پروفیسر صاحب جھوٹ ، غیبت،کردار کشی اور الزامات کے کسی معاشرے اور انسانی زندگیوں پر پڑنے والے اثرات کے موضوع پر لیکچر دیتے ہوئے لمحہ بھر کو رکے اور پھر اچانک انہوں نے کوٹ کی جیب سے بٹوہ نکالا اور اس میں سے ہزار کا کرنسی نوٹ ہوا میں لہراتے ہوئے کلاس روم میں بیٹھے پچاس کے قریب طالب علموں سے پوچھا کہ آج میں یہ نوٹ اپنی خوشی سے کسی طالب علم کو دینا چاہتا ہوں‘ آپ میں سے کون ہے جو ہزار کا یہ نوٹ لینا چاہے گا؟ طالب علم حیرانی سے کبھی پروفیسر تو کبھی ان کے دائیںہاتھ میں پکڑے ہوئے کرنسی نوٹ کو دیکھتے رہے‘ چند سیکنڈ کے وقفے کے بعد طلبا نے اپنے دائیں بائیں اور آگے پیچھے بیٹھے ہوئے ساتھی طلبا کا ردعمل دیکھا تو وہ سب ایک دوسرے کی طرح ابھی تک بے یقینی کی کیفیت میں ہی تھے کہ پروفیسر صاحب کی آواز ایک بار پھر گونجی کہ ''آپ میں سے کون ایک ہزار روپے کا یہ کرنسی نوٹ لینا چاہے گا؟‘‘ اس آواز نے پوری کلاس کو کرنسی نوٹ کی طرف متوجہ کر دیا اور پھر آہستہ آہستہ سب طلبا نے نوٹ لینے کے لیے اپنے اپنے ہاتھ کھڑے کر دیئے۔ پروفیسر صاحب نے پوری کلاس کے اٹھے ہوئے ہاتھوں کو دیکھتے ہوئے ایک ہزار کے اس نوٹ کو دونوں ہاتھوں میں لے کر بُری طرح مسلنا شروع کر دیا اور تڑے مڑے نوٹ کو ہوا میں لہراتے ہوئے طلباء سے پوچھا کہ ''اب آپ میں سے کون ہے جو یہ نوٹ لینا چاہے گا؟‘‘ سب طالب علموں نے ایک ساتھ ہاتھ بلند کرتے ہوئے بتایا کہ وہ یہ نوٹ لینا چاہیں گے۔ پروفیسر صاحب چند لمحے طلبا کی طرف دیکھتے رہے اورپھر کرنسی نوٹ کو فرش پر پھینکا‘ جوتوں سے مسلا اور پھر سے ہاتھوں میں بلند کرتے ہوئے کہا ''کون ہے جو اب بھی اس نوٹ کو حاصل کرناچاہتا ہے؟‘‘ سارے طلبا نے ایک ساتھ پھر ہاتھ بلند کر دیئے۔
پروفیسر صاحب نے ایک نظر اس نوٹ پر ڈالی اور پھر کلاس روم کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک بیٹھے طلبا کی طرف دیکھتے ہوئے آواز میں ٹھہرائو پیدا کیا اور کہا ''آپ نے دیکھا کہ اس کرنسی نوٹ کی ظاہری حالت خراب کرنے کی میں نے ہر ممکن کوشش کی‘ میں نے اس کی شکل تک بگاڑ کر رکھ دی اور اسی پر بس نہیں کیا بلکہ میں نے آپ سب کے سامنے اس پر فرش اور اپنے جوتوں کا سارا میل رگڑا اور جب پوچھا کہ اب بھی آپ اس نوٹ کو حاصل کرنا چاہیں گے تو یہ سب کچھ دیکھتے اور جانتے ہوئے بھی آپ سب نے '' ہاں‘‘ میں ہی جواب دیا۔ یہ نوٹ مسلے‘ کُچلے اور گند میں رگڑے جانے کے با وجود اپنی قیمت اور وقعت میں کم نہیں ہوا۔ ہمیں اس کرنسی نوٹ کے ہر جگہ ایک ہزار روپے ہی ملیں گے۔ آپ کسی ایسے شخص پر جس کی ایمانداری مسلمہ ہو‘ جو کسی کا حق نہ کھاتا ہو اور اپنے اندر انسانیت کا درد رکھتا ہو‘ اس پر جس قدر چاہے گند پھینکیں‘ جس طرح کے چاہیں جھوٹ بہتان تراشیں، غلط سلط باتوں سے اس کی کردارکشی کریں‘ اٹھتے بیٹھتے اس کی شہرت کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کرتے رہیں‘ لوگوں کے دلوں اور ذہنوں میں ایسے شخص کے بارے میں ابہام پیدا کریں‘ وقتی طور پر آپ خود اپنے مقصد میں کامیاب ہوتا محسوس کریں گے لیکن جلد یا بدیر حقیقت چمکتی نظر آئے گی‘ جو شخص سچا اور ایماندار ہو گا‘ صاف دل ہو گا‘ اس پر کسی الزام‘ کسی بہتان‘ کسی جھوٹ اور کسی افترا کا کوئی اثر نہیں ہو گا۔ آپ کا جھوٹ پانی کے بلبلے کی طرح تھوڑی ہی دیر میں معدوم ہو جائے گا۔‘‘
تحریک انصاف کے خیبر پختونخوا میں حکومت سنبھالنے کے چند دنوں بعد ہی میڈیا کے ایک مخصوص حصے نے عمران خان کی کار کر دگی پر سوالیہ نشان اٹھانے شروع کر دیئے۔ اپنے ہر پروگرام میں چند اینکر حضرات اپنے مہمانوں سے یہ سوال کر تے نظر آتے ہیں کہ کیا تحریک انصاف اور عمران خان کی کار کر دگی خیبر پختونخوا میں صفرہے؟ اور تو اور عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید احمد‘ جو راولپنڈی سے عمران خان کے ووٹوں کی وجہ سے کامیاب ہوئے‘ سے کئی مرتبہ اینکر حضرات نے یہی سوال کیا تو بجائے عمران خان کے خلاف دانستہ پیدا کیے جانے والے ابہام کو دو ر کرنے کے‘ شیخ صاحب معنی خیز انداز میں چپ رہے‘ دوسرے لفظوں میںسوال پوچھنے والے کی بہ زبانِ خاموشی تائید فرمائی۔
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔ کائنات میں ہر لمحہ‘ ہر لحظہ تغیر و تبدل ہوتا رہتا ہے‘ کوئی چیز ایک حال پر نہیں رہ سکتی۔ کل تک جو لوگ بامِ عروج پر تھے آج ان کے نام سے بھی کوئی واقف نہیں‘ لیکن اس کیلئے ایک عرصہ درکار ہوتا ہے؛ تاہم 2013ء کے انتخابات کے نتائج آنے کے ایک ماہ بعد ہی گردان شروع ہو گئی کہ عمران خان کی مقبولیت کم ہو گئی ہے۔ اس سے خیبر پختونخوا کی حکومت ہی نہیں بنائی جا رہی اور جب چار جماعتوں اور آزاد ارکان پر مشتمل یہ صوبائی حکومت قائم ہو گئی تو پھر ''دوستوں‘‘ کو ٹاسک دے دیا گیا کہ ا ٹھتے بیٹھتے دہراتے رہیں کہ عمران خان کیا کر رہا ہے؟ خیبر پختونخوا کی حکومت اس سے نہیں چلائی جا رہی۔ ہٹلر کے ساتھی گوئبلز نے کہا تھا کہ جھوٹ بولتے جائو بغیر کسی تکان کے‘ بغیر کسی جھجک کے‘ یہاں تک کہ وہ جھوٹ تمہیں بھی سچ نظر آنے لگے۔ دو دن ہوئے شیخ رشید صاحب ایک نجی چینل کی خاتون اینکر کے پروگرام میں مہمان
خصوصی تھے۔ خاتون نے شیخ صاحب سے یہی سوال کیا کہ خیبر پختونخوا میں عمران خان کچھ ڈلیور نہیں کرپا رہے‘ آپ کا کیا خیال ہے؟ تو شیخ صاحب نے معنی خیز اندازمیں سر کو ہلاتے ہوئے فرمایا کہ یہ ان سے پوچھیں۔ ہم نے تو یہی سنا تھا کہ دوست دوست کا وکیل ہوتا ہے لیکن شیخ صاحب نہ جانے کس کے وکیل ہیں؟۔ وہ لوگ جو عمران خا ن کی کار کر دگی پر تنقید کر رہے ہیں‘ ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا خیبر پختونخوا میں کرپشن اور اقربا پروری کا راج ہے؟ کیا خیبر پختونخوا میں سوائے عالمی دہشت گردی کے باقی جرائم میں پہلے کی نسبت اضافہ ہو چکا ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر تحریک انصاف کی کارکردگی کے بارے میں ابہام کس لیے پیدا کیا جا رہا ہے؟ جو لوگ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی کولیشن حکومت اور عمران خان کی ذات کو عوام میں سوالیہ نشان بنانے کی کوششیں کر رہے ہیں کیا وہ ان کی کرپشن ثابت سکتے ہیں؟ کیا وہ عمران خان کے پاکستان کے مفادات کے خلاف کسی اقدام کا حوالہ دے سکتے ہیں؟ 16 نومبر کے راولپنڈی والے سانحہ کے دوسرے دن توتا کہانی میں کہا جانے لگا کہ راولپنڈی سے منتخب ہونے والے رکن قومی اسمبلی عمران خان کد ھر ہیں؟ کہاں چھپ گئے ہیں؟ اور جب وہ دو صاحبان یہ الفاظ ادا فرما رہے تھے‘ عین اس وقت عمران خان راولپنڈی میں زخمی ہونے والوں کی ہسپتال میں عیادت کر رہے تھے۔ سچ کہا گیا کہ ''Value Has a Value Only If It's Value Is Valued''