"MABC" (space) message & send to 7575

پانی اور فیروزپور

قیام پاکستان سے ایک رات قبل پاکستانی اور بھارتی پنجاب کی حد بندی میں اچانک تبدیلی کیوں ہوئی؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو عرصے سے جواب طلب ہے اور پاکستان کے مقابلے میں بھارتی لیڈروں کی نیشلزم کی گواہی کے طور پر ایک چھوٹی سی مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ بھارت راوی، ستلج اور بیاس کو خشک کرنے کے بعد اب سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے حصے میں آنے والے تین دریائوں چناب‘ جہلم اور دریائے سندھ کو خشک کرنے کے لیے دن رات ایک کئے ہوئے ہے اور اس سلسلے میں بیرونی ممالک کی کمپنیوں کو اربوں روپے کے ٹھیکے دے رہا ہے لیکن لگتا ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کو اس کی کوئی فکر نہیں‘ کوئی پریشانی نہیں‘ کوئی دکھ نہیں کہ اس کے نتیجے میں ہمارے کھیت کھلیان خشک ہو جائیں گے۔۔۔ کیا وہ اس وقت کا انتظار کر رہے ہیں جب یہ پاکستانی قوم‘ جس کے وسائل وہ ہڑپ کیے جا رہے ہیں‘ پانی کے ایک ایک قطرے کیلئے چیخے گی یا اس وقت کے انتظار میں ہیں جب پانی نہ ہونے سے یہ قوم چاول اور گندم کے ایک ایک دانے کو ترسے گی؟ ہمارے سیاستدان ایک طرف پاکستان کے بچ جانے والے تین دریائوں کو خشک کرنے والے بھارت کے 90 سے زائد پاور پراجیکٹس اور بیراجوں کی طرف دیکھ کر منہ ہی منہ میں بڑ بڑا کر لمبی تان کر سو جاتے ہیں جبکہ دوسری طرف بھارتی سیاستدان اور حکمران ہیں‘ جنہوں نے صرف ایک فیروزپور ہیڈ ورکس حاصل
کرنے کیلئے دن رات ایک کیے رکھے اور ریڈکلف ایوارڈ تبدیل کروا دیا تاکہ فیروزپور ہیڈ ورکس پاکستان کو ملنے سے بیکانیر کی ریاست کا پانی خشک نہ ہو جائے۔ خشکی کے راستے بھارت جانے والے دوران سفر دیکھتے ہوں گے کہ کس طرح ستلج اور بیاس پوری آب و تاب سے بہہ رہے ہیں‘ جن کی وجہ سے پنجاب اور چندی گڑھ اور پھر فیروزپور ہیڈ ورکس کی وجہ سے بیکانیر سر سبز نظر آتا ہے۔ پانی کی فراوانی کی وجہ سے بھارت میں چاروں طرف آپ کو لہلہاتی فصلیں نظر آئیں گی۔ وہی فیروزپور جو مسلم اکثریتی علا قہ ہونے کی وجہ سے تقسیم کی حد بندی کے مطابق پاکستان میں شامل کیا گیا تھا لیکن گیارہ اور بارہ اگست کی درمیانی رات یک دم بھارت میں شامل کر دیا گیا۔ 
یہ بات تاریخ کا حصہ ہے کہ تقسیم ہند کے فارمولا کے مطابق مسلم اکثریت کا علا قہ ہونے کی وجہ سے فیروزپور پاکستان کے حصے میں آ رہا تھا لیکن نہرو نے اسے تبدیل کرا دیا۔ کیوں اور کیسے تبدیل کرایا؟ اس کے بارے میں کرسٹوفر بیومونٹ کا 1989ء میں لکھا گیا ایک نوٹ ملاحظہ فرمائیں۔ وہ لکھتاہے : ''سر جارج ایبل کی موت کے بعد میں وہ واحد زندہ گواہ ہوں جسے یہ علم ہے کہ پاکستان اور بھارت کی تقسیم کس طرح مکمل ہوئی اس میں تبدیلیاں کیسے اور کیوں ہوئیں؟‘‘ لارڈ ریڈکلف کے پرسنل سیکرٹری کرسٹوفر نے وصیت کرتے ہوئے کہا: '' آج میں یہ حقائق ریکارڈ کروا رہا ہوں‘ لیکن میری درخواست ہے کہ اسے اس وقت تک منظر عام پر نہ لایا جائے جب تک میں زندہ ہوں اور میرے بعد کم از کم نائب وزیر خارجہ اور متعلقہ لوگوں کی موجودگی میں اسے سن کر اسے محفوظ رکھنے کیلئے ریکارڈ میں شامل کر لیا جائے۔ بائونڈری لائن کمیشن کے جائنٹ چیئرمین لارڈ ریڈکلف کے سیکرٹری کرسٹوفر کی ریکارڈنگ ملاحظہ فرمائیں: ''چھ جولائی 1947ء کو سر کیرل ریڈکلف‘ جو بعد میں لارڈ بن گئے‘ کو
بائونڈری کمیشن کا جائنٹ چئیرمین مقرر کیا گیا۔ سات جولائی کو مجھے ان کا پرائیویٹ سیکرٹری اور آٹھ جولائی کو وی ڈی آئر‘ جو ہندو تھا‘ کو اسسٹنٹ سیکرٹری مقرر کیا گیا اور یہ ایک بہت بڑی غلطی تھی‘ جو نہ جانے جان بوجھ کر گئی ہے یا نہیں‘ لیکن تقسیم ہند کی انتہائی خفیہ ترین بائونڈری کمیشن میں کسی ہندو یا مسلمان کی تقرری کسی طور مناسب نہ تھی‘ اس کے باوجود ہماری ان دونوں تقرریوں کا نوٹیفکیشن انڈیا گزٹ میں 28 جولائی کو درج ہو گیا۔ لارڈ مائونٹ بیٹن، جواہر لال نہرو اور محمد علی جناح کے درمیان یہ فیصلہ ہوا کہ پنجاب اور بنگال کی تقسیم کے بارے میں ریڈکلف ایوارڈ کی رپورٹ پندرہ اگست تک تیار ہو جانی چاہیے جس پر ریڈکلف کو اس لیے اعتراض تھا کہ ایک ماہ اور نو دن میں یہ رپورٹ تیار کرنا ناممکن تھی لیکن ان کی یہ درخواست مسترد کر دی گئی۔ دوسری طرف بنگال اور پنجاب میں ہندو مسلم فسادات شروع ہو چکے تھے۔ اسی دوران بائونڈری کمیشن میں ایک ہندو اور ایک مسلمان جج کو شامل کیا گیا‘ لیکن جلد ہی ان دونوں کے آپس میں رویے کی بنا پر انہیں فارغ کر دیا گیا لیکن ہندو اسسٹنٹ سیکرٹری آئر‘ جس کی انتہائی خفیہ کاغذات اور نقشوں تک رسائی تھی‘ کو اس اہم ترین پوسٹ سے نہ ہٹایا گیا اور نہ ہی مسلم لیڈران نے اس کی نشاندہی کی۔ میں آج تک حیران ہوں کہ لارڈ ریڈکلف کے اسسٹنٹ سیکرٹری کیلئے انگریز کی بجائے ہندو کا انتخاب کیوں اور کس نے کرایا‘ کیونکہ حساس ترین اور انتہائی خفیہ کاغذات تک کسی بھی ہندو یا مسلم کی رسائی نہیں ہونی چاہئے تھی؟ ۔۔۔ ہندو مسلم ججوں کے فارغ ہونے کے بعد ہم تین لوگ تھے ریڈکلف، میں یعنی کرسٹو فر اور وی ڈی آئر‘ جنہیں بائونڈری لائن اور نقشوں میں ہونے والی ایک ایک تبدیلی کا علم ہوتا تھا اور مجھے یقین کی حد تک شک تھا کہ آئر اس وقت کے اہم ترین کانگریسی لیڈر وی پی مینن سے رابطے میں ہے۔ میرا یہ شک اس وقت اور بھی پختہ ہو گیا‘ جب 12 اگست 1947ء کو وائس ریگل کانفرنس میں پنڈت نہرو نے چٹاگانگ ہل کا علا قہ پاکستان میں شامل کیے جانے پر سخت احتجاج کیا۔۔۔ اور یہ سچ تھا کہ ایسا ہی ہو رہا تھا‘ جس کا نہرو کو پتہ چل گیا‘ کیونکہ وائس ریگل لاج میں میٹنگ سے کچھ دیر پہلے میں نے یہ کاغذات آئر کو دیے تھے جن میں چٹاگانگ ہلز کا علاقہ پاکستان کے حصے میں ڈالا جا رہا تھا۔ جان کرسٹی کہتا ہے کہ گیارہ اگست 1947ء کو ''H.E. is 
having to be strenuously dissuaded from trying to persuade Radcliff to alter his Panjab line.This was on a date when H.E. ought not to have known where the line was drawn.۔۔۔۔۔۔۔
(جاری )

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں