2002ء میںبھارت کے صوبہ گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کے ہاتھوں تین ہزار سے زائد مسلمان بچوں، بوڑھوں، مردوں اور عورتوں کے قتل عام نے اقوام عالم میں بھارت کا سر شرم سے جھکا دیا۔ دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیمیں اس قتلِ عام پر سراپا احتجاج بن گئیں تو اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے اس سفاکی پر نریندر مودی کو گجرات کی وزارت اعلیٰ کے عہدے سے بر طرف کرنے کا فیصلہ کر لیا اور اس بر طرفی کا وہ اعلان کرنے جا ہی رہے تھے کہ ایل کے ایڈوانی‘ جو اس وقت بھارتیہ جنتا پاٹی کے روح و رواں اور طاقت ور ترین شخصیت تھے‘ اس حکم کے درمیان حائل ہو گئے اور انہوں نے واجپائی کو مودی کے متعلق کسی بھی قسم کی کارروائی کرنے سے سختی روک دیا۔ نریندر مودی کی گجرات کی وزارت اعلیٰ تو ایڈوانی کی وجہ سے بچ گئی لیکن اس وقت جب ایڈوانی نریندر مودی کی وزارت اعلیٰ بچارہے تھے تقدیر ان کی قسمت پر یہ کہتے ہوئے ہنس رہی تھی کہ آج جس کی وزارت اعلیٰ بچانے جا رہے ہو کل کو تمہارا یہی احسان مند شخص بھارت کی وزارت عظمیٰ کی کرسی تمہارے نیچے سے کھسکا ئے گا اور تم اس کرسی سے اس قدر دور ہو جائو گے کہ باقی عمر اس کا خواب دیکھنے میں گزر جائے گی۔ بے خبر ایڈوانی کو اپنی غلطی کا احساس اس وقت ہوا جب جون2013ء میں جنتا پارٹی نے نریندر مودی کو2014ء میں ہونے والے عام انتخابات کے لیے پہلے تو پارٹی کی انتخابی مہم کا نگران اعلیٰ بنایا اور بعد میں پارٹی کی طرف سے وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کر دیا۔ اس خبر سے بھارت میں ایک تہلکہ مچ گیا اور جب انڈیا ٹو ڈے نے اس نامزدگی پر پورے بھارت میں عوام کی رائے جاننے کے لیے سروے کرایا تو حاصل ہونے والے نتائج سب کے لیے حیران کن تھے کیونکہ بھارت کے اگلے وزیر اعظم کے لیے نریندر مودی کے حق میں24 اورمقابلے میں راہول گاندھی کو17 فیصد بھارتی عوام نے پسندکیا اور کئی سالوں سے وزارت عظمیٰ کا خواب دیکھنے والے ایل کے ایڈوانی کے حق میں صرف سات فیصد لوگوں نے رائے دی۔ اس ناگہانی سلوک پر ایڈوانی ابھی تک سکتے سے باہر نہیں آ سکے کیونکہ گجرات کی وزارت اعلیٰ کی مضبوط ترین کرسی پر جنتا پارٹی کے اجلاس میں نریندر مودی کو براجمان کرانے والے ایڈوانی ہی تھے۔ اس وقت لال کشن ایڈوانی کی کیفیت دیکھنے والی ہو گئی جب 1923ء سے امریکہ سے شائع ہونے والے ہفت روزہ ٹائمز‘ جس کی اشاعت پچیس ملین کے قریب ہے‘ کے سر ورق پر ایڈوانی کی جگہ نریندر مودی کی تصویر اس کیپشن کے ساتھ جگمگا رہی تھی\'\'The world wakes up to India\'s next leader\'\' اور ٹائمز کے سر ورق پر چھپنے کا بھارت کا یہ اعزاز اس سے پہلے گاندھی، ولبھ بھائی پٹیل، جواہر لال نہرو اور اندر گاندھی کو حاصل تھا۔ کیا یہ امر حیران کن نہیں کہ امریکی حکومت2002ء کے مسلمانوں کے قتل عام کے بعد سے ا ب تک مودی کو ویزہ دینے سے انکاری ہے جبکہ امریکہ کا میڈیا اسی نریندر مودی کو بھارت کا سب سے طاقتور وزیر اعظم بنانے پر تلا ہوا ہے؟ پنجاب اور ہریانہ سمیت ہندوستان بھر میں پھیلے ہوئے سکھوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے نریندری مودی کی طرف سے بھگت سنگھ کی ڈائری کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ کل تک یہی دویندر سنگھ سندھو نام کا‘ بھگت سنگھ کا ایک دور پار کا رشتہ دار‘ بھگت سنگھ کی اس ڈائری کو چھپواکر اس کی تقریب رونمائی کانگریس سے تعلق رکھنے والے بھارتی صدر کے ہاتھوں کروانا چاہتا تھا لیکن جب سے بھارتیہ جنتا پارٹی نے گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو اگلے وزیر اعظم کے لیے نامزد کیا ہے‘ اس نے ایوانِ صدر سے معذرت کرتے ہوئے نریندر مودی کو تقریب رونمائی کے لیے بطورمہمانِ خصوصی مدعو کر لیا۔ 404 صفحات کی یہ ڈائری جوبھگت سنگھ نے انگریزحکومت کے دور میں اپنی716 دنوں کی قید کے دوران لکھی تھی آج بھارت بھر میں متنازعہ بن چکی ہے ۔ بھارت کا ایک طبقہ یہ سوچنے پر مجبور ہو رہا ہے کہ 23 مارچ1931ء کو جب بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں سکھ دیو اور راج گرو کو لاہور میں انگریزی سرکار نے پھانسی دی تھی‘ اس کے 82 سال بعد 2013ء میں بھارتی انتخابات سے پہلے آر ایس ایس اس متنازعہ ڈائری کو اپنی انتخابی سیا ست کے مقاصد حاصل کرنے کے لیے کیوں استعمال کر رہی ہے؟اس وقت جب نریندر مودی بھگت سنگھ کی اس مبینہ ڈائری کی تقریب رونمائی کے لیے اشتہار بازی کر رہے تھے تو بھگت سنگھ کے ہی ایک سگے بھائی‘ جو جن سنگھ کی طرف سے ہریانہ سے ایم ایل اے منتخب ہوئے‘ نے اس مبینہ ڈائری کے گردایک سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ۔۔بھگت سنگھ کے بھائی کا کہنا ہے کہ ڈائری کا جنتا پارٹی اور آر ایس ایس کا رچایا ہوا ڈرامہ سب جھوٹ ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ کئی سال پہلے اسی ڈائری کا ہندی اور انگریزی ترجمہ لکھنؤ کے ایک پبلشر راہول پرکاشن شائع کروا چکے ہیں۔ بھگت سنگھ کے بھائی کا دعویٰ ہے کہ بھگت سنگھ کی جیل میں لکھی ہوئی404 صفحات پر مشتمل اصل ڈائری کئی برس ہوئے ایک روسی سکالر کے ہاتھ بیچ دی گئی تھی ۔ 8 اپریل 1929ء کو اپنی گرفتاری سے لے کر پھانسی کے وقت23 مارچ1930ء تک جیل ریکارڈ کے مطا بق بھگت سنگھ نے302 کتابیں ایشو کرائیں اور روسی اس ڈائری میں اس لیے دلچسپی لے رہے تھے کہ اپنی یادداشتوں پر مشتمل اس ڈائری میں بھگت سنگھ نے کارل مارکس،ایڈم سمتھ،روسو،ٹراٹسکی،لینن، گورکی جیسے مصنفین کی کتابوں پر اپنے نوٹس لکھتے ہوئے مزدوروں، کسانوں اور طالب علموں کی چلائی جانے والی تحریکوں کے لیے اپنے مشاہدات اور درپیش مشکلات کا باریک بینی سے ذکر کرتے ہوئے ان کے حل بارے اپنی تجاویز لکھی تھیں‘ لیکن راشٹریہ سیوک سنگھ‘ جس کا نریندر مودی پیروکار ہے‘ کے ابتدائی اور بانی لیڈر گول والکر اپنے ایک انگریزی آرٹیکل \"Martyr\', Great But Not Ideal\'\' میں بھگت سنگھ بارے لکھتے ہیں ’’ٹھیک ہے اس نے قربانی دی ہے‘ انہیں ہیرو بھی شمار کیا جا سکتا ہے لیکن ایسے لوگ کوئی خاص تاثر نہیں چھوڑتے کیونکہ انہوں نے تخریب کاری اور قتل و غارت کو اپنی تحریک کا حصہ بنایا اور مقصد حاصل کرنے میں کسی بھی قسم کی کامیابی ان سے کوسوںدور رہی‘‘۔ انتخابی میدان میں اترتے ہی نریندر مودی اپنی سیا ست کیلئے ہر جھوٹ اورجعل سازی کا سہارا لے رہا ہے ایک طرف بھارت کی ہی ہندو انتہا پسند تنظیم سے تعلق رکھنے والا بھگت سنگھ کا بھائی دعویٰ کر رہا ہے کہ یہ ڈائری ایک روسی سکالر کے ہاتھ کئی سال قبل بیچ دی گئی ہے جبکہ دوسری طرف راشٹریہ سیوک سنگھ کے بانی گول والکر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ بھگت نے قربانی ضرور دی ہے لیکن یہ قربانی بھارت کیلئے کوئی مشعلِ راہ نہیں۔ اب یہ پنجاب ہریانہ اور بھارت کے دوسرے سکھوں کوسوچنا ہو گا کہ ان کے شہید اعظم بھگت سنگھ کی آتما کے ساتھ جو مذاق نریندر مودی اور اس کی پشت پناہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس کر رہے ہیں کیا وہ کسی طور بھی منا سب ہے؟۔اس سے کیا یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اپنی گھٹیا سیا ست اور ووٹ بینک کیلئے بھگت سنگھ کی آتما کو فروخت کیا جا رہا ہے؟ انڈیا ٹوڈے کی جانب سے کروایا گیا سروے سب کے سامنے ہے جس میں نریندر مودی کو کانگریس کے راہول گاندھی پر سات پوائنٹس کی برتری حاصل ہے۔ اس سروے سے یہ بات روزِ روشن کی طرح سامنے آچکی ہے کہ بھارتی عوام کی سوچ میں پاکستان دشمنی بڑھتی جا رہی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں ہمارے دانشور اور میڈیا کا ایک گروپ ہمیں امن کی بھاشا کی بھنگ پلا پلا کر مدہوش کیے جا رہا ہے تاکہ نہ تو ہم خود کو پہچان سکیں اور نہ ہی اپنے دشمن کو…!