ایک سکول ٹیچرکے تھیلے سے کچھ رقم چوری ہو گئی ۔انہوں نے اچھی طرح تھیلے اور جیبوں کی تلاشی لی۔ جب انہیں یقین ہو گیا کہ یہ حرکت ان کے کسی شاگرد کی ہو سکتی ہے تو انہوں نے شاگردوں سے پوچھ گچھ شروع کرد ی ،لیکن جب کسی نے بھی چوری کا اقرار نہ کیا تو معاملہ سکول ہیڈ ماسٹر صاحب کے سامنے پیش کر دیا گیا ۔ہیڈ ماسٹر صاحب نے کلاس کے تمام لڑکوں کو ایک بڑے کمرے میں جمع کرکے پہلے سخت قسم کی تقریر کی ،پھر جیب سے ماچس نکال کر اس پر کچھ دیر پڑھا اور ایک ایک تیلی نکال کر ہر طالب علم کو تھماتے ہوئے کہا کہ ایک گھنٹے کے اندر اندر جس نے ماسٹر صاحب کے تھیلے سے ’’پیسوں کی چوری نہیں کی ہو گی‘‘ اس کے ہاتھ میں ماچس کی صرف تیلی رہ جائے گی اور اس کے سرے پر لگا ہوا مسالہ خود بخود غائب ہو جائے گا اور جو چور ہو گا ،اس کی تیلی پر مسالہ اسی طرح لگا رہے گا۔ اتنا کہہ کر ہیڈ ماسٹر صاحب نے سب بچوں کو کمرے میں بند کر تے ہوئے باہر سے تالہ لگا دیا۔کمرہ بند ہونے کے بعد سب بچے ایک دوسرے کی طرف مشکوک نظروں سے دیکھنے لگے اور جوں جوں وقت گذرتا گیا ان بچوں کے چہروں پر بے چینی بڑھنے لگی۔ سب بچے کبھی اپنے ہاتھوں میں پکڑی ہوئی ماچس کی تیلیوں کی طرف دیکھتے اور کبھی دروازے کی طرف ۔کچھ دیر بعد سب نے تیلیاں اپنے ہاتھوں میں چھپالیں۔ہر لمحہ ان کے دلوں کی دھڑکن کو تیز کرتا گیا۔ پھر اچانک بند دروازہ دھڑام سے کھلا اور ہیڈ ماسٹر صاحب ہاتھ میں بید پکڑے ہوئے کمرے میں داخل ہو ئے ۔انہوں نے سہمے ہوئے بچوں کی طرف انتہائی غصے سے دیکھتے ہوئے حکم دیا ۔سب باری باری ان کے پاس آئیں اور زور سے اپنا نام پکارتے ہوئے ما چس کی تیلی میز پر بچھی ہوئی سفید چادر پررکھتے جائیں۔بچے ایک ایک کر کے آگے آتے اور اپنا نام پکارنے کے بعد ماچس کی تیلی میز پر رکھتے گئے۔ جب سب بچوں نے تیلیاں میز پرر کھ دیں تو ہیڈ ماسٹر صاحب نے ایک طالب علم کو بلایا اور یہ کہتے ہوئے اپنے ساتھ آفس میں لے گئے کہ سکول ماسٹر کے پیسے اس نے چوری کئے ہیں ۔تھوڑی ہی دیر بعد لڑکے نے تسلیم کر لیا کہ چوری اسی نے کی ہے اور پھر سکول کی گرائونڈ سے دبائی ہوئی رقم بر آمد ہوگئی ۔سکول کے اساتذہ بہت حیران تھے کہ ہیڈ ماسٹر صاحب کو یہ کیسے پتہ چلا کہ چوری اسی لڑکے نے کی ہے۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے ان کو بتایا کہ ماچس کی تیلیاں پکڑاتے ہوئے میں نے بچوں کو کہا تھا کہ جس نے چوری کی ہو گی اس کے ہاتھ میں پکڑی ماچس کی تیلی پر مسالہ لگا رہے گا جبکہ باقی سب کی تیلوں سے مسالہ اتر جائے گا۔ جب میں نے یہ کہنے کے بعد کمرہ باہر سے لاک کر دیا تو وہ بچے جنہوں نے چوری نہیں کی تھی مطمئن تھے کہ ان کی تیلوں کا مسالہ خود بخود اتر جائے گا لیکن جو چور تھا اسے یقین ہو گیا تھا کہ اس کا مسالہ نہیں اترے گا اس لیے اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی تیلی کا مسالہ خود ہی اتار دیا جبکہ دوسری طرف باقی سب بچوں کی تیلیوں کا مسالہ اسی طرح لگا رہا۔ ایبٹ آباد کمیشن کی مبینہ رپورٹ الجزیرہ ٹی وی سے نشر ہونے کے بعد اس پر قیاس آرائیوں اور الزام تراشیوں کا سلسلہ شروع ہونا ہی تھا لیکن اس مبینہ رپورٹ کے اس حصے کو سب سے زیا دہ تضحیک اور تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جس میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ احمد شجاع پا شا نے الزام لگایا ہے کہ ’’پاکستان میں امریکہ اور ایک دوسرے ملک کا سفارت خانہ پاکستانی میڈیا سے متعلق بعض لوگوں کو شراب، عورت اوردولت فراہم کرتا ہے‘‘۔ جنرل پاشا نے ایبٹ آباد کمیشن کو دیئے گئے اپنے بیان میں شراب عورت اور ڈالروں کے حوالے سے کسی بھی صحافی کا نام نہیں لیا۔ لیکن جنرل پاشا کی ’’ ہرزہ سرائی ‘‘ نے ماچس کی تیلی پر لگے ہوئے مسالے سے بہت سے لوگوں کے تن بدن میں آگ لگا دی ۔سو کسی کی زبان تو کسی کے ہاتھوں کی حر کت احمد شجاع پاشا کی طرف بڑھتی ہی چلی جارہی ہے ۔ آگ اگلنے والوں کی اس بات سے تو مجھے بھی اتفاق ہے کہ پاشا صاحب کو ایسے لوگوں کے نام سامنے ضرور لانے چاہئیں کیونکہ میری اطلاع کے مطابق ان میں سے کچھ کا تعلق صنف نازک سے بھی ہے اور ظاہر ہے کہ انہیں اگر کچھ دیا گیا ہو گا تو اس میں شراب اور عورت نہیں بلکہ سکہ رائج الوقت ہی ہو سکتا ہے۔ جنرل پاشا صاحب فوجی افسر رہے ہیں۔ بڑے ادارے کے سب سے بڑے عہدے پر کام کرتے رہے ہیں ۔انہیں جرأت دکھانی چاہیے اور کھل کر ان لوگوں کے نام قوم کو بتا ہی دینے چاہییں جو امریکہ اور بھارت کے سفارت خانوں یا سفارت کاروں سے’’ بھتہ وصول‘‘ کرتے ہیں،ورنہ میں سمجھوں گا کہ وہ بھی میری طرح کمزور دل ہیں کیونکہ میں نے بھی 10 جنوری2013 ء کو روزنامہ دنیا میں ’’ بھارت کی سازشوں‘‘ کے عنوان سے لکھے اپنے ایک کالم میں بتایا تھا کہ 25 جولائی2011ء اور27 مارچ2012ء اور پھر20 اکتوبر2012ء کو بنگلہ دیش کے یوم آزادی کی نسبت سے منعقد کرائی جانے والی مختلف تقاریب کے سلسلے میں دنیا بھر سے 144شخصیات کو بنگلہ دیش حکومت نے دعوت دے کر بلایا تھا کہ وہ بنگلہ دیش کی آزادی کی تقاریب میں شرکت کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف بنگلہ دیش کی آزادی میں مدد اور بھر پور تعاون کرنے کے صلے میں اپنے ایوارڈ وصول کریں ۔میں نے اپنے اس کالم میں لکھا تھا کہ بھارتی حکومت 2013 ء میں ایک اور بڑی تقریب بنگلہ دیش کے دارلحکومت ڈھاکہ میں منعقد کرنے جا رہی ہے جس میں پاکستان کے بڑے نام اور دام والے وہ صحافی جو بنگلہ دیش کی جنگ آزادی میں پاکستان کے خلاف بنگلہ دیش اور بھارت کی دامے درمے سخنے مدد کرتے رہے تھے انہیں بنگلہ دیش کے یوم آزادی پر بھارتی صدر اور بھارتی وزیر اعظم کے ہاتھوں ایوارڈز دیئے جائیں گے۔اس کالم کا شائع ہونا تھا کہ مجھ سے پوچھا جانے لگا کہ آپ نے ان ’’ معزز پاکستانیوں‘‘کے نام کیوں نہیں لکھے، تو میں چپ رہا تھا کیونکہ میں کمزور تھا۔بے شک میں نے ڈر، خوف اور اپنی روائتی بزدلی کی وجہ سے کسی کا بھی نام نہیں لکھاتھا لیکن اس کالم کے بعد مجھ پر بھی منفی تنقید کا طوفان کھڑا کر دیا گیا تھا،لیکن پھر سب نے دیکھا کہ پاکستان سے ’’ معززین‘‘ کا ایک قافلہ بنگلہ دیش اور بھارتی حکومت کی مشترکہ دعوت پرایوارڈ وصول کرنے ڈھاکہ ائر پورٹ پر بڑی شان سے اترا اور آپ حیران ہوں گے کہ اس کالم کی اشاعت پر مجھ پر منفی تنقید کرنے والا ڈھاکہ ائر پورٹ پر لینڈ کرنے والے جہاز سے اترنے والا سب سے پہلا مسافر تھا…!