"MABC" (space) message & send to 7575

بھارتی فوج اور جمہوریت

فوج کے بجٹ بارے مختلف قسم کی تاویلیں دینے والوں کے لیے بہتر تھا کہ وہ یہ سب کچھ کہنے سے پہلے بھارتی فوج کے دفاعی بجٹ اور پارلیمنٹ میں اس کی منظوری کی ایک جھلک دیکھ لیتے۔ ایک بڑی پارٹی کے اہم رہنما سمیت کئی دوسرے لوگ آج بھی بھارتی پارلیمنٹ کی کارروائی کی ریکارڈنگ منگوا کر دیکھ سکتے ہیں۔ جب بھارتی پارلیمنٹ سے یہ بجٹ منظور ہو رہا تھا تو اس میں بے تحاشا اضافے پر نہ تو بھارت کے ذرائع ابلاغ کی طرف سے کوئی شور ہوا اور نہ کسی بھارتی سیا ستدان ہی نے آسمان سر پر اٹھایا۔ کسی نے یہ بھی نہیں کہا کہ بھارتی فوج ملکی وسائل کھا رہی ہے بلکہ سب ممبران پارلیمنٹ نے ڈیسک بجاتے ہوئے اس کی منظوری دی۔ ایوان میں اپوزیشن بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے بھارت کا دفاعی بجٹ منظور ہونے کے بعد ایوان میں جو چند فقرے بولے گئے‘ وہ یہ ہیں۔ ''اس دفعہ بھارت کے دفاعی بجٹ میں اضافے کی وجہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ہے‘‘۔ جب بھارتی میڈیا کے نمائندوں سے اس بجٹ پر بات کی گئی تو کسی ایک نے بھی اس پر انگلی نہیں اٹھائی بلکہ ایک بھارتی چینل'' اردو‘‘ پر ممتاز صحافی پروفیسر منوہر رائو سے اس دفاعی بجٹ بارے پوچھا گیا تو انہوں نے صرف اتنا ہی کہاکہ ''1947ء سے دیش کی آزادی سے لے کر اب تک بھارتی فوج ہمارے لیے ایک مقدس گائے کا درجہ رکھتی ہے‘ اس لیے میں اس پر کچھ بھی کہنا نہیں چاہتا‘‘۔
بھارت کے دفاعی بجٹ پر جہاں ایک طرف بھارتی پارلیمنٹ کے اراکین تالیاں بجاتے ہیں تو دوسری طرف بھارتی فوج کے ایک سابق وائس چیف آف آرمی سٹاف جنرل موتی رام نے ایک انٹرویو میں کہا '' اپنی34 سالہ فوجی ملازمت کے دوران ہم ہر وقت یہی منصوبے بنایا کرتے تھے کہ پاکستان کو کس طرح ختم کیا جائے‘‘۔ پاکستان کے فوجی بجٹ پر تنقید کرنے والوں کیلئے بھارتی فوج کے ایک سابق وائس آرمی چیف کا یہ انٹرویو ہی کافی ہے۔ دوسری طرف بھارتی فوج کے مقابلہ میں جب ہمارے فوجی جرنیل بھارت کے متعلق کوئی منصوبہ بناتے ہیں توان کے خلاف کمیشن بنانے کی مہم چلا کے فوج کو نیچا دکھانے کی کوشش شروع ہوجاتی ہے جو اپنے بجٹ کے لحاظ سے بھارتی فوج سے گیارہ درجہ کم اور فوجی طاقت کے اعتبار سے پانچ درجہ کم ہونے کے باوجود بھارت سے ملحق 2000کلومیٹر ، کشمیر کی 720 کلومیٹر اور افغانستان کی 2160 کلومیٹر طویل سرحدوں کی حفاظت کے لیے دن رات چوکس رہتی ہے۔ 
ہمارے سیا ستدان بھارت میں اب ویزے کی بجائے شناختی کارڈ پر آنے جانے کی باتیں کرتے ہیں تو دوسری طرف اٹھتے بیٹھتے بھارتی فوج کی جمہوریت سے محبت اور تابعداری کے قصے سنا سناکر پاکستانی عوام کو یہ باور کرانے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں کہ بھارت کی ترقی کا راز اس کی فوج کا پارلیمنٹ کے ماتحت ہونے میں ہے۔ بھارتی فوج کس قدر پارلیمنٹ کے ماتحت ہے اس کے لیے میں اپنے قارئین کو 8 مئی 1998ء کی طرف لیے چلتا ہوں جب پاکستانی سیا ستدانوں کی نظر وںمیں سب سے بڑی جمہوریت بھارت کی پارلیمنٹ کی عمارت کے اندر بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزیر دفاع جارج فرنینڈس نے اعلان کرتے ہوئے کہا کہ'' چین بھارت کا دشمن نمبر ایک ہے‘‘۔ بھارتی وزیر دفاع جارج فرنینڈس کا پارلیمنٹ میں دیا گیا یہ بیان ابھی ہوا میں گونج ہی رہا تھا کہ بھارتی فوج کے کمانڈر انچیف جنرل وی پی ملک نے بھارت کے مشہور انگریزی اخبار 'ہندوستان ٹائمز‘ کے ایک سینئر رپورٹر کو خصوصی طور پر اپنے دفتر میں بلا کر ایک خصوصی انٹر ویو دیتے ہوئے اعلان کیا کہ وزیر دفاع جارج فرنینڈس کا یہ کہنا با لکل غلط ہے کہ''چین بھارت کا دشمن نمبر ایک ہے‘‘ اور بھارتی فوج کے کمانڈر انچیف کی حیثیت سے میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ چین ہمارا دشمن نمبر ایک نہیں ہے ۔ 9 مئی 1998ء کے 'ہندوستان ٹائمز‘ نے بھارتی فوج کے کمانڈر انچیف جنرل وی پی ملک کے اس بیان کو نمایاں طور پر شائع کیا۔ فوج کو نشانۂ ستم بنانے والے دانشور، ہیومن رائٹس کے سرخیل اور سیا ستدان پاکستانی عوام کو یہ بتانا پسند فرمائیں گے کہ جمہوریہ بھارت کے آئین کی کون سی شق کے تحت بھارت کے وزیر دفاع کے پارلیمنٹ میں دیئے گئے پالیسی بیان کی بھارتی فوج کے آرمی چیف نے تردید کی؟ 
بھارتی فوج کے کمانڈر انچیف جنرل وی پی ملک کے اس بیان پر بھارت کی حکمران جنتا پارٹی سمیت اس وقت کی اپوزیشن جماعت کانگریس کی قیادت چُپ رہی۔ کسی کو بھارتی فوج کے کمانڈر انچیف کے سامنے بولنے کی ہمت نہ ہوئی اور کسی نے بھی ان کے بیان کی
تردید نہیں کی‘ سب کو سانپ سونگھ گیا۔ اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے بھارتی آرمی چیف کے اس'' غیرذمہ دارانہ بیان پر جنرل وی پی ملک سے استعفیٰ نہیں مانگا تھا‘‘ جس طرح نیشنل سکیورٹی کونسل کی بات کرنے پر پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت سے استعفیٰ مانگا گیا تھا ۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت کے وزیر اعظم کی بھارتی فوج کے کمانڈر انچیف کے سامنے بے بسی ملاحظہ فرمائیں کہ بھارتی فوج نے صرف اسی پر بس نہیں کیا بلکہ بھارتی وزیر اعظم واجپائی کو حکم دیا کہ جارج فرنینڈس کو فوری طور پر وزیر دفاع کے عہدے سے الگ کردیا جائے اور بھارتی آرمی چیف کے اس حکم کے صرف چند دن بعد جارج فرنینڈس سے وزارت دفاع واپس لے کر اسے ایک انتہائی غیر اہم وزارت دے دی گئی۔ اندر کمار گجرال جب وزیر اعظم تھے تو بھارتی فوج نے ان کی اجازت اور ان کے علم میں لائے بغیر انتہائی مہلک میزائل پاکستانی سرحد کے قریبی علاقے جالندھر پہنچا دیئے۔ غیر ملکی میڈیا نے جب ان کی توجہ اس طرف دلائی تو گجرال حیرت زدہ ہو کر بولے کہ میں تو پاکستانی وزیر اعظم نوازشریف کے ساتھ شمالی امریکہ کی طرز پر تجارتی معاہدہ کرنے جا رہا ہوں اور ایسے وقت میں مجھے مکمل اندھیرے میں رکھ کر سرحدوں پر مہلک میزائل نصب کیے جا رہے ہیں؟ اور پھر سب نے دیکھا کہ بھارتی فوج کی شان میں اس گستاخی پر چند ماہ بعد دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے وزیر اعظم گجرال کو چپکے سے اس طر ح جانا پڑا کہ ان کی واپسی کی سب راہیں بند کردی گئیں۔ 
ذرا اور آگے چلیں۔ دسمبر 2006ء میں فارن میڈیا میں اس طرح کی خبریں شائع ہونے لگیں کہ مارچ 2007ء میں بھارت سیا چن سے فوجیں واپس بلالے گا تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان دوستی کی راہ ہموار ہو سکے۔ جب بھارتی وزیر اعظم من مو ہن سنگھ کی حکومت سیاچن پر یہ معاہدہ کرنے جا رہی تھی تو بھارتی فوج نے اس کی منظوری دینے سے انکار کر دیا۔ 17مئی2007ء کو بھارتی فوج کے کمانڈر انچیف کی طرف سے من موہن سنگھ کو بھیجی گئی ایڈوائس کا ایک حصہ پیش ہے۔ بھارتی فوج کے کمانڈر انچیف بھارتی وزیر اعظم کو لکھتے ہیں ''اگلے دوسال تک سیاچن سے بھارتی فوجیں نہیں ہٹائی جائیں گی اور دو سال بعد بھی بھارتی افواج کو پاکستان سے اتنا قریب رکھیں گے کہ جنگ کی صورت میں انہیں فوری طور پر ایڈوانس کرنے میں مشکل نہ ہو‘‘۔ بھارتی فوج کے چیف کے اس حکم کے بعد دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے وزیر اعظم من موہن سنگھ اور اطالوی روشن خیال سونیا گاندھی سیاچن کے معاملے پر خاموش ہوگئے اور اس معاہدہ کی راہ میں ابھی تک بھارتی فوج کے ہر آنے والے کمانڈر انچیف کی چھڑی حائل ہے۔ 
بھارت کی خارجہ پالیسی اور جمہوریت کی باگیں درحقیقت بھارتی فوج کے ہاتھوں میں ہیں اورآج تک کسی بھی بھارتی پارلیمنٹ نے بھارتی فوج کی باگیں اپنی گردن سے ہٹانے کی کوشش نہیں کی۔ بھارتی پارلیمنٹ میں کیے جانے والے اہم ترین فیصلے بھارتی جی ایچ کیو میںہی کیے جاتے ہیں۔ اگر کسی کو اب بھی تھورا سا شک رہ گیا ہے تو وہ بھارت کے گزشتہ انتخابات میں کانگریس کی کامیابی کے بعد سونیا گاندھی کی وزیر اعظم کے طور پر نامزدگی میں حائل پس پردہ عوامل پر نظر ڈال لے...! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں