امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے اسلام آباد میں بیٹھ کر اشارہ دیا ہے کہ افغان فوج کی تربیت کے لیے بھارتی فوج کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، نیویارک ٹائمز ،سنڈے ٹائمز اور دیگر با ا ثر امریکی اخبارات کن کے اشاروں پر ''بھارتی سپانسرڈ الزامات‘‘ کو ہوا دے رہے ہیں کہ پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی طالبان کیلئے نرم گوشہ رکھتی ہے ۔ شاید انہیں پاکستانی فوج کی بنیادی ٹریننگ کاذرہ برابر علم نہیں۔پاکستانی فوج کے جوان اور افسر اپنے کسی جوان کے قاتل کے لیے دل میں نرم گوشہ نہیں رکھتے تو وہ القاعدہ اور اس کی ذیلی شاخ تحریک طالبان پاکستان کے لیے کیسے نرم گوشہ رکھ سکتے ہیں؟ جوپاک فوج کے دو ہزار سے زائد افسروں اور جو انوں کے قاتل ہیںاور جو معصوم بچوں کے قاتل ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کے جیکسن ڈئیل اور ان کے ساتھی بھول رہے ہیں کہ اگر پاکستانی فوج طالبان کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے توپھر شمالی اور جنوبی وزیرستان میں پاکستان کے دست وبا زو قبائلی سرداروں کی آئے روز ٹارگٹ کلنگ کیوں کی جا رہی ہے؟ اگر فوج کے دل میں طالبان کے لیے نرم گوشہ ہے تو ملک فرید اﷲ جیسے پاکستان کے حامی با اثر قبائلی سرداروں کو چن چن کر کون قتل کر رہا ہے؟۔ سرحد ، اسلام آباد اور ملک کے دوسرے حصوں میں آئے روز بم دھماکے کون لوگ کر رہے ہیں؟۔ بلوچستان میں اسلحہ کے انبار کہاں سے آ رہے ہیں؟۔ گیس کی پائپ لائنوں اور بجلی کی لائنوں کو بموں سے کون اڑا رہا ہے؟۔
افغانستان کا سرکاری ریکارڈ اس بات کاگواہ ہے کہ جب افغانستان میں کرزئی حکومت قائم کی گئی تو اس میں عبداﷲ عبداﷲ اور دوستم جیسے انتہائی با اثر لوگوں نے افغان پولیس، فوج اور خفیہ ایجنسیوں کی تربیت کے لیے بھارت کی خدمات حاصل کیں اور بے شمار بھارتی ، جن میں بری ، فضائی فوج اور 'را‘ سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے ،افغانستان میں اہم پوسٹوں پر قابض ہو گئے اور انہوں نے گزشتہ چار سالوں میں چُن چُن کر کمیونسٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو فوج اور ''رام‘‘ جیسے خفیہ اداروں میں بھرتی کیا۔ کون نہیں جانتا کہ روسی جارحیت کی مدد کرنے والوں میں بھارتی 'را‘ سب سے پیش پیش تھی۔ بھارتیوں کے بھرتی کردہ یہ وہ کمیونسٹ تھے جنہوں نے اور جن کی نسلوں نے افغان جنگ اور پھر طالبان دور میں پاکستان اور ایران کے مہاجر کیمپوں میں پناہ لی تھی۔ ان میں سے کئی لوگوں نے پاکستان میں اپنے کاروبار چمکا لیے لیکن ان کی پاکستان دشمنی اسی طرح قائم رہی۔ یہی وجہ ہے کہ جب کابل میں ربانی کی حکومت تھی تو گلبدین حکمت یار کے ساتھ لڑائی میں ان کمیونسٹوں نے ربانی کا ساتھ دیا تھا کیونکہ اس وقت پاکستان حکمت یار کی مدد کر رہا تھا۔قطع نظر اس کے کہ اس وقت حکمت یار کی مدد کرنا صحیح تھا یا غلط لیکن ان کمیونسٹوں کا نشانہ بہر حال پاکستان تھا اور انہی لوگوں نے اس وقت بھارت کی مدد سے کابل میں پاکستان کے سفارت خانے کو آگ لگائی تھی۔
آج افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردوں کی آمد روکنے کے لیے اگر امریکی اور نیٹو افواج کے ساتھ پاکستان کا کوئی مشترکہ حل نہ نکلا تو پاک افغان سرحد پر فوری طور پر سات یا آٹھ مقامات پر 38کلومیٹر لمبی باڑ لگانا انتہائی ضروری ہوگا اور اس کے بعد بلوچستان کی افغانستان سے ملنے والی 350 کلومیٹرکے قریب سرحد پر بھی باڑ لگانی پڑے گی۔ کسی بھی دوسرے ملک کی طرح پاکستان کو بھی اپنے دفاع کا پورا پورا حق ہے اور سوال اس وقت یہ نہیں کہ باڑ لگانے کی اجازت کسی طرف سے ملتی ہے یا نہیں ، بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کی بے تحاشا آمد ،جیسے بھی بن پڑے، روکے ۔ سوات ،مالا کنڈ، باجوڑ اور وزیرستان میں پاکستان حالتِ جنگ میں ہے اور اس کی فورسز اور پُر امن شہریوں پر آئے روز خود کش حملے ناقابل برداشت ہو چکے ہیں ۔ بات اس وقت پاکستان کی سالمیت کی ہے اور اس میں ذرا سا بھی شک نہیں ہے کہ بلوچستان ہو یا وزیرستان ،سوات ہو یا سرحد کی مارکیٹیں اور عوام ،ان سب حملوں کے پیچھے پاکستان دشمن بیرونی طاقتیں مصروف عمل ہیں۔
سوال یہ بھی ہے کہ اگر اسرائیل کو اپنے تحفظ کے لیے غزہ اور دوسرے علا قوں میں باڑ لگانے کا حق ہے تو پاکستان کو کیوں نہیں؟ اگر میکسیکو اور امریکہ کے درمیان باڑ لگ سکتی ہے تو وزیرستان اور بلوچستان میں کیوں نہیں؟۔ اگر بھارت آج سے 25 سال پہلے ہندوستان کے محکوم سکھوں کی طرف سے شروع کی گئی خالصتان
تحریک کے دوران پنجاب کی سینکڑوں کلومیٹر طویل سرحد پر آہنی باڑ لگا سکتا ہے اور شام پانچ بجے کے بعد اس باڑ میں بر قی روچھوڑ سکتا ہے تو پاکستان ،بلوچستان اور وزیرستان میں غیر ملکی مداخلت روکنے کے لیے ایسا کیوں نہیں کرسکتا؟ دسمبر2006 ء اور جنوری 2007 ء میں جب جنرل مشرف نے یہاں باڑ لگانے کی بات کی تھی تو اس وقت عوامی نیشنل پارٹی کے بشیر بلور اور غلام احمد بلور نے شور مچا نا شروع کردیا تھاکہ دونوں طرف ہم پشتونوں کی رشتہ داریاں ہیں ،ہم یہ باڑ برداشت نہیں کریں گے ۔ افسوس انہوں نے ملکی سلامتی کو اپنے مفادات پر ترجیح دی جس کا خمیازہ آج ان کی پارٹی کے ساتھ ساتھ خیبر پختونخوا اورملک کے دوسرے حصوں کے معصوم عوام اپنی جانوں اور املاک کی تباہی کی شکل میں بھگت رہے ہیں۔ ملک کی سلامتی تمام رشتوں سے زیا دہ عزیز ہوتی ہے ،اسی لیے بھارتی حکومت نے نیپال اور بنگلہ دیش کے ساتھ ملنے والی سرحدوں کو کئی مقامات پر آہنی باڑ لگا کر بند کر دیا ہے۔ملکی سلامتی کی خاطر ہمیں بھی ایسا ہی کرنا ہو گا۔