"MABC" (space) message & send to 7575

عزت وردی میں نہیں

عزت کسی بھی پہنی ہوئی وردی میں نہیں بلکہ عزت کا انحصار وردی کو پہننے والے انسان کے طرز عمل پرہوتا ہے۔ خوبصورت شکل و صورت کا حامل شخص وردی میںزیادہ خوبصورت نظر آتا ہے ،جبکہ معمولی شکل وصورت کا آدمی بڑ ے سے بڑے عہدے کی وردی بھی کوئی خوش کن تاثر پیدا کرنے سے قاصر رہتا ہے لیکن عوام کے دلوں میں ان دونوں کا دلی احترام ان کے رویے اور کردار پر منحصر ہوتا ہے ۔ایسے لوگوں کے جہانِ فانی سے گزر جانے کے بعد ان کے اعمال اور رویوں کے حوالے سے انہیں اچھے یا برے الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے ۔ظاہر ہوا کہ کسی بھی انسان کی عزت وردی میں نہیں بلکہ اس کے طرزِ عمل پر منحصر ہوتی ہے ۔اگر کوئی شخص وردی یا عہدے کے خوف سے آپ کے نامعقول رویے پر خاموش رہتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ دل میں آپ کے خلاف اس قدر غلیظ الفاظ استعمال کر رہا ہو جس کا آپ نے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہو گا۔ وردی چاہے فوج کی ہو یا کوسٹ گارڈز کی، نیوی کی ہو یا فضائیہ کی، رینجرز کی ہو یا ایف سی کی ، کسٹم کی ہو یا ایکسائز کی ، ریلوے کی ہو یا پی آئی اے کی ، وکیل کی ہو یا پولیس کی ،ہمارے لیے سب قابلِ احترام ہیں کیونکہ یہ وطن عزیز پاکستان اور اس کے وضع کردہ قوانین کی عطا کردہ ہوتی ہیں ۔ قومی ترانہ سنتے ہوئے یا پرچم کشائی کی کسی بھی تقریب میں کسی بھی محکمے کی وردی پہنے ہوئے ہر شخص پر واجب ہے کہ وہ قومی پر چم کو سلیوٹ کرے ۔اسی طرح پاکستان اور پاکستان سے با ہر کسی بھی جگہ پر وردی پہنے ہوئے ہر شخص پر یہ فرض بھی و اجب ہے کہ وہ کوئی ایسا عمل نہ کرے جس سے وردی کی عزت اور وقار پر حرف آئے کیونکہ وطن اور وردی لازم و ملزوم ہیں۔وردی کی عزت و عظمت کا ایک زندہ ٔ جاوید نمونہ ہر شام لاہور کی واہگہ سر حد پر دیکھنے کو ملتا ہے جب رینجرز کے جوانوں کی وردی کی شان اور چمک دمک اور اس کے ساتھ ساتھ بجلی کی طرح کوندتے ہوئے جوتوں کی دھمک سب حاضرین کو پرزور تالیاں بجانے پر مجبور کردیتی ہے۔دوسری طرف آپ نے کئی بار دیکھا ہوگا کہ بھارتی بارڈر فورس کی وردی میں ملبوس جوان گرمی کی شدت میں پیریڈ کے دوران اکثر گرپڑتے ہیں ، جس پرہوٹنگ ہوتی ہے۔ یہ ہوٹنگ گرنے والے شخص کی کم مگر اس کی وردی کی زیادہ ہوتی ہے۔ وردی پہنے ہوئے کسی اہلکار کا عوام سے اور وردی پوشوں کا آپس میں جھگڑا ہر روز کہیں نہ کہیں دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وردی پوش اختیارات کا ناجائز استعمال اپناحق سمجھنے لگے ہیں۔ وردی میں ملبوس موٹرسائیکلوں پر ادھر ادھرگھومنے والے کانسٹیبل عوام کا وہ حشر کرتے ہیں کہ لاکھوں لوگوں کے دلوں سے ان کے لیے منہ پر ، اور بعد میں بھی ، گالیوں اور بددعائوں کے سوا کچھ نہیں نکلتا ، کیونکہ ان کا رویہ انتہائی تکلیف دہ اور توہین آمیز ہوتا ہے۔گزشتہ اخبارات میں ایک چھوٹی سی خبر تھی کہ لاہور کے ایک قابل احترام ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت نے شمالی چھائونی پولیس کے ایک انسپکٹر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے اسے آٹھ اکتوبر کو طلب کرلیا ہے کہ کیوں نہ اس کے خلاف وکلاء کے متعلق نازیبا الفاظ استعمال کرنے اور ان کی وردی کے مقابلے میں پولیس کی وردی کوبرتر کہنے پر کارروائی عمل میں لائی جائے۔ دیکھا جائے تو پولیس اور وکلاء دونوں کی وردی ایک سی ہے۔پولیس والے اگر وردی میں کالے ملیشیا کی قمیض کے ساتھ خاکی پتلون پہنتے ہیں تو وکلاء کالے کوٹ کے ساتھ اکثر سفید پتلون میں ملبوس ہوتے ہیں۔ پھر پولیس اور وکلاء کی وردی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اگر پولیس نہ ہوتو وکلاء کی وردی کس کام کی اور اگر وکلاء نہ ہوں تو پولیس کیا کرے گی؟ اس لیے پولیس اور وکلاء پر ایک دوسرے کا احترام لازم ہے۔ لیکن بدقسمتی سے آئے دن خبریں آتی ہیں کہ پولیس اور وکلاء ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوگئے۔ اس سے عوام کے دلوں میں دونوں کے بارے میں اچھا تاثر نہیں ابھرتا۔ جس طرح اللہ کریم نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے کہ کسی گورے کو کالے پر فوقیت نہیں سوائے ان کے اعمال کے ، اسی طرح پولیس اور وکلاء میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کے مقابلے میں کمتر ہے نہ برتر، ہاں ان کا عمل انہیں معتبر یا نامعتبر بناتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دین اور دنیا کے قوانین کی اس طرح تقسیم کی ہے کہ دنیا تگ و دو اور جدوجہد کے لیے وقف کردی ہے اور آخرت میں اس کا اجر دیاجائے گا۔ سعی و کاوش حصول رزق ہی کا ذریعہ نہیں بلکہ آخرت کے لیے زاد راہ کا وسیلہ بھی ہیں۔بعض اوقات ایک طاقتور انسان چھین کر اور کمزور چرا کر بھی کھا پی لیتا ہے مگر دیکھا جائے تو یہ صفت حیوانات اور درندوں میں پائی جاتی ہے۔ انسان اشرف المخلوقات اسی لیے کہلاتا ہے کہ وہ حصول رزق میں فہم و ادراک سے صحیح اور جائز طور پر کام لے لیکن اگر انسان ان صفات سے کام نہیں لیتا جو اسے حیوانوں اور درندوں سے ممتاز و ممیز کرتی ہیں تو پھر وہ حیوانوں اور درندوں سے بھی بدتر ہوجاتا ہے کیونکہ وہ عقل و شعور کے استعمال سے حیوانوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ وحشت و بربریت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ کیا وردی کے اعزاز سے متصف ، خواہ اس کا تعلق کسی بھی محکمے سے ہو کوئی شخص اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتا ہے کہ اس کا رویہ وطن عزیز پاکستان کے شہریوں کے ساتھ منصفانہ ہے؟ اس کا حصول رزق کا ذریعہ صاف شفاف اور ایماندارانہ ہے؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں