حقیقت یہ ہے کہ سر ریڈکلف نے پنجاب کی تمام بائونڈری لائن مکمل کر لی تھی اور اس حد بندی میں فیروزپور کا علا قہ پاکستان کے حصے میں آ رہا تھا۔ گورنر پنجاب سر ایون جنکنز نے سر جارج ایبل کو خط لکھتے ہوئے درخواست کی کہ مجھے پاکستان اور بھارت کی حد بندی لائن کے بارے میں تفصیل سے بتایا جائے تاکہ میں اس کے مطابق ان علا قوں میں فوج کو تعینات کر سکوں جہاں فسادات اور قتل و غارت کا خدشہ ہو سکتا ہے۔ اس خط پر سرجارج نے مجھے حدبندی کی تفصیل دینے کو کہا‘ جس پر میں نے تقسیم پنجاب کی حد بندی کا نقشہ سر جارج ایبل کو دے دیا‘ جسے انہوں نے گورنر پنجاب سر ایون جنکنز کو بھجوا دیا‘ لیکن اس سے پہلے چٹاگانگ ہل کی طرح فیروزپور کے بارے میں بھی آئر نے وی پی مینن کو آگاہ کر دیا جو بعد میں بھارت کے صدر بنے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ گیارہ اگست کی آدھی رات کے بعد کانگریس کے چوٹی کے لیڈر وی پی مینن وائس ریگل ہائوس کے بیرونی دروازے پر پہنچے اور وہاں کھڑے گارڈ اور چپڑاسی نے انہیں اندر بھجوا دیا اس وقت میں (کرسٹوفر) اور ریڈکلف حد بندی کے کام میں مصروف تھے۔ ان کے آنے کی اطلاع پر میں باہر گیا تو وی پی مینن نے ریڈکلف سے فوراًَ ملنے کی درخواست کی۔ میں نے نرمی سے انہیں سمجھایا کہ وہ اس وقت آپ سے نہیں
مل سکتے۔ وی پی مینن نے کہا کہ سر ریڈکلف کو بتا دیں کہ مجھے لارڈ مائونٹ بیٹن وائسرائے ہند نے بھیجا ہے۔ اس کے با وجود میں نے انہیں شائستگی سے انکار کر دیا‘ جس پر وہ خاموشی سے چلے گئے۔ اگلی صبح ناشتے پر میں نے سر ریڈکلف کو وی پی مینن کی رات گئے آمد سے آگاہ کر دیا‘ جس پر وہ خاموش رہے۔ دن چڑھے سر ریڈکلف نے مجھے بتایا کہ شام کو وہ لارڈ مائونٹ بیٹن کے پرائیویٹ سیکرٹری لارڈ اسمے کی طرف سے دیے گئے عشائیہ پر جا رہے ہیں‘ جو برطانیہ سے خصوصی ہدایات پر لارڈ مائونٹ بیٹن کی معاونت کیلئے ہندوستان پہنچے ہیں‘ لیکن ریڈکلف نے یہ بتا کر مجھے حیران کر دیا کہ انہیں اکیلے آنے کا کہا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں یہ ہدایت بھی کی گئی ہے کہ اپنے پرائیویٹ سیکرٹری کرسٹو فر کو ساتھ مت لائیں۔ وجہ یہ بتائی گئی کھانے کی میز چھوٹی ہونے کی وجہ سے زیا دہ آدمیوں کیلئے مناسب نہیں۔ لیکن یہ محض ایک عذر تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ملکہ برطانیہ کی خصوصی ہدایت پر لارڈ اسمے گورداسپور کا علاقہ بھارت میں شامل کرانے آئے ہیں۔
تقسیم ہند کے ساتھ ہی میرا کام مکمل ہو جانے پر اٹھارہ اگست کو میں واپس برطانیہ جا رہا تھا‘ اس لیے الوداعی دعوتوں کیلئے بھی میری اس دعوت میں موجودگی ضروری تھی‘ لیکن نہیں بلایا گیا۔۔۔۔ اس رات جب ریڈکلف واپس آئے تو وہ خاموش تھے۔ ان سے معلوم ہوا کہ پنجاب کی حد بندی میں آنے والے وقت کی جغرافیائی سٹرٹیجی کے پیش نظر پاکستان سے ''زیا دتی‘‘ کی جا رہی ہے۔۔۔۔۔گورداسپور کے بعد فیروزپور کا ہیڈ ورکس کانگریسی ہندوئوں کے گلے کی ہڈی بنا ہوا تھا اور آدھی رات کے وقت وی پی مینن کے مشن کی ناکامی کے بعد پنڈت نہرو لارڈ مائونٹ بیٹن سے ملا اور اسے مجبور کیا کہ وہ ذاتی طور پر ریڈکلف ایوارڈ کی حد بندی تبدیل کراتے ہوئے فیروزپور کو بھارت میں شامل کرے کیونکہ اگر فیروزپور ہیڈ ورکس پاکستان کو مل جاتا ہے تو پوری ریا ست بیکانیر‘ جس کا راجہ مائونت بیٹن کا ذاتی دوست ہے‘ پانی کو ترس جائے گی۔ نہرو نے لارڈ اسمے کے کھانے میں ریڈکلف کو پیغام بھیجا: ''اگر آپ نے ہماری درخوا ست مسترد کرتے ہوئے فیروزپور پاکستان کو جانے دیا تو بیکانیر کے پانی کے لیے ہم بزور طاقت پاکستان سے فیروزپور ہیڈ ورکس چھین لیں گے اور پھر یہ جنگ بہت دور تک جا سکتی ہے۔ دوسری طرف پنڈت نہرو، مہاراجہ بیکانیر اور برطانوی تخت کی ہدایت پر آئے ہوئے لارڈ اسمے کے دبائو پر لارڈ ریڈکلف کو پنجاب کی حد بندی میں آخری وقت میں تبدیلی کرتے ہوئے فیروزپور ہیڈ ورکس بھارت کے حوالے کرنا پڑا‘‘۔
یہ ہوتی ہے قیادت۔ اسے کہتے ہیں اپنی قوم سے محبت۔ ایک طرف بھارتی سیاستدان ہیں‘ جنہوں نے یک زبان ہو کر صرف ایک ریا ست بیکانیر کی ہریالی کیلئے فیروزپور ہیڈ ورکس واپس لینے کیلئے نہ جانے کیا کیا جتن کیے۔ دوسری طرف ہمارے سیاستدان ہیں‘ جن کے سامنے بھارت 90 سے زائد ڈیم تعمیر کر رہا ہے جن کے ذریعے پاکستان کا ستلج، راوی، بیاس خشک ہو چکا ہے اور اب چناب، جہلم اور دریائے سندھ کا گلا گھونٹ رہا ہے۔ ان تینوں دریائوں کو دیکھ کر سب کو اندازہ ہو رہا ہو گا کہ ابھی بھارت نے اپنے تمام بیراج، ڈیم اور پاور ہائوس مکمل نہیں کیے لیکن جب کھربوں ڈالر کے یہ سب پراجیکٹ مکمل ہو گئے تو ملتان، بھکر، لیہ، مظفر گڑھ، بہاولنگر، بہاولپور‘ ساہیوال، اوکاڑہ، گوجرانوالہ، حافظ آباد، فیصل آباد، قصور‘ پاکپتن غرضیکہ سارا پنجاب پانی کیلئے ترسے گا۔ ایک طرف ہمارے کھیت پانی نہ ہونے سے ویران ہو جائیں گے تو دوسری طرف پانی کا لیول اس حد تک کم ہو جائے گا کہ پینے کیلئے نہیں ملے گا۔ یہ کوئی لفاظی نہیں حقیقت ہے۔ ٹھوس حقیقت‘ جس سے پنجاب کے خادم اور حکمران سب آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں بلکہ بھارت سے ویزے کی پابندیاں ختم کرنے کے نعرے لگا رہے ہیں۔ بھارت کی سینہ زوری اور بدمعاشی کی وجہ سے دریائے سندھ بھی خشک ہونے جا رہا ہے لیکن سب خاموش ہیں۔ کوئی ہلکی سی آواز بھی نہیں اٹھا رہا‘ ہلکا سا احتجاج بھی نہیں کر رہا۔ شاید اس لیے کہ کہیں پنجاب کے بھولے بھالے عوام کی اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کی موت دیکھ کر آنکھیں نہ کھل جائیں۔ یہ ہے ہندو کا وہ سفاکانہ منصوبہ‘ جس سے وہ پاکستان کو ایٹم بم یا میزائل نہیں پانی کے بم سے تباہ کرنے جا رہا ہے۔(ختم)