حکیم اﷲ محسود کی ہلاکت کے بعد حسب توقع مولوی فضل اﷲ کو تحریک طالبان کا نیا امیر مقرر کر دیا گیا ہے۔ اس تقرری کے پس پردہ ان ہاتھوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جنہوں نے دسمبر 2007ء میں دہشت گردوں کے تیرہ گروپوں کو یکجا کر کے (کالعدم) تحریک طالبان پاکستان کی بنیاد رکھی اور پھر بیت اﷲ محسود کو اس کا امیر مقرر کیا۔ یہ بات کوئی راز نہیں کہ سوات میں دہشت گردوں کے خلاف پاک فوج کے آپریشن ’’راہ راست‘‘ کے نتیجے میں افغانستان بھاگ کر امریکی اور بھارتی ایجنسیوں کی پناہ لینے والے فضل اﷲ کا تحریک طالبان پاکستان کا امیر مقرر ہونا پاکستان کیلئے لمحہ فکریہ سے کم نہیں۔ اس کے پاکستان کی سیاسی اور عسکری حکمت عملی پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ ٹی ٹی پی میں بھی اس فیصلے کی وجہ سے اختلافات سامنے آئیں گے جس کا اندازہ لگانے کیلئے کچھ عرصہ قبل وادی تیراہ میں باہمی چپقلش کے نتیجے میں تحریک طالبان کے اہم لیڈر طارق آفریدی کے قتل کو سامنے رکھنا ہو گا۔ 1976ء میں سوات میں پیدا ہونے والا فضل اﷲ مالم جبہ میں لفٹ آپریٹر رہا، اس کا نام ملکی اور عالمی سطح پر اس وقت ابھر کر سامنے آیا جب اپریل 2006ء میں پولیو کے خلاف مہم کا آغاز کر تے ہوئے اس نے کبل میں محکمہ صحت کی کچھ خواتین کو مسلح ساتھیوں کے ہمراہ گھیرے میں لے کر ان سے پولیو سے بچائو کے قطروں والے بیگ زبردستی چھین کر دوائی ضائع کر دی اور یہ کہا کہ ان قطروں سے ہمارے بچے مارے جائیں گے۔ وادی سوات کے لوگوں کو پولیو کے قطروں سے متنفر کرنے کیلئے اس نے کئی مضحکہ خیز کہانیاں پھیلانی شروع کر دیں جس پر سوات اور ارد گردکے لوگ مولوی فضل اﷲ کو ’’مولوی پولیو‘‘ کے نام سے پکارنے لگے۔ بعد میں وہ ایف ایم ریڈیو پر اپنے طرز کی شریعت کے نفاذ کی تبلیغ کرنے پر ’’ملا ریڈیو‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ قیام پاکستان سے قبل انگریزی راج کے خلاف قبائل کی مزاحمتی تحریک کے دوران پشاور کے شمالی علاقوں میں ’’آزاد پاکستان‘‘ کے نام سے 80 میٹر بینڈ پر ایک پُراسرار ریڈیو سٹیشن قائم ہوا تھا‘ جسے پنجاب کے کچھ حصوں میں بھی سنا جا نے لگا۔ اس ریڈیو سے انگریزوں اور ہندوئوں کے خلاف جوشیلی تقریریں اور ترانے سنائے جاتے تھے۔ مولوی فضل اﷲ نے اسی طرز پر ریڈیو کو پاکستان کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرنا شروع کیا۔ وادی سوات میں 1982ء تک مینگورہ کے علاوہ کوئی قابل ذکر ہوٹل نہ تھا، چند چھوٹی چھوٹی دکانیں تھیں، لیکن 1990ء کی دہائی میں مالم جبہ اور کالام میں سیاحت نے زور پکڑا اور مری کی بڑھتی ہوئی تنگ دامنی سے تنگ آئے ہوئے سنجیدہ لوگ سوات کا رخ کرنے لگے۔ ملکی اور غیرملکی سیاحوں کی بڑی تعداد میں آمد کے ساتھ وہاں ہوٹلوں کی تعمیر شروع ہو گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے جس زمین کی قیمت دس ہزار روپے تھی وہ دس لاکھ میں بکنے لگی۔ روپے پیسے کی فراوانی سے سوات کے لوگوں کا طرز زندگی بدلنے لگا، خالی جگہوں پر ہو ٹل، ریسٹورنٹ اور شاپنگ پلازے تعمیر ہو نے لگے۔ ملک بھر سے آنے والے لاکھوں مردوں اور خواتین کی خریداری کے لئے یہاں جگہ جگہ غیرملکی کپڑے، الیکٹرونکس اور دوسرے سامان تعیش کی بھرمار ہو گئی۔ ان اشیا سے مقامی آبادی بھی متا ثر ہونا شروع ہو گئی، فلمی گانے سننے کے لیے ٹیپ ریکارڈر، وی سی آر، ٹیلی ویژن، پھر کیبل اور سی ڈیز کا استعمال عام ہوتا گیا۔ سرکاری سکولوں کے ساتھ ساتھ انگریزی تعلیم کے نجی سکول اور کالج بھی وجود میں آنے لگے۔ ملک کے دوسرے علاقوں کی طرح سوات سے بھی نوجوان روزگار اور تعلیم کیلئے ملک سے باہر جانے لگے، جرائم اور معاشرتی برائیاں بھی پروان چڑھنے لگیں، نوجوان نسل میں منشیات کا استعمال بڑھ گیا جس کے خلاف 1980ء کی دہائی کے آخر میں صوفی محمد کی سربراہی میں تحریک نفاذ شریعت محمدی قائم کی گئی‘ جو مکمل طور پر مقامی لوگوں کے تعاون سے کام کرتی رہی۔ جب سرحد (کے پی کے) میں پیپلز پارٹی کے آفتاب شیرپائو وزیر اعلیٰ تھے، صوفی محمد اور پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کی رضامندی سے عوام کی خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے والیء سوات کے عہد کی طرز پر عدالتی نظام میں تبدیلی کرتے ہوئے مجسٹریٹ‘ اور سول جج کو ’’ قاضی عدالت‘‘ کا نام دیا گیا اور ان ناموں کی تختیاں عدالتوں کے باہر آویزاں کر دی گئیں۔ نائن الیون کے بعد طالبان کی مدد کے لئے صوفی محمد جہاد کے نام پر اپنے مدرسے کے پانچ سو کے قریب طلبا‘ جن کی عمریں پندرہ سے بیس سال کے درمیان تھیں‘ افغانستان لے گئے۔ ان میں سے کوئی ایک بھی زندہ واپس نہ آ سکا ۔ کچھ عرصہ بعد صوفی محمد اور ان کے داماد مولوی فضل اﷲ کے درمیان اختلافات پیدا ہونا شروع ہو گئے تو فضل اﷲ نے دیر میں اپنے سا تھیوں کے ہمراہ ایک غار میں اپنا اڈہ بنا لیا اور مال دار لوگوں سے با قاعدہ بھتہ وصول کرنے لگا۔ مقامی لوگ اس وقت ششدر رہ گئے جب انہوں نے فضل اﷲ کے پاس چمکتی دمکتی پاور فل گاڑیوںکی قطاریں اور ان میں بیٹھے جدید ترین اسلحہ سے مسلح اجنبی لوگوں کے گروہ دیکھے۔ فضل اﷲ روزانہ سفید رنگ کے ایک خوبصورت گھوڑے پر سوار ہو کر، ہاتھوں میں چمکتی ہوئی دو دھاری تلوار لہراتا اور نعرے لگاتا ہوا وادی کی ایک حصے سے دوسرے حصے کی طرف جاتا دکھائی دیتا۔ اس کے پیروکاروں نے مشہو رکر دیا کہ وہ ایک وقت میں کئی جگہ دیکھا جا سکتا ہے۔ مقامی آبادی کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے اس نے مشہور کر دیا کہ روس کے خلاف جہاد میں حصہ لینے والے اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے جہادی اس کے پاس پناہ لینے کے لیے آ گئے ہیں۔ مقامی لوگ دیکھ رہے تھے کہ اس کے گروہ میں شامل غیرملکی تاجک، ازبک اور چیچن لوگوں کی عمریں بیس سے تیس سال تھیں۔ روس کے خلاف جہاد میں حصہ لینے والوں کی عمریں اگر بیس سال بھی تصور کی جائیں تو اس وقت ان کی عمریں پچاس سال سے اوپر ہونی چاہئیں تھیں۔ سوات کے معزز اور باشعور لوگ حیران تھے کہ فضل اﷲ کے پاس خطرناک بھاری ہتھیاروں کا ذخیرہ کہاں سے آیا؟ درجنوں کی تعداد میں بڑی بڑی جیپیں اور ڈبل کیبن گاڑیاں کہاں سے آئیں؟ ایف ایم ریڈیو کی مشینری کہاں سے آئی؟ ان ریڈیو چینلز کو چلانے کے لئے تربیت یافتہ لوگ کہاں سے آئے؟ ظاہر ہے، یہ مدرسوں کے طلبا تو نہیں تھے۔ انتہائی چالاکی سے اس گروپ نے سب سے پہلے میڈیا کے ذریعے مقامی لوگوں کو خوف زدہ کر کے اپنا مطیع بنا لیا۔ میڈیا نے مولوی فضل اﷲ کی حمایت میں خبریں دینا شروع کر دیں‘ جن میں اسے بڑا عالم دین اور اسلام کے سچے سپاہی کے طور پر پیش کیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سوات اور ارد گرد کے لوگوں کی اس کے لئے عقیدت اور ہمدردیاں بڑھ گئیں۔