قرآن حکیم کی سورہ شوریٰ میں ارشاد ربانی ہے: ’’آسمانوں اور زمین کی سلطنت اﷲ تعالیٰ کیلئے ہی ہے‘ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے‘ جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے یا پھر بیٹے اور بیٹیاں ملا جلا کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ کر دیتا ہے‘ وہ بڑے علم والا کامل قدرت والا ہے‘‘۔ لیکن آج ایک بار پھر بیٹیاں زمانہ جاہلیت کی طرح زندہ دفن کی جا رہی ہیں‘ لاہور کی سنبل کی طرح وحشت کی بھینٹ چڑھائی جا رہی ہیں۔ کراچی کے علاقے کھارادر میں ایک شخص اپنے ساتھ لائی ہوئی تین سے پانچ سال عمر کی تین بچیوں کو گارڈن ایدھی سنٹر کے دروازے پر چھوڑ کر چپکے سے کہیں غائب ہوگیا۔ دو دن ہوئے‘ شیخوپورہ میں گوجرانوالہ روڈ کے ریلوے کراسنگ پر پانچ سے سات روز کی دو نوزائیدہ بچیوں کو سائیکل سوار پھینک کر فرار ہو گیا۔ لاہور‘ شاہدرہ کے ایک رکشہ ڈرائیور نے بیٹا پیدا نہ کرنے کے جرم کی سزا اس ماں کو اس طرح دی کہ اس کی آنکھوں کے سامنے ڈیڑھ سال کی اپنی بیٹی زینب کو دریائے راوی کی لہروں کی نذر کر دیا۔ ہو سکتا ہے جب باپ نے ڈیڑھ سالہ زینب کو اپنے بازوئوں میں لیا ہوگا تو اس معصوم بیٹی نے سوچا ہو گا کہ وہ اس و قت ایسے مضبوط ہاتھوں میں ہے جو اسے دنیا میں سب سے زیا دہ تحفظ دینے والا ہے۔ اسے جب باپ کے ہاتھوں نے فضا میں بلند کیا ہو گا تو اس وقت وہ سمجھی ہو گی کہ باپ اسے جھولا جھلانے کیلئے ہوا میں اچھال رہا ہے۔ لیکن زینب جب تیزی سے راوی کے گہرے پانیوں کی طرف بڑھ رہی ہوگی تو اس نے باپ کے مضبوط ہاتھوں کا سہارا لینے کیلئے ہاتھ پائوں ضرور مارے ہوں گے! مذہب کے بعد انسان کی سب سے زیادہ محبت اور وارفتگی کہیں دیکھنے میں آتی ہے تو اس کی اولاد کی شکل میں سامنے آتی ہے۔ آج سے چودہ سو سال قبل سر زمین عرب میں بتوں کی پوجا کی جاتی تھی۔ کفر اور جہالت کے اس سیاہ دور میں بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔ لیکن حضرت محمد مصطفیﷺ کی صورت میں رحمت خداوندی کا ظہور ہوا تو اﷲ نے اہل مکہ کی اس قبیح حرکت کے خلاف آیت مبارکہ نا زل کرتے ہوئے انہیں اس سے منع فرمایا۔ بتوں اور مورتیوں کو اپنے ہی ہاتھوں سے بناسجا کر اور پھر انہیں اپنا بھگوان کہہ کر پوجنے والے ہندوستانی معاشرے کی طرح بد قسمتی سے پاکستان میں آج بھی عورت سے صرف بیٹا کرنے کی امید نہیں بلکہ ضد کی جاتی ہے۔ بر صغیر میں جو عزت ، وقعت اور مقام بیٹوں کو حاصل ہے وہ بیٹیوں کو نہیں دیا جاتا۔ چند ایک بڑے شہروں کے چند ہزار گھرانوں کے سوا ہر طرف عورت کو ایک غلام کی حیثیت دی جاتی ہے اور اسے ایک بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ میرا ایمان ہے کہ بیٹیاں اگر ماں باپ کیلئے بوجھ ہوتیں، بیٹیاں اگر با عث رحمت نہ ہوتیں، بیٹیاں اگر خاندان کی عزت و وقار کا نشان نہ ہو تیں تو محبوب خدا محمد مجتبیٰ ﷺکے گھر سیدہ فاطمۃ الزہراؓ کی شکل میں بیٹی کبھی پیدا نہ ہوتی۔ مغل شہنشاہ ہند جہانگیر کی ملکہ نور جہاں، جس کے ایک اشارے پر ہندوستان کی قسمت کے فیصلے تبدیل ہو جاتے تھے‘ کے ایرانی النسل لواحقین نے اس شیرخوار کو خود پر بوجھ سمجھتے ہوئے سڑک پرلاوارث چھوڑ دیا تھا۔ مغل سلطنت کے کچھ سرکاری اہل کاروں کا ادھر سے گزر ہوا تو وہ بچی کے رونے کی آواز سن کر گھوڑوں سے اترے‘ دیکھا کہ ایک انتہائی خوبصورت بچی روئے جا رہی ہے۔ اس بچی کو شہنشاہ ہند کی طرف سے قائم کیے گئے ایک ادارے میں پہنچا دیا گیا۔ وہی بچی بعد میں نو رجہاں کے نام سے ہندوستان کے شہنشاہ اور عوام کی منظور نظر اور سب سے پیاری ملکہ بنی۔ اگر ہندوستان کی بات کی جائے تو سب سے زیا دہ تضاد جو کھل کر سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ بیٹی سے اور بیٹی پیدا کرنے والی ماں سے نفرت کرنے والوں کی دیوی مرد نہیں بلکہ عورت ہے۔ ہندوستان میں اگر کسی کو دولت کی ضرورت ہو‘ خوش حالی کی تمنا ہو‘ کسی کاروبار سے یا کسی بھی ذریعے سے دولت مل جائے تو’’ لکشمی دیوی‘‘ کہہ کر اس کی پوجا کی جاتی ہے۔ بلکہ ہندوئوں میں ایک رسم جسے بڑی با قاعدگی سے ادا کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ جب لڑکی شادی کے وقت اپنے ماں باپ کے گھر سے رخصت ہونے لگتی ہے تو وہ کچھ روپے اپنی ماں کی ہتھیلی میں رکھتے ہوئے یہ پرارتھنا کرتی ہے کہ لکشمی سدا اس کے ماں باپ کے گھر میں ڈیرہ ڈالے رہے۔ پاکستان میں یہ رسم اس طرح ادا کی جاتی ہے کہ سسرال روانگی کے وقت چاولوں کی مٹھیاں بھر بھر کر دلہن اپنے سر سے پیچھے پھینکتی جاتی ہے تاکہ اس کے جانے کے بعد اس کے والدین کے گھر کا رزق کم نہ ہو۔ ہندوستان میں اگر کسی نے اچھے تعلیمی درجے کیلئے کالج یا یونیورسٹی کا کوئی امتحان دیا ہو تو سرسوتی ماں کی پوجا کی جاتی ہے۔ اس کے آگے سر جھکاتے ہوئے امتحان میں کامیابی کی پرارتھنا کی جاتی ہے۔ اگر ہندوستان میں کسی کو کوئی ذہنی پریشانی ہو تو ’’امباجی ماں‘‘ کے آگے سر جھکایاجاتا ہے۔ اگر کسی مصیبت‘ پریشانی یا شیطانی قوت کا سامنا ہو‘ دشمن کے حملے کا مقابلہ کرنا ہو تو’’ کالی ماں‘‘ کے چرنوں میں بیٹھ کر اس سے ’’جے کالی ماں‘‘ کہہ کر مدد مانگی جا تی ہے۔ جب سب کچھ عورت ہی سے مانگا جاتا ہے‘ جب کسی بھی تکلیف سے نجات پانے کیلئے عورت کو ہی اپنی امیدوں کا سہارا بنایا جاتا ہے تو پھر عورت جو ابتدا میں بچی کی شکل میں ایک بیٹی کی صورت میں سامنے آتی ہے تو اس سے نفرت کیوں؟ ہندوستان میں اب بہت سی سماجی تنظیمیں یہ سوال اٹھا رہی ہیں کہ اگر بیٹی بوجھ ہے‘ اگر بیٹی کی پیدائش پسند نہیں تو پھر کالی ماں کی شکل میں بیٹھی ہوئی عورت نفرت کا نشان کیوں نہیں؟ پاکستان اور ہندوستان میں ایک دوسرے کو گالیاں بکتے ہوئے بھی ماں بہن اور بیٹی کی ہی تذلیل کی جاتی ہے اور اس کا مظاہرہ ہر گلی بازار، سڑک، مارکیٹ، راہ چلتے اور ہر سکول، کالج، دفتراور یونیورسٹی میںکیا جاتا ہے۔ ایسا کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ اس سے ماں بہن بیوی کی صورت میں ہربیٹی کی تذلیل ہوتی ہے۔ اﷲ کی ذات پاک ہی بہتر جانتی ہے کہ اب تک زینب کی صورت میں نہ جانے کتنی بے گناہ بچیاں اس ظلم اور سفاکی کا نشانہ بن چکی ہیں اور کب تک بیٹیاں اپنے باپ کے ہاتھوں موت کے منہ میں جاتی رہیں گی۔ کسی کی پیدائش ہماری خواہش اور مر ضی کے مطا بق ہو‘ یہ سوچ اور خیال عقل و فہم سے بعید ہے۔ اس سوچ کا مظاہرہ اگر ایسے انسان کی طرف سے ہو جسے اپنی فہم و فراست پر ناز بھی ہو تو تعجب ہی نہیں اس کی سوچ پر افسوس بھی ہوتا ہے۔ یہ آج کی بات نہیں‘ زمانہ جاہلیت سے وتیرہ چلا آ رہا ہے کہ انسان لڑکے کی پیدائش پر خوشی اور لڑکی کی پیدائش پر نا خوشی کا اظہار کرتا ہے۔ قرآن پاک میں اس طرح کے لوگوں کو انتہائی نا پسند کرتے ہوئے اﷲ نے سورۃ النحل میں ارشادفرمایا ہے: ’’جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی پیدائش کی خبر دی جا تی ہے تو ان کا چہرہ غصے سے سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غمگین ہوتا ہے‘‘۔