راولپنڈی میں جو کچھ ہوا اس کی وجہ انتظامیہ کی نا اہلی ہے جسے عاشورہ کے جلوس کے روٹ پر’’ حساس‘‘ مقامات کا علم ہی نہیں تھا ۔ کسی بھی مذہبی یا سیا سی جلوس کے راستے میں ممکنہ خطرات کی نشاندہی کرنا اور وہاں سخت حفاظتی انتظامات اور احتیاطی تدابیراختیارکرنا سکیورٹی اداروںکی اہم ترین ذمہ داری ہوتی ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہماری مسجدیں مقتل بنتی جا رہی ہیں، لوگ گھروں سے نکل کر مساجد میں پانچ وقت کی با جماعت نمازکے روح پرورتصور سے گھبرانے لگے ہیں۔ایسا کیوں ہوا ،کس نے کیا اور کون ہے جو اسے پروان چڑھا رہا ہے؟ اگر ایک لمحے کے لیے تسلیم کر لیں کہ اس میں حکومت کی نا اہلی ہے تو یہ نا انصافی ہو گی۔محض موجودہ یاکسی سابق حکومت کو قصور وار ٹھہرا کر ہم سب کس طرح بری الذمہ ہو سکتے ہیں؟ دراصل ہم سب قصور وارہیں، ہم سب ملزم اور مجرم ہیں جنہوں نے جنون اور نفرت کاطوفان دیکھتے ہوئے اپنی آنکھیں بند رکھیں،مساجد اور مدرسوں سے کفر کے فتوے جاری ہوتے رہے، ملا اور ذاکرایک دوسرے کے خلاف تقریریں کرتے رہے مگر کسی نے آگے بڑھ کر انہیں روکنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کے برعکس سیا ستدانوں اورحکومتوںنے انہیںمخالفین کو سبق سکھانے کے لیے نوازنا شروع کر دیا۔اپنے حق میں بیان دلوانے اورکسی خاص فرقے کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے اسے اپنی سرپرستی میں لے کراسلحے اور مال و دولت سے ان کے گودام بھر ے جاتے رہے تاکہ وہ مخالف فرقے کے سینے چھلنی کر سکیں۔اس کانتیجہ یہ نکلا کہ آج پاکستان کی ہر مسجد کے باہر بندوق بردار پہرہ دے رہے ہیں۔ کل تک تیغوں کے سائے تلے مسلمان پل کر جوان ہوتا تھا اور آج بندوقوں کے پہرے میں نماز ادا کرتا ہے۔ ایک نجی چینل پر بھارت سے آئے ہوئے صحافیوں کے گروپ لیڈرکی یہ بات سن کرسر شرم سے جھک گیاکہ بھارت میں مسلمان اس قدر آزاد ہیں کہ انہیں نماز پڑھتے وقت کسی خود کش حملے کا خوف نہیں ہوتا، نماز کی ادائیگی کے لیے مسجدوں میں آنے والوںکی تلاشی نہیں لی جا تی اورانہیں دوران عبادت اپنی جان کی حفاظت کے لیے بندوق برداروں کی ضرورت نہیں پڑتی۔اگرسروے کیا جائے توکسی بھی تھانے کی حدود میں پچیس سے کم مساجد نہیں اس لیے اس تھانے کی نصف سے زیادہ نفری مسجدوں اور بینکوں کے باہر حفاظتی فرائض انجام دینے میں مصروف رہتی ہے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے ملک میں ہو رہا ہے جو اپنے کم وسائل کی وجہ سے پہلے ہی پولیس نفری میں کمی کا شکار ہے۔ ملک کے کسی بھی چھوٹے بڑے گائوں، قصبے یا شہر میں رہتے ہوئے، اپنے ارد گرد دیکھتے ہوئے، پوری ایمانداری اور سچے دل سے جائزہ لیں تو ہر کوئی اپنے مسلک کو سچا اور دوسرے کو جھوٹا، مرتد اور کافر ثابت کرنے میں جُتا ہوا نظر آئے گا۔ بد قسمتی سے یہ لعنت آج پاکستان کی ہر گلی، ہر مسجد، ہر دفتر اور ہربازار میں ناچتی ہوئی نظر آئے گی۔ خود کو سچا اور دوسرے کو جھوٹا اور مرتد ثابت کرنے کے لیے نت نئے دلائل اور عجیب و غریب حوالہ جات سے بھری ہوئی کتابوں، پمفلٹوں اور سی ڈیز کا سہارا لے کر لوگوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ تقریباً ہر مسلک نے اپنے مسلح دستے بنارکھے ہیں جواپنے مذہبی پیشوا کے اشارے پرمخالف فرقے کے’ کافر‘ کو جہنم رسید کرنے کے لیے تیارہوتے ہیں۔آج حالت یہ ہو چکی ہے کہ کسی بھی مسلک کے معتدل اورنرم آواز رکھنے والے کو عالم ہی نہیں ماناجاتا بلکہ عالم اور ذاکر صرف اس کو ما نا جاتا ہے جو اپنے مخالفین کے بارے میں سب سے زیا دہ توہین آمیز دلائل دے۔ایسے ہی بعض مولویوں اور ذاکرین کو ملک کے قصبوں اور دیہات کے چھوٹے چھوٹے دینی مدرسوں میں خاص طور پر بھیجا جاتا ہے جو معصوم ذہنوں کو مخالف مسلک کے خلاف آتش فشاں بنا دیتے ہیں۔اطلاعات کے مطابق ان مسلکی گروپوںکو بیرونی سرمایہ ملتا ہے جسے وہ اپنے فرقے کے نوجوان پیروکاروں پرجنون طاری کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ نام نہاد علماء مذہبی اختلافات کو خونی دشمنی کا رنگ دیتے چلے جائیں گے خواہ ہمارا دشمن ان تمام پاکستانیوں کومسلمان ہونے کی بنا پرخون میں ڈبو جائے۔ دین ملا فی سبیل اﷲ فساد کوئی شاعرانہ مبالغہ نہیں بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کیونکہ ملائیت کا مذہب کے نام پر فساد لازم و ملزوم ہو کر رہ گیا ہے۔محرم کا آغاز ہوتے ہی پورے ملک میں ہنگامی صورت حال کی کیفیت تو پیدا ہونامعمول ہے لیکن اب ربیع الاول میں میلاد کی محفلیں بھی نشانہ ستم بننا شروع ہوگئی ہیں۔ جہالت، جنون اور وحشت کے ان پیروکاروں کو دیکھ کر رسول اﷲ ﷺکا یہ فرمان یاد آنے لگتا ہے:’’ ان میں ایسے بھی ہوں گے جو انسانی جسم میں شیاطین کا دل رکھتے ہوں گے‘‘ ۔آج پاکستانی قوم ایک سرے سے دوسرے تک دین اور مذہب کے نام پر ایک دوسرے کے خلاف جس طرح لشکر کشی کر رہی ہے اسے دیکھتے ہوئے قرآن پاک کی سورہ الانعام کی یہ آیت مبارکہ بار بار سامنے آتی ہے:’’ کہہ دو کہ وہ اﷲ قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے یا تمہارے پائوں کے نیچے سے عذاب بھیجے یا تمہیں فرقوں میں بانٹ دے اور ایک دوسرے کی لڑائی کا مزہ چکھا دے‘‘۔ اس ملک پر شائد اسی وجہ سے باہمی لڑائی کے ساتھ ساتھ مہنگائی کا عذاب بھی مسلط کر دیا گیا ہے۔