سراج الدولہ کو شکست ہوئی اور غدارِ مسلما نان ہند میر جعفر کو 29 جون کو بنگال کا حکمران بنا دیا گیا۔ مغل شاہی بے دست و پا ہو گئی اور جولائی 1775ء میں سراج الدولہ کو قتل کر دیا گیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال، بہار اور اڑیسہ میں اپنے قدم جما لیے۔ میر جعفر کی جگہ اس کے داماد میر قاسم کو بنگال کی حکمرانی دے دی گئی۔ دوسری طرف دہلی میں مرہٹے جو طاقت پکڑ چکے تھے‘ انہوں نے 9اکتوبر 1760ء میں شاہ جہاں دوئم کو معزول کر کے شاہ عالم کو با دشاہ بنا دیا۔ 12 اگست 1765ء کو کٹھ پتلی مغل بادشاہ شاہ عالم نے ایک فرمان جا ری کرتے ہوئے بنگال، بہار اور اڑیسہ کامکمل کنٹرول ایسٹ انڈیا کمپنی کے حوالے کر دیا۔ 1767ء میں احمد شاہ ابدالی نے پنجاب پر حملہ کیا جہاں راجہ راجگان کے لقب کے ساتھ راجہ امر سنگھ پٹیالہ کا حکمران تھا۔ احمدشاہ ابدالی نے ہندوستان پر اس وقت نو حملے کیے جب مغل بادشاہت مرہٹوں، روہیلوں اور انگریزوں کی سازشوں میں پھنسی ہو ئی تھی۔ اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو پنجاب میں سکھوں کا راج اور بندہ بیراگی کے ہاتھوں لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام صرف احمد شاہ ابدالی کی وجہ سے ہی ممکن ہوا۔ مئی1771ء میں کٹھ پتلی مغل بادشاہ شاہ عالم نے ایک فرمان کے ذریعے مرہٹوں کو ٹیکس وصولی کا مکمل اختیار دے دیا اس پرروہیلے ناراض ہو گئے اور انہوں نے اپریل 1774ء میں انگریز کی ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج کو روہیل کھنڈ بریلی میں قیام کی اجازت دیدی۔جون 1788ء میں روہیلہ سردار غلام قادر خان نے دہلی پر قبضہ کر کے محمد شاہ کے پوتے بیدار بخت کو مغل فرمان روا مقرر کر دیا اگست 1788ء میں روہیلہ سردار غلام قادر نے شاہ عالم کی آنکھیں نکال دیں اور شاہی خاندان کی شاہزادیوں کو سر عام دربا ر میں نچوایا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد مرہٹوں کے سردار سندیا کے ہاتھوں غلام قادر کو شکست فاش ہوئی۔ روہیلوں کے سردار غلام قادر کا منہ کالا کر کے اس کے گلے میں پرانے جوتوں کے ہار ڈال کر گدھے پر بٹھا کر دہلی کی گلیوں میں پھرایا گیا۔ بعد میں اس کے ٹکڑے کر دیئے گئے۔ (برصغیر میںکسی کو بھی ذلیل کرنے کیلئے گلے میں جوتیوں کے ہارڈال کر گدھے پر بٹھانے کا آغاز یہیں سے ہوا)۔ ستمبر 1794ء میں روہیلا سردار فیض اﷲ فوت ہو گیا اور اس کے بیٹوں میں رسہ کشی شروع ہو گئی تو بڑے بیٹے محمد علی کو اس کے چھوٹے بھائی فیض اﷲ نے قتل کر دیا۔ انگریزوں نے محمدعلی کے نابا لغ بیٹے احمد علی کی مدد کی۔ستمبر 1794ء میں نواب اودھ آصف الدولہ کے انتقال کے بعد اس کے بھائی سعادت علی اور مرحوم کے لے پالک بیٹے وزیر علی کے درمیان جانشینی کا جھگڑا شروع ہو گیا۔ انگریزوں نے پہلے پہل وزیر علی کا ساتھ دیا لیکن نواب سعادت کی درخواست پر اس کے ساتھ مل گئے اور نواب سعادت کا پلڑا بھاری ہو گیا لیکن اس کے عوض انگریزوں نے الہ آباد حاصل کر لیا۔ اکتوبر 1798ء میں افغان فرمانروا زمان شاہ نے لاہور کا تخت سردار رنجیت سنگھ کے حوالے کر دیا۔ دوسری طرف نومبر 1803ء میں دریائے شیمل کا شمالی علا قہ مرہٹوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی نذر کر دیا۔ 1806ء میںمغل بادشاہ شاہ عالم کی وفات کے بعد اس کا بیٹا اکبر دوئم کے نام سے تخت نشین ہو گیا۔ انگریز نے جب دیکھا کہ سکھ پنجاب میں طا قت پکڑتے جا رہے ہیں تو انہوں نے سکھوں کو لاہور کی طرف مصروف رکھنے کیلئے 25اپریل 1809ء کو سردار رنجیت سنگھ کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کرلیا۔نواب اودھ سعادت علی کے انتقال کے بعد اس کے بیٹے غازی الدین بر سر اقتدار آ گئے۔ یہ اقتدار تفویض کرنے کے عوض ایسٹ انڈیا کمپنی نے ٹیکس وصول کر نے کا مکمل اختیار حاصل کر لیا اور پہلی دفعہ یہ قانون بن گیاکہ اگر کوئی زمیندار اور جاگیردار ٹیکس ادا نہیں کرے گا تو اس کی جائداد ضبط کر لی جائے گی ۔30 نومبر 1827ء کو نصیر الدین حیدر غازی الدین کی جگہ نواب آف اودھ بن گئے۔ اگست 1825ء میںا یسٹ انڈیا کمپنی نے نواب اودھ کے ساتھ ایک کروڑ روپے قرضہ کا معاہدہ کیا مئی 1829ء میں ایک کروڑ روپے کا ایک اور معاہدہ کیا گیا۔ اکتوبر 1830ء میں نواب اودھ نے جانچ پڑتال کی تو اسے معلوم ہوا کہ اکا ئونٹس میں گڑ بڑ ہے اس پر انگریز کے ایجنٹ آغا محمدکو برخواست کر کے گرفتاری کا حکم جا ری ہو گیا لیکن وہ بھاگ کر ایسٹ انڈیا کمپنی کی پناہ میں کانپور چلا گیا۔ دوسری طرف مہاراجہ رنجیت سنگھ کا 27 جون 1839ء کو انتقال ہو گیا اس کی جگہ اس کا بیٹا سردار کھڑک سنگھ مہاراجہ بنا لیکن وہ بھی 5 نومبر 1840ء کو وفات پا گیا اس کی جگہ اس کا بیٹا نو نہال سنگھ راجہ بن گیا لیکن وہ اپنے باپ کی آخری رسومات کے فوری بعد ڈیوڑھی میں گرنے سے اسی دن ہلاک ہو گیا۔ اس پر رنجیت سنگھ کے دوسرے بیٹے راجہ شیر سنگھ کو راجہ بنا دیا گیا۔ ستمبر 1843ء میں راجہ شیر سنگھ اس کا بیٹا پرتاپ سنگھ اپنے خاندان سمیت قتل کر دیا گیا۔ اس پر سردار اجیت سنگھ نے سردار رنجیت سنگھ اور مائی جنداں کے 6 سالہ بیٹے دلیپ سنگھ کو راجہ بنا دیا اور اجیت سنگھ اس کا وزیر بن گیا لیکن چند دن بعد سردار دھیان سنگھ کے بیٹے سردار ہیرا سنگھ نے سردار اجیت سنگھ کو قتل کر دیا۔ ستمبر 1844ء میں میجر براڈ فٹ کو پنجاب میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا ایجنٹ مقرر کر دیا گیا اور یکم نومبر کو سردار دلیپ سنگھ کی ماں مائی جنداں کو لاہور کی حکومت دے دی گئی۔ اسی سال 21نومبر کو مائی جنداں کے بھائی سردار جواہر سنگھ کو سکھ فوج نے قتل کر دیا۔ اب انگریز مائی جنداں کی مدد کیلئے پنجاب میں داخل ہو گئے تین دسمبر 1845ء کو جنرل تیج سنگھ اور جنرل لال سنگھ نے دریائے ستلج پار کر کے فیروز پور پر قبضہ کر لیا لیکن 9 مار چ1846ء کو سکھوں نے ستلج اور بیاس کے درمیان کا علا قہ خالی کر دیا جس پر ایسٹ انڈیا کمپنی نے قبضہ کر لیا۔ 13 جنوری 1849ء کو مشہور چیلیانوالہ کی جنگ لڑی گئی اس میں انگریزوں نے مائی جنداں کے ذریعے سکھ فوج کے اندر نقب لگا کر سکھوں کے بارود کے تھیلوں میںپائوڈر کی جگہ تیل کے بیج بھر دیئے اور انہیں شکست ہو گئی اور 29 مارچ 1849ء کو پنجاب بھی مکمل طور پر انگریز کی عملداری میں آگیا اور اس طرح رانی جنداں نے اجیت سنگھ اور جواہر سنگھ کے سکھ فوجیوں کے ہا تھوں قتل کا بدلہ لے لیا۔ 27 فروری 1850ء کو انگریز کی 66 نیٹو انفنٹری گوبند گڑھ امرتسر میں تعینات ہو گئی۔ دوسری طرف اودھ میں مشہور زمانہ نواب واجد علی شاہ کو نواب آف اودھ بنا دیا گیا اس کے فوری بعد انگریزوں نے فیصلہ کیا کہ ریا ست اودھ کوبھی اپنی عملداری میں لے لیا جائے اور 13 فروری 1856ء میں واجد علی شاہ کو برخواست کر کے اودھ کو ایسٹ انڈیا کمپنی کی ملکیت میں لے لیا۔ اور پھر پورا ہندوستان برطانیہ کی نو آبا دی بن گیا۔اور یہ سب کچھ صرف ایک سو پچاس سال میں ہوا انگریز نے کس طرح مسلمانوں کی نا اتفاقی ، اقتدار اور دولت کی ہوس کو استعمال کر کے اپنے قدم جمائے۔ 1690ء میں ڈیڑھ لاکھ روپے جرمانہ ادا کر کے سارا ہندوستان ہڑپ کر لیا۔غور کریں کل اور آج میں کیا فرق ہے ہم کیا کر رہے ہیں ، کہاں جا رہے ہیں کہیں آج بھی ہما رے ارد گرد کوئی نئی ایسٹ انڈیا کمپنی تو نہیں؟