لاہور کا دل شادمان‘ جس سے چند فرلانگ کے فاصلہ پر گورنر اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے دفاتر اور دوسری جانب اعلیٰ ترین سرکاری حکام کی رہائش گاہیں ہیں جہاں صوبہ پنجاب کے چیف سیکرٹری سمیت بڑے بڑے انتظامی افسران اور قانون کی عملداری کو یقینی بنا نے والے انسپکٹر جنرل پولیس، ڈی آئی جی اور ایس ایس پی قیام پذیر ہیں‘ اسی شادمان میں ایک ابن آدم کا جنازہ لواحقین اور احباب کے کندھوں پر آخری قیام گاہ کی طرف رواں تھا کہ اچانک گاڑیوں میں سوار کچھ لوگ‘ جن کے ہاتھوں میں کلاشنکوفیں تھیں‘ جنازے کا راستہ روک کر کھڑے ہوگئے۔ میت لے جانے والوں میں بھگدڑ مچ گئی۔ کلاشنکوف کے چند برسٹ ہوا میں چلانے کے بعد حملہ آوروں نے میت کو اپنے قبضہ میں لے لیا‘ چند قریبی لواحقین کے سوا سب لوگ فائرنگ سے بچنے کیلئے ادھر ادھر بھاگے‘ میت پر قبضہ کرنے والوں کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ مرنے والے نے ہم سے سود پر قرض لیا تھا۔ ہماری کچھ رقم اس کی طرف بقایا ہے‘ جب تک وہ اور اس پر سود کی ادائیگی نہیں ہو گی ہم یہ میت دفن نہیں کرنے دیں گے۔ میت کو کئی گھنٹے تک سود خوروں نے یرغمال بنائے رکھا۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ مرحوم نے سود پر لی ہوئی رقم سے دو گنا ادائیگی کر دی تھی لیکن سود در سود کے حساب سے ابھی کچھ رقم بقایا تھی۔ قانون کے خالق اور رکھوالے خاموش رہے‘ پولیس کی گاڑیاں نیلی بتیوں کی روشنیاں بکھیرتی ہوئی پاس سے گذرتی رہیں‘ کسی نے پل بھر رُک کر نہ سوچا کہ ایک دن میرا سفر حیات بھی ختم ہونا ہے ،اس آدمی کی جگہ میری میت بھی ہو سکتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ کے اس انوکھے اور ہولناک واقع پر اگلے دن ملک کے تمام اخبارات میں شور مچ گیا‘ لیکن کوئی ایک فرد بھی شادمان کی طرف نہ گیا‘ تمام مذہبی جماعتیں خاموش رہیں‘ سیاسی جماعتیں تماشہ دیکھتی رہیں‘ با رکونسلیں چُپ رہیں اور ابن آدم کی میّت دو دن تک سود خوروں کے قبضے میں رہی۔ تب مجھے لگا کہ لاہور زندہ دلوں کا نہیں مردہ دلوں کا شہر ہے۔ ابھی کل ہی روزنامہ ’’دنیا‘‘ کے ایک سروے میں سود خوروں کے ہاتھوں ذلیل و رسوالبرٹی مارکیٹ کے دکاندار یہ بتاتے ہوئے رو پڑے کہ اس مارکیٹ کی اکثر دکانوں پر سود خوروں کا قبضہ ہو چکا ہے اور باقی بھی بہت جلد ان کے ہاتھوں گروی ہونے والی ہیں۔ اگر میں گننا شروع کردوں کہ اب تک کتنے باپ‘ بچے‘ مائیں‘ بیٹیاں اور سہاگنیں اس سود در سودکی بھینٹ چڑھ چکی ہیں تو کئی مہینے لگ جائیں۔ پاکستان کی ہر گلی میں سود کے زہریلے ناگ سے ڈسے ہوئے لوگ اپنی اپنی جگہ ایک دردناک کہانی ہیں۔ لاکھوں کی کہانیاں چھپ چکی ہیں اور لاکھوں اندر ہی اندر شرم سے مر تے جا رہے ہیں۔۔۔ میڈیاسود کے ہاتھوں خود کشیاں کرتے اور ذلیل ہوتے لوگوں کی چیخیں سناتا رہتا ہے لیکن کوئی ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ آج جب نوجوانوں اور ہنر مندوں کو قرضے دینے کی بات کی جاتی ہے تو 1997-99ء اور اس کے بعد سمال بزنس فنانس کارپوریشن سے چھوٹے چھوٹے قرضے لینے والوں کی حالت زار میرے سامنے آ جاتی ہے۔ کس کس کا نام لکھوں؟ کس کس کا ذکر کروں؟ ایک طویل فہرست ہے۔ کسی نے ان قرضوں کو ایمانداری سے استعمال کرتے ہوئے دکان کھول لی‘ کسی نے چھوٹا موٹا کام شروع کر دیا لیکن کساد بازاری نے وہ حالات پیدا کر دیے کہ انہیں جان کے لالے پڑ گئے اور پھر سمال بزنس فنانس کارپوریشن کے اہل کار وں نے ایک ایک لاکھ روپے قرض لینے والوں سے اس طرح جیلیں بھرنا شروع کر دیں جیسے دیہات کی رابطہ سڑکوں پر بسوں میں سواریوں کو ٹھونسا جاتا ہے۔ جب ان غریب لوگوں کو گرفتار کیا جا رہا تھا ان کے کاروبار کی تباہی سب کے سامنے تھی لیکن کسی نے ایک نہ سنی۔ چنانچہ سود در سود ادائیگیاں کرنے کے بعد جن کے پاس جو کچھ بچا تھا‘ بیچ کر جیل کی سلاخوں سے جان چھڑائی اور جب یہ ایک لاکھ یا پچاس ہزار قرض کی خاطر جیل جانے والے باہر آئے تو یہ جان کر سکتے میں آ گئے کہ بڑے ناموں والے سرکاری نا دہندگان کے 140 ارب روپے تک کے قرضے معاف کر دیئے گئے!!تب ایک ہی سوچ ان کے ذہنوں کو نوچ رہی تھی کہ کیا ان کا پاکستان اور ہے اور ہمارا پاکستان کوئی اور؟ قرآن کریم میں اﷲ کی طرف سے سودی کاروبار کرنے اور سود کھانے والوں پر ان الفاظ میں لعنت بھیجی گئی ’’وہ جو سود کھاتے ہیں‘ قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے جیسے کھڑا ہوا جاتا ہے۔ وہ ایسے ہوں گے جیسے آسیب نے چھو کر مخبوط بنا دیا ہو۔ (سورۃ البقرہ)۔ اﷲ ہلاک کرتا ہے سود کو اور بڑھاتا ہے خیرات کو(سورۃ البقرہ)۔ حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے اور سود کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا یہ سب گناہ میں برابر کے شریک ہیں(شرح صحیح مسلم، مشکوٰۃ شریف)۔ ادھار میں زیادتی سود ہے(صحیح مسلم)۔ ربا النسیئۃ کی صحیح اور واضح تعریف کرتے ہوئے امام رازیؒ لکھتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ اس شرط پر قرض دیتے تھے کہ وہ اس کے عوض ہر ماہ یا ہر سال ایک معین رقم لیا کریں گے اور اصل رقم مقروض کے ذمہ باقی رہے گی۔ مدت پوری ہونے کے بعد قرض خواہ مقروض سے اصل رقم کا مطالبہ کرتا اور اگر مقروض اصل رقم ادا نہ کر سکتا تو قرض خواہ مدت اور سود دونوں میں اضافہ کر دیتا۔ وہی ’’ربا‘‘ آج کا سود ہے۔ لوگوں کی نسلیں سود در سود کے عوض گروی پڑی ہوئی ہیں۔ اگر کسی آٹھ دس ہزار روپے ماہوار کمانے والے غریب یا بے روزگار نے دس ہزار قرض لیا ہے تو اسے ایک ہزار ماہانہ سے بھی زائد سود ادا کرنا پڑتا ہے اور اصل قرض اسی طرح قائم رہتا ہے بلکہ کسی ماہ ادائیگی نہ کر پانے سے یہ رقم سود رد سود کے حساب سے اور بڑھ جاتی ہے اور پھر بڑھتی ہی رہتی ہے۔۔ سود در سود سے کئی خاندان بلکہ ان کے بچے بھی گروی رکھ دیے جاتے ہیں۔ کچھ سال قبل مجھے جنوبی پنجاب اور سندھ کے کچھ دیہی علا قوں میں جانے کا اتفاق ہوا تو یہ جان کر میں لرز اٹھا کہ سینکڑوں کے حساب سے مسلمانوں کی بیٹیاں سود کے عوض ہندو اور مسلمان وڈیروں اور سرمایہ داروں کے ہاں گروی ہیں اور یہ قیامت میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ کچھ گروی پڑی بچیوں سے میں نے بات بھی کی۔ ان کے والدین سے جب پوچھا تو وہ یہ کہتے ہوئے خاموش ہو گئے کہ ’’با با ہم اپنا سب پیسہ ان لوگوں کو دے چکا لیکن یہ لوگ بولتا ہے کہ ابھی اور با قی ہے۔ سائیں ہمارا آج کل کوئی کام نہیں ہے ہم پیسہ کہاں سے دے؟‘‘ ملک کے بڑے بڑے تجارتی گروپوں کو اس سال مجموعی خالص آمدنی 235 ارب روپے سے بھی زیا دہ ہوئی ہے۔ کیا ان میں سے کوئی ایک بھی اس قابل نہیں کہ ان کی مدد کر سکے؟ قرآن پاک میں اﷲ سبحانہ تعالیٰ ان الفاظ میں اپنے بندوں سے مخاطب ہیں ’’اور تو نے کیا جانا کہ وہ گھاٹی کیا ہے، کسی بندے کی گردن چھڑانا، بھوک کے وقت کھانا دینا، رشتہ دار یتیم کو یا خاک نشین کو‘‘۔ (گردن چھڑانے سے مراد قرض معاف کرانا ہے یا کسی مقروض کا قرض ادا کرنا ہے) ۔( سورہ البلد)۔