8 سال بعد ،کیا تاریخ خود کو دہرا رہی ہے ؟ جس طرح امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے آج ملک کی سرحدوں کے اندر دہشت گردوں سے بر سرِ پیکار افواج پاکستان سمیت ملک کے تمام سکیورٹی اداروں کے مارے جانے والے لوگوں کو شہید ماننے سے انکار کر دیا ہے‘ اسی طرح لال مسجد کے خطیب مولانا عبد العزیز نے بھی2005ء میں فتویٰ جاری کیا تھا کہ فوج کے وہ افسر اور جوان یا پولیس اور دوسرے سکیورٹی اداروں سے متعلق لوگ جو طالبان سے مصروفِ جنگ ہیں اگر مارے جائیں تو وہ شہید نہیں کہلائیں گے۔ آج یہی بات امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے کہہ دی ہے اور کہنے کے بعد پوری جماعت اسلامی اس کی تردید یا معذرت کرنے کی بجائے اس پر قائم ہے۔ جماعت اسلامی کے تمام قابلِ قدر اور معزز رہنمائوں سے ایک گزارش کرنے کی ہمت اور جرأت کر رہا ہوں‘ امید ہے کہ وہ میری بات اطمینان اور تحمل سے سنیں گے۔ ان کو یاد کرائے دیتا ہوں کہ پاکستان کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ان کی طلبا یونین اسلامی جمعیت طلبا کے پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن، مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن ، آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن اور دوسری طلبا تنظیموں سے لڑائی جھگڑے ہوتے رہے ہیں اور طلبا یونین کے انتخابات کے دوران ہونے والی فائرنگ سے ان کے اور متحارب طلبا تنظیموں کے لوگ مارے بھی جاتے رہے ہیں۔ اگر اسلامی جمعیت طلبا سے تعلق رکھنے والا کوئی طالب علم آپس کی لڑائی میں دوسری طلبا تنظیم کے ہاتھوں مارا جاتا تھا تو اسے شہید کہہ کر پکارا جاتا تھا۔ اس کے نام کے پوسٹر اورا شتہارات شہید کے خطاب کے ساتھ شائع کیے جاتے تھے۔ اخبارات میں جب اس مارے جانے والے طالب علم کی خبر دی جاتی تھی تو پریس کانفرنس میں کسی دوسری تنظیم کو اس قتل کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے اسے شہید کہہ کر پکارا جاتا تھا‘‘۔۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کالج‘ سکول یا یونیورسٹیوں میں ان کا جھگڑا اور دنگا فساد کسی کافر سے ہوتا تھا؟ یہ سب آپس میں لڑنے والے طالب علم مسلمان تھے اور ان کا جھگڑا کسی کافر سے نہیں ہوتا تھا‘ پھر اگر وہ شہید ہیں تو پاک فوج، پولیس ایف سی کے جوان جو ملک میں بسنے والے لوگوں کی حفاظت کیلئے بم دھماکے، خود کش حملے اور جگہ جگہ سڑکوں اور شاہراہوں پر بارودی سرنگیں بچھانے والوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے جانیں قربان کر رہے ہیں تو وہ شہید کیوں نہیں؟ جماعت اسلامی کی ملک بھر کے مختلف اداروں میں بہت سے ناموںسے مزدور یونینز کام کر رہی ہیںجیسے پیاسی، پیغام اور اس طرح کی کئی دیگر‘ تو میڈیا سے متعلق لوگ جانتے ہوں گے کہ ان کی آپس کی لڑائیوں میں کئی لوگ مارے گئے اور جماعت اسلامی سے متعلق کسی مزدور تنظیم کا کوئی فرد مارا جاتا تھا تو اخبارات میں اسے شہید لکھا جاتا تھا اور اس کے جنازے میں بھی اس کے نام کے ساتھ شہید کہہ کر پکارتے ہوئے جنازہ اٹھایا جاتا تھا تو جناب والا اگر وہ شہید تھے تو پھر فوج کے افسران اور جوان شہید کیوں نہیں؟۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ لال مسجد کی طرز کا کوئی نیا کھیل کھیلنے کی در پردہ کوئی کوشش یا فوج اور عوام کو ایک نئے طریقے سے دور کر نے کی کوئی سازش کی جا رہی ہے؟ شاید یہ ملک کی حفاظت کیلئے اٹھنے والے ہاتھوں یا قدموں کو ڈگمگانے کی کوشش ہے۔ \'\'Abdullah\'s Son Accuses Government Of Killing His Father\'\'۔ یہ وہ نمایاں خبر تھی جو معاصر انگریزی روزنامہ میں ہفتہ 7 نومبر 1998ء کو شائع ہوئی اور اس خبر کے مطابق لال مسجد کے خطیب حضرت مولانا عبد اﷲ کے بیٹے عبدالرشید نے ایک پریس کانفرنس میں الزام لگایا تھا کہ ان کے والد محترم کو ’’حکومت وقت ‘‘ نے قتل کرایا ہے‘ تاکہ انہیں طالبان طرز حکومت کی تبلیغ سے روکا جا سکے۔ مذکورہ خبر میں لکھا گیا تھا کہ مولانا عبداﷲ کے چھوٹے صاحبزادے مولانا عبد الرشید کی جانب سے حکومت کے اس بیان کی سختی سے تردید کی گئی ہے کہ ان کے والد مولانا عبد اﷲ کو دہشت گردوں نے ہی لال مسجد میں 17اکتوبر کو قتل کر دیا تھا‘‘۔مولانا عبدالرشید نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ’’ ان کی حاصل کردہ معلومات کے علا وہ مختلف شعبوں میں موجود اپنے ہمدردوں کی مدد سے کی گئی ذاتی تحقیقات کی بنیاد پر اور حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں اور ملک کے خفیہ اداروں کے سربراہوں سے اپنی تفصیلی ملاقاتوں کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ میرے والد محترم مفتی عبد اﷲ مرحوم کا قتل دہشت گردوں نے نہیں بلکہ حکومت نے اس لیے کرایا ہے کیونکہ انہیں شک تھا کہ ان کا تعلق مختلف ’’جہادی گروپوں‘‘ سے ہے‘‘۔ اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے عبد الرشید غازی نے کہا تھا’’ مفتی عبد اﷲ کے قتل سے پہلے ایک کار میں سوار کچھ مشکوک قسم کے لوگ ان کے گھر اور مسجد کے ارد گرد گھومتے رہتے تھے جس پر ہمارے آدمیوں نے اس مشکوک گاڑی کا رجسٹریشن نمبر نوٹ کرنے کے بعد ایک دن اس کے ڈرائیور کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا۔ پھر تین دن مسلسل سی آئی اے پولیس سے رابطہ رہا‘ ہمارے آدمیوں نے ان کے پاس موجود شخص کی نشاندہی بھی کی تھی لیکن کوئی نتیجہ نہ نکلا اور بعد میں انہیں پتہ چلا کہ اس شخص کو چھو ڑ دیا گیا ہے۔۔۔۔ غازی عبدالرشید نے میڈیا کے سوالوں کے جواب میں بتایا کہ ان کے والد کسی بھی قسم کی تخریبی سرگرمیوں میں ملوث نہیں تھے جو ملکی سلامتی کے خلاف ہوں۔ غازی عبدالرشید نے کہا کہ ’’ان کی معلومات کے مطا بق کچھ جہادی تنظیمیں ان کے شہید والد مفتی عبد اﷲ کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتی تھیں۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں تسلیم کیا کہ ان کے والد محترم نے بغاوت کیس میں سزا یافتہ میجر جنرل ظہیر الاسلام عبا سی سے جیل میں ملاقات بھی کی تھی‘‘۔ میڈیا سے دوران گفتگو غازی عبدالرشید نے یہ بھی تسلیم کیا تھا کہ ان کے والد کے اسامہ بن لادن اور ملا عمر سے قریبی تعلقات تھے اور1998ء میں جب ملک میں میاں نواز شریف کی حکومت تھی‘ وہ ملا عمر سے ملاقات کیلئے خصوصی طور پر قندھار گئے تھے۔ غازی عبدالرشید کی طرف سے اس خدشہ کا اظہار بھی کیا گیا کہ ’’حکومت وقت کا خیال تھا کہ میرے والد ملک میں طالبان طرز کا کوئی انقلاب لانا چاہتے ہیں اس لیے انہیں قتل کرا دیا گیا ‘‘ ۔ لال مسجد ایک فوجی حکمران ایوب خان نے تعمیر کی اور فوجی حکمران ضیاء الحق نے لال مسجد کو افغان جہاد کیلئے سرپرستی میں لیا اور اسی لال مسجد نے تیسرے فوجی حکمران پرویز مشرف کے اقتدار کو ختم کرتے ہوئے اس کے گرد نفرت کا دائرہ کھینچ دیا۔ 1965ء میں اسلام آباد کے سیکٹر H-11 میں جب وزارت خزانہ حکومت پاکستان کی مدد سے یہ مسجد تعمیر کی جا رہی تھی تو اس وقت اپنے ہاتھوں میں اینٹ اٹھائے ہو ئے کسی مزدور یا ریت‘ بجری اور سیمنٹ سے اس کی بنیا دیں اور دیواریں اٹھائے کسی راج اور مستری نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ اس مسجد کی دیوا روں سے اٹھنے والا طوفان اس ملک کو ہلا کر رکھ دے گا اور یہ مسجد ا س ملک کے طا قتورفوجی حکمران کو اس قدر بے بس اور تنہا کر دے گی کہ اسے تاج و تخت چھوڑ نا پڑ جائے گا اور2008ء کا پنجاب اور صوبہ سرحد کا انتخاب اس کی آڑ میں جیتا جائے گا!