کرنل امیر سلطان تارڑ شہید کرنل امام کے نام سے مشہور تھے۔گمان یہی ہے کہ ان کے قتل کا پس پردہ ہاتھ بے نقاب ہو کر رہے گا۔ جو چپ رہے گی زبانِ خنجر‘ لہو پکارے گا آستیں کا۔ بہت سے لوگ پوچھتے ہیں کہ ان کو قتل کرنے والوں کے نزدیک ان کا اصل قصور کیا تھا؟ جنوری2011ء میں کرنل امام کی شہا دت کے تقریباََ33 ماہ بعد آج ایک بار پھر حکیم اﷲ محسود کی وہ ویڈیو سوشل میڈیا پر چھائی ہوئی ہے جس میں وہ اپنے ایک ساتھی کو کرنل امام کو شوٹ کرنے کا حکم دے رہا ہے۔یکم نومبر 2013ء کو ڈرون حملے میں حکیم اﷲ محسود کو ہلاک کیا گیا تو ایسا لگا جیسے تاریخ خود کو دہرا رہی ہے ۔ جب کرنل امام قتل کیے گئے تھے ،کہا جاتا تھاکہ ا س وقت وہ جلال الدین حقانی سے امن مذاکرات کے لیے ابتدائی مراحل طے کرنے کی تیاریوں میں مصروف تھے اور یہ بات امریکہ‘ برطانیہ اور بھارت کو ناگوار گزر رہی تھی۔ برطانوی جاسوسی ادارے MI-6 کے لوگوں نے26 مارچ2010ء کوملا عمر، احمد شاہ مسعود اور حکمت یار کے استاد کرنل امیر سلطان تارڑ اور اسکویڈرن لیڈر خالد خواجہ کو ایک برطانوی صحافی اسد قریشی اور اس کے ڈرائیور رستم خان سمیت اغوا کر کے شمالی وزیر ستان پہنچا یا لیکن حیران کن طور پر میڈیا پر غیر معروف’’ایشین ٹائیگرز‘‘ نام کی ایک تنظیم نے ان کے اغوا کی ذمہ داری قبول کرنے کا اعلان کر دیا۔ایشین ٹائیگرز کا نام اس سے پہلے شمالی یا جنوبی وزیرستان سمیت افغانستان اور پاکستان کے اندر دہشت گردی میں مصروف عمل گروپ کے طور پر کبھی سامنے نہیں آیا تھا ۔کرنل امام جو افغانستان کے صوبے ہرات میں پاکستانی قونصل جنرل کے طور پر بھی کام کرتے رہے تھے‘اور افغان جہاد کے بانی تھے ، کے اغوا کی ذمہ داری پر یہ عجیب و غریب نام سب کی توجہ کا مر کز بن گیا۔ ایشین ٹائیگرز کا نام گونجنے لگا تو ا سی وقت ماتھا ٹھنکا تھا کہ اب ان دو افسران کی سلامتی مشکل ہے کیونکہ ان اغوا کاروں کا تعلق طالبان کی کسی بھی تنظیم کے ساتھ نہیں ہو سکتا کیونکہ القاعدہ ہو یا طالبان کے47 کے قریب گروپ‘ سب نے اپنی پہچان اسلامی تاریخ کے جہادی اور عسکری ناموں سے منسلک کی ہے۔ ان کی کسی بھی تنظیم کا نام مشرقی پاکستان کی ٹائیگر صدیقی، سری لنکا میں تامل ٹائیگرز سے ملتا جلتا‘ یعنی ’ایشیا ٹائیگرز‘ نہیں ہو سکتا؟ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کون لوگ تھے جنہوں نے انہیں اغوا کیا اور ایک ماہ بعد سب سے پہلے اپریل 2010ء میں خالد خواجہ کو قتل کیا اور پھر اس کی لاش میرالی قصبے کے پاس ایک نالے میں پھینک دی۔اس کے بعد جنوری 2011ء میں کرنل امام کو کلاشنکوف کے برسٹ مار کر شہید کر دیا لیکن حیران کن طور پر ان دونوں کے ہمراہ اغوا ہونے والے برطانیہ کے چینل4 کے لیے مبینہ د ستاویزی فلم تیار کرنے کے لیے پاکستان آئے ہوئے برطانوی شہری اور صحافی اسد قریشی اور اس کے ڈرائیور رستم خان کو تحریک طالبان کی جانب سے رہا کر دیا گیا۔ رہا کرنے سے دو ہفتے پہلے کرنل امام ، خالدخواجہ‘ اسد قریشی اور اس کے ڈرائیور رستم خان کو ایشین ٹائیگرز کے نام سے اغوا کرنے والے عثمان پنجابی اور صابر محسود کو حکیم اﷲ محسود کے حکم سے قتل کر دیا گیا۔ صابر محسود کے چہرے پر کلاشنکوف کے اس قدر برسٹ مارے گئے کہ اس کا چہرہ مسخ ہو گیا۔ کیا مقصد یہ تھا کہ ایشین ٹائیگرز کی کہانی ہمیشہ کیلئے ختم کر دی جائے؟ اکثر لوگوں کی طرف سے اس شک کا بھی اظہار کیا جاتا رہا کہ کہیں اسد قریشی جس کے ذریعے کرنل امام اور خالد خواجہ کو تحریک طالبان تک پہنچایا گیا وہ عثمان پنجابی اور صابر محسود سے پہلے سے ہی رابطے میں تھا؟ کیا اسد قریشی نے کسی کو کرنل امام کے طالبان کے کمانڈر جلال الدین حقانی سے زیر زمین ہونے والے رابطوں بارے آگاہ کر دیا تھا؟ اور وہ پاکستانی کون تھا؟۔ کرنل امام‘ جو کمانڈو گوریلا جنگ کے سپیشلسٹ مانے جاتے تھے‘ روس کے خلاف افغان جہاد کے دوران ملا عمر‘ حکمت یار اور دورے اہم ترین افغان مجاہدین کو گوریلا جنگ کی تربیت دیتے رہے تھے اور یہی وجہ ہے کہ ملا عمر اور حکمت یار کے استاد کرنل امام کو جب اغوا کیا گیا تو غیر ملکی میڈیا کی بریکنگ نیوز کے طور پر ہیڈ لائن تھی \'\'Godfather Kidnapped By Children\'\' ۔کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ کرنل امام سے غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے جلال الدین حقانی سے ہونے والی متوقع بات چیت کا ذکر غیر ملکی میڈیا کو انٹر ویو دیتے ہوئے کر دیا تھاجو بعض مغربی طاقتوں کیلئے قابل قبول نہیں تھا۔کل تک جب روس کے خلاف افغان جہاد کا دنیا بھر میں شہرہ تھا تو اس وقت کرنل امیر سلطان تارڑ المعروف کرنل امام کی کمیونزم کو شکست دینے میں گراں قدر خدمات پرامریکی اور مغربی میڈیا ان پر جی جان سے اس حد تک فدا تھا کہ امریکی صدر بش( جارج بش کے والد) نے انہیں وہائٹ ہائوس میں خصوصی طور پر ملاقات کی دعوت دی اور اس موقع پر روسی کمیونزم کے خلاف بیش بہا خدمات سر انجام دینے پر انہیں ’’دیوار برلن‘‘ کا ایک ٹکڑا تحفے میں دیا۔ روسی کرنل امام کے اس قدر مخالف تھے کہ انہوں نے کرنل امام کے سر کی قیمت200 ملین افغانی مقرر کی ہوئی تھی۔ کرنل امیر سلطان تارڑ المعروف کرنل امام کی شہا دت کی جو ویڈیو فلم تحریک طالبان کی جانب سے میڈیا کو بھیجی گئی تھی‘ اس میں کرنل امام حکیم اﷲ محسود سمیت تین دوسرے دہشت گردوں کے گھیرے میں تھے اور اس ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ انہی تینوںمیں سے ایک نے حکیم اﷲمحسود کے حکم پر اپنی کلاشنکوف سے برسٹ فائر کرتے ہوئے کرنل امام کو شہید کیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کرنل امام کو قتل کرتے وقت حکیم اﷲ محسود کو ویڈیو بناتے ہوئے خود کو وہاں دکھانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ دیکھا جائے تویہ انتہائی اہم سوال ہے کیونکہ اس سے پہلے پاکستانی افواج کے جو بھی افسر اور جوان اس کی تحریک طالبان کے ہاتھوں شہید کیے گئے‘ فلم بندی کے وقت وہ کبھی موجود نہیں ہوتا تھا۔پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ تحریک طالبان کے کمانڈر حکیم اﷲ محسود نے کرنل امام شہید کی لاش اس کے وارثان تک پہنچانے کی اجازت دینے سے صاف انکار کیوں کیا؟ اور کرنل امام کی لاش اس وقت تک سڑک کے کنارے سے اٹھانے کی اجا زت کیوں نہ دی جب تک ان کے وارثان سے تاوان کے طور پر پچاس ملین روپے وصول نہ کر لیے؟ کیا اسلامی تاریخ میں کبھی ایسا ہوا ہے؟ کرنل امام اور خالد خواجہ کے اغوا سے پہلے تک کے ملکی اور غیر ملکی اخبارات سامنے رکھیں تو یہ بات فوراََ سامنے آ جائے گی کہ کچھ عرصہ سے غیر ملکی میڈیا مسلسل یہ تاثرپھیلائے جا رہا تھا کہ حکیم اﷲ محسود مارا جا چکا ہے اور جس کی نا معلوم وجوہ کی بنا پر تحریک طالبان کی طرف سے تردید نہیں کی جا رہی تھی مگر حکیم اﷲ محسود نے اپنے زندہ ہونے کی خبر افغانستان کے امیر ملا عمر کے استاد کرنل امام قتل کے ذریعے دینا کیوں مناسب سمجھا؟ کیا کوئی طاقت طالبان کے امیر ملا عمر اور جلال الدین حقانی کو اس ویڈیو کے ذریعے یہ پیغام پہنچانا چاہتی تھی کہ دیکھو تمہارے گڑھ شمالی وزیرستان میں تمہارے ہی سامنے تمہارے ہی استاد کو گیارہ ماہ قید رکھنے کے بعد گولیوں سے اڑایا جا رہا ہے؟…!!