بھارت کے آرمی چیف جنرل چوہدری نے کمانڈر ویسٹرن کمانڈ کو یکم جون 1965ء کو ایک خصوصی خفیہ خط میں ہدایت کی کہ وہ فوری طور پر 6 مائونٹین ڈویژن اور فرسٹ آرمرڈ ڈویژن کی پٹھان کوٹ سامبا کی طرف نقل و حرکت کا محفوظ ترین منصوبہ تیار کرے۔۔۔۔مقصد آزاد کشمیر پر قبضہ کرنا تھا۔ ویسٹرن کمانڈ سے یہ منصوبہ ملنے اور اس پر تفصیل سے غور کرنے کے بعد 29 جون1965ء کو بھارتی آرمی چیف نے ویسٹرن کمانڈ کو پاکستان پر حملہ کرنے کیلئے تین آپشنز دیں۔ اول: امرتسر‘ لاہور جی ٹی روڈ‘ دوم: بھکی ونڈ‘ کھالرا اور تیسرا: کھیم کرن‘ قصور ۔۔۔ جنرل چوہدری کا سب سے پہلا پلان رائے ونڈ‘ ہیڈ بلوکی طرف سے لاہور کو گھیرے میں لیتے ہوئے آگے بڑھنے کا تھا۔ جنگ ستمبر پاکستانی عوام کے جذبے اور فوج کی بہادری اور قربانیوں کے ان گنت و اقعات سے بھری پڑی ہے اس لئے اس مضمون میں کسی جنگی محاذ کی بجائے جنگ ستمبرسے پہلے اور بعدکے ان پس پردہ واقعات کو بیان کرنے کی کوشش کروں گا تاکہ آج کی نئی نسل جان سکے کہ یہ جنگ کیوں اور کس طرح شروع ہوئی۔ اس حوالے سے بات کرنا اس لیے ضروری محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں اس وقت میڈیا میں بعض ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو بھارت کو امن کی آشا کا نشان اور پاکستان کو جھگڑالو اور دہشت گرد قرار دیتے ہوئے جھجکتے ہیں اور نہ شرماتے ہیں۔ بدقسمتی سے دشمن اب پاکستان پر باہر سے حملے کم اور اندر سے زیادہ کروا رہا ہے۔ بھارت نے جنگ ستمبر کی طرف پہلا قدم جنوری1960ء میں اس وقت بڑھایا تھا جب اس کی سپریم کورٹ نے عجیب و غریب فیصلہ دیتے ہوئے بھارتی حکومت کو مقبوضہ کشمیر کو با قاعدہ ضم کرنے کا اختیار دے دیا۔ بھارتی حکومت‘ سپریم کورٹ کے اس حکم پر عمل در آمد کیلئے ضروری قانونی کاروائیوں میں مصروف تھی کہ نومبر1962ء میں بھارت اور چین کی جنگ شروع ہو گئی جس پر یہ معاملہ وقتی طور پر دبا دیا گیا لیکن جنگ ختم ہونے کے کچھ عرصہ بعد اکیس دسمبر1964ء کو بھارتی حکومت نے پارلیمنٹ میں ایک بل متفقہ طور پر منظور کرایا جس کے ذریعے بھارت نے1950ء کے آئین کے آرٹیکل356 اور357 کو کشمیر پر فوری طور پر لاگو کرتے ہوئے اعلان کیا کہ بھارتی آئین کے آرٹیکل356 کی رو سے مقبوضہ کشمیر اب ایک علیحدہ ریاست نہیں بلکہ بھارت کا باقاعدہ ایک صوبہ بن چکا ہے جس کی رو سے اب وہاں صدر اور وزیر اعظم کا عہدہ نہیں بلکہ صوبائی وزیر اعلیٰ اور گورنر ہوں گے اور جہاں بھارت جب چاہے صدر راج نافذ کرسکتا ہے۔۔۔ دوسرے لفظوں میںایسا کرتے ہوئے بھارت نے پاکستان اور دنیا کوواضح پیغام دے دیا کہ اسے اب سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ سمیت کسی عالمی رائے عامہ کی کشمیر کے بارے میں پاس کی گئی قراردادوں کی کوئی پروا نہیں۔ دو اور تین ستمبر کی رات بھارتی فوجیں اپنی بیرکوں سے سرحدوں کی طرف بڑھنے لگیں اور بھارتی آرمی چیف جنرل چوہدری نے پاکستان پر حملہ کیلئے سات ستمبر کی تاریخ مقرر کرتے ہوئے سب کو تیار رہنے کا حکم دے دیا لیکن جب چار ستمبر کو اکھنور ہاتھ سے جانے کی خبریں آنے لگیں تو سات کی بجائے پانچ اور چھ ستمبر کی رات‘ فوری حملے کیلئے مقرر کر دی گئی۔۔۔ لیکن ہیڈ کوارٹر ویسٹرن کمانڈ نے ایک حکم جاری کیا کہ پانچ ستمبر کی شام تک سول اور فوج کاکوئی بھی وہیکل دریائے بیاس کے پل کو عبور نہیں کرے گا‘ تاکہ پاکستان کو دھوکے میں رکھا جا سکے۔ د وسری طرف پاکستانی انٹیلی جنس کو مزید دھوکہ دینے کیلئے پانچ ستمبر کو ہیڈ کوارٹر ویسٹرن کمانڈ کے سینئر افسران نے شملہ میں سول افسران اور شہریوں کی طرف سے دیئے گئے ظہرانہ میں شرکت کی۔ مقصد یہ تھا کہ دشمن( پاکستان) کے ایجنٹوں کو دھوکہ دیا جا سکے۔ ایک طرف ویسٹرن کمانڈ عوامی ظہرانے میں شریک تھی تو دوسری طرف جنرل ہر بخش سنگھ اور ان کے سٹاف کیلئے شملہ کلب کے عقب میں ایک ہیلی کاپٹر تیار کھڑا تھا جس نے چار بجے شام انہیں جالندھر پہنچانا تھا تاکہ وہ لاہور پر حملے کی کمانڈ کر سکیں۔۔۔بھارتی فوج کی تیاریاں مکمل تھیں جس کی خبر پاکستان کو اس طرح ہو گئی کہ چار ستمبر 1965ء کی شام پاکستانی فوج کے کمانڈر انچیف جنرل موسیٰ جی ایچ کیو راولپنڈی کے آپریشن روم میں بیٹھے تھے کہ آل انڈیا ریڈیو کے انائونسر ڈی میلو نے معمول کی نشریات روک کر بریکنگ نیوز دی کہ’’ پردھان منتری لال بہادر شاستری نے ابھی ابھی پارلیمنٹ کوبتایا ہے کہ پاکستانی فوج تیزی سے سیالکوٹ سے جموں کی طرف بڑھنے کی تیاریاں کر رہی ہے‘‘۔۔۔ اور شاستری کو یہ اطلاع بھارت کی کسی خفیہ ایجنسی نے نہیں بلکہ لائن آف کنٹرول پر تعینات اقوام متحدہ کے فوجی مبصر نے دی تھی۔۔۔ بھارتی فوج کے26 ڈویژن کے کمانڈر جنرل تھاپن کو 31 اگست کو یو این او کے مبصر نے ایمر جنسی اطلاع دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کی آرمرڈ فورسز چھمب کے بالمقابل اکٹھی ہو رہی ہیں‘‘ اوراس بات کا اعتراف بھارتی فوج کے جنرل بھوپندر سنگھ نے 65ء کی جنگ کے بعد شائع ہونے والی اپنی کتاب میں بھی کیا ہے۔ جنرل موسیٰ نے جونہی یہ بریکنگ نیوز سنی ان کا ماتھا ٹھنکا کیونکہ خصوصی انائونسرڈی میلو اور جنرل موسیٰ نے ملٹری اکیڈیمی ڈیرہ دون سے ایک ساتھ ہی کمیشن حاصل کیا تھا اس لیے وہ فوراً ہی اس بریکنگ نیوز میں چھپے ہوئے ڈی میلو کے خفیہ پیغام اور اس کے لہجے کی تہہ تک پہنچ گئے اور اسی وقت انہوں نے پاک فوج کی تمام فیلڈ فارمیشنزکو ایک خفیہ سگنل کے ذریعے ہائی الرٹ کیا ’’ کہ بھارت اگلے چوبیس گھنٹوں میں پاکستان پر حملہ کرنے والا ہے‘ فیلڈ کمانڈرز اپنی اپنی دفاعی پوزیشنیں فوراً سنبھال لیں‘‘ اگلے چوبیس گھنٹوں بعد 5/6 ستمبر کی درمیانی رات بھارت نے پاکستان پر بھر پور حملہ کر دیا جو چھ ستمبر کے نام سے پاکستان کی دفاعی تاریخ کا انمٹ حصہ بن چکا ہے ۔ چھ ستمبر کی بھارتی جارحیت کو 48 سال گزر چکے ہیں اور یہ سال ایسے گزر گئے کہ مڑ کو دیکھیں تو یہی لگتا ہے جیسے کل کی بات ہو اور پاکستان کی آج کی نئی نسل تو دور کی بات ہے وہ لوگ جو معرکہ ستمبر سے دو دہائیوں بعد پیدا ہوئے ہیںوہ بھی جنگ ستمبر کی تاریخ سے اتنا ہی واقف ہیںکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک زبردست جنگ ہوئی تھی۔ جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو اپنے اندر ضم کر لیا تو پاکستان نے عالمی رائے عامہ کو بھارت کی اس ننگی اور غیر آئینی جارحیت کی طرف متوجہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن کسی نے بھی اسے سنجیدگی سے نہ لیا۔۔۔جس پر پاکستان نے کشمیریوں کو بھارتی تسلط سے آزادکرانے کیلئے آپریشن جبرالٹر کا آغاز کر دیا۔۔۔جب اکھنور پر پاکستانی فوج کا دبائو حد سے زیا دہ بڑھ گیا تویکم ستمبرکو لال بہادر شاستری نے بھارتی آرمی چیف جنرل چوہدری کو ایمر جنسی ملاقات کے لیے بلایا جو اس وقت سری نگر میں تھے ۔۔۔بھارتی وزیر اعظم نے جنرل چوہدری کو چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر انٹر نیشنل بارڈر کراس کرتے ہوئے پاکستان پر حملے کا حکم دے دیا ۔ یکم ستمبر کو ائر مارشل ارجن سنگھ کی ہدایت پر بھارتی ائر فورس کے چار طیارے چھمب سیکٹر میں 191 انفنٹری کی مدد کیلئے پہنچے ان کو صرف اتنی سی کامیابی ملی کہ پاکستان کی انفنٹری بٹالین کی 13 پنجاب کو اپنی پوزیشن سے ہٹنا پڑ گیا اور ساتھ ہی 28 میڈیم رجمنٹ کی 155 ایم ایم گن کو جزوی نقصان ہوا لیکن چند لمحوں بعد پاکستانی شاہینوں نے ان چاروں بھارتی طیاروں کو منٹوں میں تباہ کر کے بھارتی عوام اور فوج کا مورال زمین بوس کر دیا۔۔۔۔۔بھارتی ائر فورس کے چار طیاروں کے اس حملے کے فوری بعد جی ایچ کیو راولپنڈی سے ایک حکم جاری ہو گیا کہ تمام چھائونیوں میں مقیم یونٹس سرحدوں کے قریب منتقل ہو جائیں۔۔۔تین ستمبر کو GOC 10 ڈویژن نے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل بختیار رانا سے درخواست کی کہ وہ اپنی ڈویژن کو جنگی پوزیشنوں پر متعین کرنا چاہتا ہے لیکن انہیں ایسا کرنے کی اجا زت یہ کہہ کر نہ دی گئی کہ بھارت محاذ آرائی پراتر آئے گا۔۔۔۔لیکن جنرل رانا نہ جانے کیوں نہ جان سکے کہ بھارت توپاکستان سے محاذ آرائی کا فیصلہ جون1965ء سے قبل ہی کر چکا تھا…!