"MABC" (space) message & send to 7575

آپ کیا کرتے؟

بیس کے قریب بچے اپنے گھروں سے تھوڑے فاصلے سے گزرنے والی ریلوے لائنوں پر کھیلنے کے لیے جمع تھے۔ دو ٹریک تھے، ایک ٹریک ہنگامی صورتحال پیش آنے پر استعمال میں لایا جاتا اور دوسرا روزانہ گزرنے والی ریل گاڑیوں کے لیے تھا۔ چار بچوں کے گروپ نے فیصلہ کیا کہ وہ نان آپریشنل ریلوے ٹریک کے اندر کھیلیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ٹریک سے انہوں نے کبھی کوئی ٹرین گزرتے نہیں دیکھی، اس لیے یہ محفوظ ہے۔ انہوں نے اپنے باقی ساتھیوں سے بھی کہا کہ وہ اسی ٹریک کے اندر کھیلیں تو بہتر ہو گا، لیکن سولہ بچوں نے اس بات سے اتفاق نہ کیا اور علیحدہ سے آپریشنل ٹریک کے اندر کھیلنا شروع کر دیا۔ تھوڑی دیر میں سب بچے کھیل کود میں اس قدر مگن ہو گئے کہ انہیں آپریشنل ٹریک پر، جس پر وہ کھیل رہے تھے، تیز رفتار ایکسپریس ٹرین کی آمد کی خبر تک نہ ہو سکی۔ ریل گاڑی اپنی پوری رفتار سے بڑھتی چلی آرہی تھی۔ ایک ریلوے اہلکار نے دور سے یہ منظر دیکھا تو ایک خوفناک اور یقینی حادثہ اس کی آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا، ایک لمحے کے لیے اس نے ادھر ادھر دیکھا کہ شاید ٹرین ڈرائیور کو دکھانے کے لیے کہیں سے سرخ جھنڈی مل جائے لیکن ناکام رہا، اس کے پاس اب چند سیکنڈ تھے کیونکہ ٹرین اس قدر قریب پہنچ چکی تھی کہ ایمرجنسی بریک لگانے کی صورت میں کئی بوگیاں الٹنے کا اندیشہ تھا۔ ریلوے ملازم نے اسی لمحے ٹرین کے لیے مخصوص آپریشنل ٹریک کا کانٹا‘ جس پر سولہ بچے کھیل رہے تھے، بدلتے ہوئے ریل گاڑی کو نان
آپریشنل ریلوے ٹریک پر ڈال دیا‘ جس پر چار بچے کھیلنے میں مصروف تھے۔ یہ بچے اچانک آنے والی افتاد سے بچ نہ سکے، دیکھتے ہی دیکھتے تیز رفتار ریل گاڑی چاروں بچوں کو کچلتے ہوئے گزر گئی۔ پورے قصبے میں کہرام مچ گیا اور کوئی ایک گھنٹے بعد ملک بھر کے میڈیا پر اس دلخراش حادثے کی بریکنگ نیوز کا آغاز ہو گیا۔ حسب معمول ریلوے کی کارکردگی سمیت بہت سے عوامل زیر بحث آنا شروع ہو گئے۔ حادثے کی انکوائری شروع ہوئی تو کانٹا بدلنے والے ریلوے ملازم کا موقف تھا کہ اس نے سولہ بچوں کی زندگیاں بچانے کے لیے ٹرین کو آپریشنل ٹریک سے نان آپریشنل ٹریک پر جان بوجھ کو ڈالا تھا‘ جہاں صرف چار بچے کھیل رہے تھے۔ کانٹا بدلنے والے کو چار بچوں کے قتل کا مجرم ٹھہرایا جا رہا تھا۔ اس نے انکوائری کمیٹی کے اراکین سے سوال کیا کہ اگر آپ اس وقت میری جگہ ہوتے تو فوری طور پر کیا فیصلہ کرتے؟
یہ ہمارے ملک میں پیش آنے والے ایک ٹرین حادثے میں اہم کردار ادا کرنے والے ایک معمولی اہلکار کا موقف تھا۔ آئیے، ہم ایک نظر نائن الیون کے حادثے اور اس سے پیدا ہونے والی صورتحال میں پاکستانی حکمرانوں کی طرف سے کیے گئے فیصلے پر ڈالتے ہیں۔
جب نیویارک میں امریکی قوم کا فخر اور تجارتی و کاروباری اداروں کے مرکز ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے دونوں ٹاور جہازوں کے ٹکرانے سے زمین بوس ہو گئے۔ جب پینٹاگان کا ایک حصہ اپنی تباہ ہو گیا تو پورا امریکہ اور یورپ ایک آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑا۔ اس حادثے کے کوئی ایک گھنٹے بعد بھارتی وزیر خارجہ جسونت سنگھ نئی دہلی میں امریکی سفارت خانے میں بیٹھے بھارتی حکومت کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا بھر پور ساتھ دینے کا وعدہ کر رہے تھے اور صرف پانچ گھنٹے بعد بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے امریکی صدر جارج بش کو ایک انتہائی خفیہ خط میں لکھا: '' آج سے ہی بھارت نے پاکستانی سرحدوں کے ساتھ اپنے تمام بری، بحری اور فضائی اڈے امریکی افواج اور اس کے دوسرے اداروں کے لیے مخصوص کر دیے ہیں، آپ جب چاہیں، جس وقت چاہیں اور جس طرح چاہیں ان کو بلاجھجک استعمال میں لا سکتے ہیں۔ آپ کی حکومت پاکستان کے اندر موجود القاعدہ‘ دہشت گردوں کے کیمپوں اور دوسرے ٹھکانوں سے باخبر ہو گی لیکن بھارتی حکومت آپ کو آپریشن کی صورت میں اس بارے میں مزید بہترین اطلاعات تک رسائی دے گی‘‘۔
امریکی نیول چیف ایڈمرل ڈینس بلیئر اور رچرڈ ہاس اور تین اعلیٰ ترین امریکی افسران فوری طور پر نئی دہلی پہنچ گئے‘ جہاں ان کی طرف سے دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کے لیے بھارت کی طرف سے پیش کیے جانے والے اڈوں کی سہولتوں کا جائزہ لیا گیا۔ جب یہ وفد امریکہ واپس پہنچا تو واجپائی حکومت کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر برجیش مشرا واشنگٹن میں اعلیٰ امریکی حکام کو پاکستان اور افغانستان میں موجود دہشت گردوں کے خلاف کی جانے والی ممکنہ کارروائیوں کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دے رہے تھے۔ پندرہ ستمبر کو واجپائی کی زیر صدارت ہونے والے بھارت کی کابینہ کمیٹی برائے ڈیفنس کے اجلاس میں امریکہ کو مہیا کی جانے والی بری، بحری اور فضائی سہولتوں کا ڈرافٹ تیار کرکے امریکی حکام کے حوالے کیا گیا اور اس کے بدلے میں کشمیر پر بھارت کی بھرپور مدد کا وعدہ لیا گیا جس میں کشمیر میں مصروفِ تنظیموں کے ٹھکانوں پر بمباری اور ان پر مکمل پابندی بھی شامل تھی۔ بھارتی وزیر اعظم واجپائی نیویارک میں جنرل اسمبلی کے اجلاس میں جاتے ہوئے واشنگٹن رکے اورصدر بش سے ہنگامی ملاقات میں بھارت کی طرف سے افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف مکمل اور بھرپور مدد کی یقین دہانی کرائی۔
بھارت نائن الیون کے نتیجے میں اٹھنے والے طوفان میں پاکستان کو بری طرح رگیدنا چاہ رہا تھا اور اس کی خواہش تھی کہ دنیا بھر کے میڈیا اور عوام کو پاکستان سے اس قدر متنفر کر دیا جائے کہ جب پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر بھارت اور اسرائیل کا مشترکہ آپریشن ہو تو کوئی ایک آواز بھی پاکستان کے حق میں نہ اٹھ سکے۔ اس مقصدکے لیے ایک خونیں ڈرامہ تیار کیا گیا۔ ہو سکتا ہے، ہمارے عوام کی یادداشت سے بھارت کا یہ ڈرامہ محو ہو گیا ہو۔۔۔ نائن الیون کے تین ہفتے بعد یکم اکتوبر 2001ء کو کچھ ''دہشت گرد‘‘ سری نگر میں کشمیر اسمبلی کی عمارت پر دھاوا بولتے ہوئے کلاشنکوفوں کی گولیوں اور دستی بموں سے وہاں موجود 38 افراد کو ہلاک اور پچیس کو زخمی کر دیتے ہیں۔ جونہی یہ مبینہ ''دہشت گرد‘‘ مقبوضہ کشمیر اسمبلی پر حملہ آور ہوتے ہیں دنیا بھر میں القاعدہ اور طالبان سے منسلک دہشت گردوں کے خلاف نفرت کا ایک طوفان امنڈ آتا ہے۔ دنیا بھر کے ٹی وی چینلز اپنی بریکنگ نیوز میں نائن الیون کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے پاکستانیوں کے خلاف عوامی نفرت کو ہوا دینا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس وقت امریکہ پاکستان سے کہتا ہے: '' آپ ہمارے ساتھ ہیں یا دہشت گردوں کے ساتھ، اگر تم نے دہشت گردوں کے خلاف ہمارا ساتھ نہ دیا تو ہم بھارت کی مدد لینے پر مجبور ہو جائیں گے‘‘ حکمرانوں سے نہیں بلکہ آپ سے سوال ہے ۔۔۔ان حالات میں آپ کافیصلہ کیا ہوتا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں