وقت نے ثابت کر دیا کہ بھارتی فوج دنیا کی سب سے بڑی’’ روگ آرمی‘‘ ہے اور اسے یہ اعزاز کسی الزام کی بنا پر نہیں، یا کھل کر کہہ لیں تو چین یا پاکستان کی طرف سے نہیں،بلکہ اس کی مسلح افواج کے سابق آرمی چیف جنرل وجے کمار سنگھ کے بھارت ہی کے اخبار کو دیئے گئے ایک انٹرویو کی بنا پر ملا ہے۔ جنرل وجے کمار سنگھ کے اس اعتراف سے دنیا بھر کی ہیومن رائٹس کے علاوہ سفارتی اور فوجی حلقوں میں ایک کھلبلی سی مچ گئی ہے اور وہ بھارت جو کل تک کارگل جنگ کے دوران اپنے پاکستانی ’’ دوستوں‘‘ کے تعاون سے پاکستانی فوج کے خلاف انڈین ڈیفنس جرنل اور امریکہ بھر کے اخبارات میں روگ آرمی کے نام سے گراں قیمت بڑے بڑے اشتہارات چھپوا تارہا تھا اب اپنی فوج کی حقیقت کھلنے پر دنیا بھر سے منہ چھپاتا پھرتا ہے اور یہی بکرم سنگھ، جو آج بھارت کا آرمی چیف ہے ، کارگل جنگ کے دوران بھارتی فوج کا میڈیا ترجمان بن کر پاکستان کو روگ آرمی کے خطاب سے نواز رہا تھا۔ یہ تسلیم کرتے ہوئے افسوس ضرور ہوتا ہے کہ اس دہائی کے اہم ترین انکشاف پر بھارتی فوج کے خلاف پاکستان کا میڈیا اپنی فوج کا اس طرح ساتھ نہیں دے رہا جس طرح پاکستان کے خلاف بھارت کا میڈیا یک جان ہو جاتا ہے۔ بھارت کے سابق آرمی چیف وجے کمار سنگھ نے ببانگ دہل تسلیم کیاکہ بھارتی فوج نے بغیر کسی کی اجا زت اور مشورے کے ’’ٹیکنیکل سروسز ڈویژن‘‘ کے نام سے فوج کے افسروں اور جوانوں پر مشتمل ایک ایسا خفیہ ادارہ قائم کیا جو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ بھارت اور پاکستان کے سیا ستدانوں، میڈیا اور این جی اوز میں رقوم تقسیم کرتے ہوئے سیا سی حکومتوں کو الٹانے کی کارروائیوں میں بھی مصروف رہا۔ بھارتی فوج کے سابق سربراہ کی جانب سے یہ اقرار کوئی معمولی بات نہیں کہ ان کے منتخب کردہ فوجی پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث رہے ہیں بلکہ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ بھارت کا ہر فوجی افسر اور جوان مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کے خون کا پیاسا رہا ہے اوربھارت کے سابق چیف کے ساتھ ساتھ موجودہ آرمی چیف جنرل بکرم سنگھ بھی اس سفاکی میں پیش پیش رہے ہیں۔ یکم مارچ 2001ء کو جب وہ مقبوضہ کشمیر میں راشٹریپ رائفلز میں بطور کرنل تعینات تھے تو جنگلات منڈی کے علاقے میں ایک جعلی مقابلے میںپانچ کشمیری نوجوانوں کو بے رحمی سے شہید کر دیا۔ ان بے گناہ اور معصوم کشمیری نوجوانوں کے قتل کے خلاف پوری وادیٔ کشمیر میں آگ بھڑک اٹھی اور کرنل بکرم سنگھ، اور ان کے ساتھی پانچ افسروں کے خلاف با ضابطہ طور پر ایک مقتول کی والدہ زیتونہ بیگم کی طرف سے سری نگر ہائی کورٹ میں قتل کا مقدمہ درج کرایا جو آج بھی زیر التوا ہے لیکن وہ بھارت ،جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی عدلیہ آزاد ہے، اور جس کے بارے میں ہمارے میڈیا کے کچھ لوگ یہ بتاتے نہیں تھکتے کہ وہا ں آئین اور قانون کی حکمرانی ہے، اسی بھارت میں پانچ کشمیری نوجوانوں کے قتل میں ملوث کرنل بکرم سنگھ کو بریگیڈیئر اور پھر اس کے بعد درجہ بدرجہ ترقیاں دیتے ہوئے آرمی چیف بنا دیا گیا اور کوئی قانون انہیں پوچھنے والا نہیں؟ بکرم سنگھ کے ساتھی افسران اجے سکسینہ کو میجر جنرل،میجر برجیندر پرتاپ ،سوراب شرما اور میجر امیت سکسینہ کو کرنل کے عہدوں پر ترقی دے دی گئی ۔ اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ بھارتی فوج اور آئین میں ترقی کا معیار اہلیت اور قابلیت نہیںبلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس نے کتنے کشمیریوں کو قتل کیاہے کتنی کشمیری بیٹیوں کی عصمت برباد کی ہے۔ 1995ء میں کشمیر سے چھ غیر ملکی سیا حوں کو ا غوا کیا گیا تو اگلے دن الفاران نام کی ایک تنظیم کی طرف سے دعویٰ سامنے آ گیا کہ ان سب غیر ملکیوں کو ہماری تنظیم نے کشمیر کی آزادی کے لیے اغوا کیا ہے۔ اس پر دنیا بھر میں کشمیری حریت پسندوں کے خلاف میڈیا اور ہیومن رائٹس والوں نے یلغار کر دی لیکن چند سال بعد دنیا کے مانے ہوئے صحافیوں Ardin Levy اورCathy Scot-Clarkنے اپنی کتاب \'\'The Meadow\'\' میں تفصیل سے لکھ دیا کہ کیسے بھارتی فوج کے سرمائے اور مدد سے قائم کی گئی ایک جعلی الفاران نامی جہادی تنظیم کے ذریعے ان غیر ملکی سیاحوں کو اغوا کیا گیا تاکہ کشمیر یوں کی جدو جہد آزادی کو دنیا بھر میں تنہا اور رسوا کر دیا جائے۔ اس کتاب میں انہوں نے تفصیل سے بتایا ہے کہ ان سیا حوں کو کس طرح بھارتی فوجیوں کے ایک سیف ہائوس میں رکھا گیا تھا۔اور الفاران بھی اسی طرز کی کشمیری حریت پسندوں کے نام پر بنائی گئی ایک تنظیم تھی جس کا اعتراف سابق بھارتی آرمی چیف جنرل وجے کمار سنگھ نے ہندوستان ٹائمز کو دیئے گئے انٹر ویو میں کیا ہے۔ دنیا کو یہی بتایا جاتا ہے کہ بھارتی فوج اپنے ملک کی جمہوریت کے تابع ہے اور وہاں فوج سے متعلق تمام معاملات سول قیا دت کی مرضی سے ہی طے کیے جاتے ہیں جو سرا سر غلط ہے، حقیقت یہ ہے کہ یہ سب باقاعدہ بھارتی پراپیگنڈے کا حصہ ہے۔ اگر بھارت اپنی ’’ سول طاقت‘‘ اور فوج کی اصل طاقت دیکھنے سے قاصر ہے تو کیا بھارتی جمہوریت نہیں جانتی کہ وہ پاکستان سے1992 ء میں، پھر2005ء اور پھر2011 ء میں سیا چن کا مسئلہ حل کرنا چاہتی تھی اور اس سلسلے میں باقاعدہ معاہدے کی شرائط بھی طے ہو گئی تھیں کہ اچانک بھارتی جرنیلوں نے اپنی تلواریں سونت کر ان معاہدوں کو تہ تیغ کر دیا ۔سب سے پہلے2005ء میں بھارتی فوج کے پہلے سکھ آرمی چیف جنرل جے جے سنگھ نے پاک بھارت سیا چن پر معاہدہ کی خبر باہر آتے ہی بھارتی فوج کی طرف سے پالیسی بیان جا ری کر دیا کہ بھارتی فوج سیاچن پرپاکستان کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی رو سے اپنی فوجیں واپس نہیں بلائے گی۔ پاکستان کے ایک آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت نے جب نیشنل سکیورٹی کونسل کی تشکیل کی بات کی تھی تو ان سے استعفیٰ لے کر اگلے ہی لمحے گھر بھجوا دیا گیا تھا لیکن اس کے بر عکس جب مقبوضہ کشمیر کے وزیر اعلیٰ کی طرف سے آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ کی واپسی کا مطالبہ کیا گیا تو بھارت کی ناردرن کمانڈ کے جنرل بی ایس جسوال نے وزیر اعلیٰ سے کہا’’ ہمارے اس قانون کو ایک مقدس کتاب کی طرح سمجھو اور اس کو چھونے کی بھی کوشش نہ کرنا‘‘اور ساتھ ہی نئی دہلی کو پیغام بھیج دیا کہ اگر کسی نے اس قانون کو بدلنے یا واپس لینے کی کوشش کی تو ہم لائن آف کنٹرول کی سرحدیں در اندازوں کے لیے خالی کر دیں گے۔کسی بھی ملک کی باقاعدہ مہذب فوج سول حکومت کو اس طرح کی دھمکی دے سکتی ہے سوائے’’روگ آرمی‘‘ کے؟۔