کو78 ارب کی علیحدہ سے ادائیگی کرد ی گئی ہے تاکہ وہ اپنے پلانٹ کو مزید وسعت دے سکیں ۔۔۔(کیا یہ سو پیاز اور سو جوتے کھانے کی مثال نہیں)۔ 97ء کے نواز دور حکومت میں ان کی طرف سے NEPRA کا قیام بھی عمل میں لایا گیا اور ساتھ ہی واپڈا کی ایسی تیسی کرتے ہوئے اسے آ ٹھ بجلی کی DISCOS تقسیم کار کمپنیوں،تین GENCOS بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں، نیشنل ٹرانسمیشن اور ڈسپیچ کمپنیوں کی شکل میں کل 13 یونٹس میں تبدیل کر دیا۔۔۔۔اور یہیNTDC ان پرائیویٹ پاور پلانٹس کے لیے ’’میٹر ریڈر‘‘ کے فرائض انجام دے رہی ہے۔۔۔۔جن کا کبھی بھی اصلی آڈٹ نہیں ہوا…!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں