نہ تو میں انتہا پسند ہوں اور نہ ہی اسے کسی بھی صورت اور شکل میں پسند کرتا ہوں لیکن گزشتہ دس سالوں سے پاکستان میں اسلام اور پاکستان کے خلاف کام کرنے والی تنظیموں کی طرف سے بارودی سرنگوں اور خود کش حملوں کے ذریعے جس طرح فوجی اور سول اداروں کے اندر تباہی اور بربادی پھیلائی جا رہی ہے‘ اس کا اصل فائدہ کسے ہے؟ اس سے خوش کون ہوتا ہے؟ اگر ان خود کش دھماکوں کے نصف سے بھی کم کا بھارت کے سول اداروں اور فوج کو سامنا کرنا پڑتا‘ تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ بھارت کی آدھی سے زیا دہ فوج اپنی بیرکوں اور یونٹوں سے بھاگ جاتی ،اس کی فوجی چھائونیاں خالی ہونا شروع ہو جاتیں اور بھارت کے نصف سے زیادہ صنعتی یونٹ بند ہو جاتے۔ تحریک طالبان اور مولوی فضل اﷲ نے سوات اور خیبر پختونخوا کے تعلیمی اداروں میں جس انتہا کی تباہی اور بربادی پھیلائی ہے‘ اس طرح کے اگر چند واقعات بھی بھارت میں ہو گئے ہوتے تو اس کے اکثر تعلیمی ادارے ویران ہو جاتے۔ تحریک طالبان نے خود کش حملوں کے ذریعے پاکستان کے جس قدر فوجی جوانوں اور افسروں کو شہید کیا ہے‘ اگروہ اس قسم کے پچاس خود کش حملے بھارت کے فوجیوں پر کرتے تو ہندومائیں اپنے بیٹوںکو بھرتی کرانا تو دور کی بات‘ بھارتی فوج کے قریب بھی جانے کی اجا زت نہ دیتیں۔ لیکن کس قدر عجیب بات ہے کہ وہ جو خانہ کعبہ اور مسجد نبویﷺ کے محافظ ہیں‘ وہ جن میں سے بہت سوں نے حجر اسود کو بوسے دیئے ہیں‘ وہ جنہوں نے روضہ رسولﷺ کی جالیوں سے چمٹ کر آنسو بہائے ہیں‘ ان کے تو تحریک طالبان کی طرف سے گلے کاٹے جا رہے ہیں‘ ان کی تو آنکھیں نکالی جا رہی ہیں اور وہ جنہوں نے صرف ایک بابری مسجد ہی نہیں ملک بھر کی مسجدوں کوگھوڑوں‘ گدھوں اور مویشیوں کے اصطبل میں تبدیل کر کے رکھ دیا‘ وہ اسلام کے نام لیوائوں کو ان کے اپنے ہم مذہبوں کے ہاتھوں ذبح کروا کے ان کی عقلوں پر قہقہے لگا رہے ہیں۔ تحریک طالبان سے متعلق زیا دہ نہیں تو کچھ لوگوں کو کبھی یہ خیال آتا ہی ہو گا کہ جس مسجد میں‘ جس عبادت گاہ میں ہم خود کش دھماکے کرنے جا رہے ہیں‘ وہاں اﷲ کی مقدس کتاب قرآن پاک کے ایک نہیں‘ کئی مبارک نسخے موجود ہوں گے! کیا تحریک طالبان یہ پسند کرے گی کہ قرآن پاک کی بے ادبی ہو؟۔ یقینا نہیں کرے گی اور اس وقت جب خود کش حملوں اور بارودی دھماکوں سے پاکستان کی مسجدیں راکھ اور مٹی کا ڈھیر بن جاتی ہیں اﷲ پاک کی مقدس کتاب اپنے بھیجنے والے رب سے اپنی بے ادبی پر کس قدر فریاد کرتی ہوگی۔اگر یہی کچھ بھارت کے مندروں میں ہوتا‘ وہاں کے کسی بھی مندر میںکسی خود کش حملے اور بارودی دھماکے سے وہاں رکھے ہوئے درجنوں بت پاش پاش ہو جاتے‘ وہاں ان بتوں کو پوجنے کیلئے آئے ہوئوں کے جسم ٹکڑے ٹکڑے ہو کر چاروں طرف بکھر جاتے تو یہ مورتیوں اور بتوں سے بھرے ہوئے مندر ویران ہو جاتے۔ دھماکے اور خودکش حملے کرنے والے اس بات سے بھی بے خبر نہیں ہوں گے کہ پاکستان کی مارکیٹوں‘ با زاروں اور دکانوں اور گھروں میں کہیں قرآن پاک کے نسخے ہوتے ہیں تو کہیں دیواروں پر اﷲ کریم کی عظمت اور بڑائی والی آیت الکرسی اور دوسری آیات مبارکہ کو خوبصورت فریموں میں سجا کر لٹکایا گیا ہوتا ہے اور جب کسی خود کش حملے یا دھماکے سے یہ گھر‘ یہ بازار اور مارکیٹیں اڑائی جاتی ہیں تو یہ پاکیزہ اوراق بھی شعلوں کی نذر ہو جاتے ہیں۔ کیا تحریک طالبان کے لوگ اس طرح ہونے والی مقدس آیات کی بے حرمتی کو برداشت کرلیتے ہوں گے؟ میں جب قرآن پاک اور قرآنی آیات کو آگ اور دھویں میں جلتے دیکھتا ہوں تو ایسے ہی خیال آنے لگتا ہے کہ اگر ایسا کہیں اور ہوتا تو اس ملک کا کیا حا ل ہوتا؟ اگر اس طرح کے دس بیس واقعات کلکتہ، ممبئی،نئی دہلی، بنگلور اور چنائے میں ہوتے تو یقیناََ بھارت کی آدھی سے زیا دہ مارکیٹیں اور با زار بند ہوجاتے اور جو دکانیں اور مارکیٹیں سخت سکیورٹی میں کھولی جاتیں وہاں خواتین اور مرد لوگ خریداری کرنے کے تصور سے ہی کانپ جاتے ۔ جیسا کہ میں نے شروع میں کہا ہے کہ میں انتہا پسندی کا قائل نہیں‘ امن اور اچھی پر خلوص دوستی کا قائل ہوں لیکن جب پاکستان کی مسجدیں، سکول، بازار، سول اور فوجی گاڑیوں اور ان کے اداروں پر خود کش اور بارودی دھماکوں کی وجہ سے ہونے والی تباہی اور انسانی جانوں‘ جن میں بچے‘ بوڑھے اور خواتین بھی شامل ہوتی ہیں‘ کے کٹنے مرنے اور جلنے کی خبریں دیکھتا اور سنتا ہوں تو اکثر یہ خیال آتا ہے کہ یہ سب کون کر رہا ہے؟ ان دہشت گردوں سے دھماکے اور خود کش حملے کون کروا رہا ہے؟ اس وقت مجھے مغربی میڈیا اور امریکہ‘ برطانیہ‘ جاپان جیسے ممالک کی پاکستان کو دی جانے والی وہ دھمکیاں یاد آنے لگتی ہیں جو26/11 کے ممبئی حملوں کے بعد بھارتی فوج کے کمانڈر انچیف اور امریکی فوج کے وزیر دفاع رابرٹ گیٹس، برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اور جاپان کے وزیر خارجہ کے دورہ بھارت کے دوران نئی دہلی میں پاکستان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دی گئی تھیں۔ سوچتا ہوں کہ جب پاکستان میں ہر ایک گھنٹے کے بعد ایک دھماکہ ہوتا ہے اور جب روزانہ ایک خود کش دھماکہ کرایا جاتا ہے اس وقت یہ عالمی ضمیر ، عالمی میڈیا اور یہ سب عالمی لیڈر شراب کے نشے میں گم ہوتے ہیں یا پاکستانی مسلمانوں کے خون سے تحریک طالبان کی طرف سے کھیلی جانے والی ہولی کے نشے میں دھت ہو جاتے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس وقت بھارت میں امریکہ ، برطانیہ، اسرائیل ، جاپان سمیت تمام مغربی ممالک کے کئی ٹریلین ڈالرز کے کاروباری اور صنعتی یونٹ کام کر رہے ہیں اور یہ وہی امریکی، مغربی اور دوسرے ممالک ہیں جنہوں نے پاکستان کو دھمکیاں دی تھیں۔ امریکہ نے پاکستان کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کی ہر سرحد کو وہ خودمانیٹر کر رہا ہے اور اگر اس نے ہمارے دیے گئے احکامات کی خلاف ورزی کی تو پھر ہم سے بُرا کوئی نہیں ہوگا۔ گزشتہ پانچ سالوں میں تحریک طالبان نے پاکستان میں 246 خود کش دھماکے کرائے ہیں۔ اگر یہی کارروائیاں پاکستان کے دشمنوں کے خلاف کی گئی ہوتیں تو آج کشمیر میں قرآن پاک شہید نہ ہوتا، آج کشمیر کی 80 ہزار مسلمان مائیں‘ بہنیں اور بیٹیاں بھارتی درندوں کی ہوس کا نشانہ نہ بنتیں‘ آج کشمیر کی پانچ لاکھ سے زائد مسلمان بیٹیاں بیوہ نہ ہوتیں‘ آج پندرہ لاکھ سے زائد بچے اور بچیاں یتیم نہ ہوتے؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ تحریک طالبان تو بنائی ہی ایسے لوگوں نے ہے جو دنیا میں موجود اسلام کے قلعے اور پہلی اسلامی ایٹمی طاقت کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے منصوبے رکھتے ہیں۔ کاش مسلمان دوسرے مسلمان کا گلا نہ کاٹے۔۔۔۔ کاش!!