جونہی ایک اینکر کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کی بازگشت فضا میں گونجی، چاروں طرف ہلچل سی مچ گئی، فون بجنے لگے اورہر کوئی اس کی ریکارڈ نگ تک پہنچنے میں بازی لینے کی کوشش کرنے لگا جو ایک غیر ملکی سفیر کی طرف سے'' پینتیس پنکچر‘‘ والی گفتگو کوڈی کوڈ کرانے کی کوشش کے دوران'' لیک‘‘ ہو گئی تھی۔ اس بڑے سفیر کی طرف سے اس گفتگو کا اصل ترجمہ معلوم کرنے کے لیے کسی ماہر کی خدمات حاصل کرنے کی یہ مبینہ کہانی جب با ہر آئی تو ذمہ داروں کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ اچانک کیوں اور کیسے ہوگیا؟ وہ بات جو ہم نے سات پردوں میں چھپائی ہوئی تھی وہ کیسے باہر آ گئی؟ اس وقت تو ان کی پریشانی اور بھی بڑھ گئی جب ہر ایک کی خبر لانے والے با خبر لوگوں نے انہیں اسلام آباد کی ایک تقریب میں سفارتی نمائندوں کی پنکچر لگائے جانے والی ''آپس کی سرگوشیوں‘‘ کا قصہ سنا یا۔ تو یہ سوچ سوچ کران کے پسینے چھوٹنے لگے کہ ہم سے تو ابھی چار سوراخ نہیں سنبھالے جا رہے تھے کہ پانچ دس نہیں اکٹھے 35 پنکچر!۔سب لوگ سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ اگر یہ سب پنکچر کھل گئے تو ہماری چمک دار اور فراٹے بھرتی ہوئی مقبولیت کی گاڑی تو ایک فرلانگ بھی آگے نہیں بڑھ سکے گی۔ کیا کیا جائے؟ توڑ کرنے کے لیے پنج پیر سے رابطہ کیا گیااور پھر پنج پیر نے اپنا وہی ہاتھ دکھایا جو انہوںنے مر حوم اظہر سہیل کو دکھایا تھا۔
لاہورکے مینار پاکستان کے جلسے کے بعدعمران خان کی شخصیت کو متنازعہ بنانے کی کوششوں کا ایک تفصیلی جائزہ لیا جائے تو عمران خان کے فیصل ٹائون میں پلاٹ کا قصہ سامنے لایا گیا، جب یہ بھی بے اثر رہا تو ان کے ہسپتال کی دوبئی میں انویسٹمنٹ کی کہانی اچھالی گئی۔ مقصد ایک ہی تھا کہ ہسپتال کو دنیا بھر سے ملنے والی امداد کو روکا جا سکے لیکن یہ سب حربے ناکام ہو گئے کیونکہ ان دو سالوں میں ہسپتال کو ملنے والی قربانی کی کھالوں اور اندرون ، بیرون ملک فنڈز میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا۔ گیارہ مئی کے انتخابات کے ''اصل نتائج‘‘ سب کے سامنے تھے جس نے بھائیوں کی جوڑی کو چکرا کر رکھ دیا تھا۔ کہتے ہیں کہ دوست کا دشمن اپنا دشمن ہوتا ہے اور یہ تو دونوں دوستوں کا دشمن تھا۔ فیصلہ کیا گیا کہ قبل اس کے کہ اگلے انتخابات میں اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق مل جائے ، ضروری ہے کہ عمران خان کی جماعت کو دنیا بھر میں رہنے والے پاکستانیوں کی مدد اور ان کی طرف سے ملنے والے فنڈز کے استعمال کو مشکوک بنا دیا جائے۔ جب تحریک انصاف کے اندر براجمان حکومتی اہلکاروں نے انہیں بتایا کہ تحریک انصاف والے جلد ہی ایک معروف ٹی وی اینکر کی طرف سے بتائی گئی پینتیس پنکچروں والی اس گفتگو کو ٹی وی کی سکرینوں اور سوشل میڈیا سمیت موبائل فونزپر منتقل کرنے والے ہیں تو فیصلہ ہوا کہ پیشتر اس کے کہ وہ حرکت میں آئیں، اپنے لشکر میں سے کسی کو ان کے حصار پر حملے کا حکم دے دیا جائے اور ایک کم تجربہ کار کی طرف سے تحریک انصاف پر کیا جانے والا یہ حملہ اور اس کے حملہ آور کو جب مقابل نے دیکھا تو سب حیران رہ گئے۔ پہلے فیصلہ کیا گیا کہ خون صاف کرنے والی صافی کی بوتل کا استعمال کیا جائے لیکن یہ سوچ کر اجتناب کیا گیا کہ اس طرح یہ نسخہ اپنا اثر کھو دے گا تو پھر زمینی اورفضائی حملوں کے لیے اسلام آباد میں نئے اور پرانے شہ زور سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور تین چار ہوائی مسافروں کی میٹنگ کے بعد زمینی حملے کے لیے ماہر نشانہ بازوں اور توپچیوں کی خدمات حاصل کی گئیں جو ہمیشہ اس کام کے لیے بآسانی دستیاب ہو جاتے ہیں۔ تحریک انصاف پر فضائی حملوں کے لیے ان کی کمین گاہوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا گیا اور ایوانِ اقبال میں کنونشن منعقد کرنے کا وہ خواب جو اکتوبر میں ہونے والے لاہور کے جلسے کے بعد مضطرب اور بے چین آنکھوں میں سمایا ہوا تھا تعبیر بن کر ناچنے لگا۔ وہ کنونشن جس کے لیے دو سال قبل شیخوپورہ سے کمک بلانے کا سوچا گیا تھا، حقیقت میں ڈھل کر سامنے آ گیا۔ ایک طرف جب کے پی کے حکومت طالبان سے ہونے والی مذاکراتی کمیٹی کی مہمان نوازی میں مصروف تھی، اس پر ڈرون حملہ کردیا گیا، لیکن اس غبارے سے مقرر سمیت سب کی ایسی ہوا نکلی کہ تنہائی کی وجہ سے ایوان اقبال میں بیٹھے ہوئوں کے سانس بند ہونے لگے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ پنکچر کی کہانی اور امریکہ سے در آمد شدہ ایوان اقبال والاڈرون حملہ ایک اتفاق کے سوا اور کچھ نہیں تو اس شخص کو دور اندیشی کے ایوارڈ سے نوازاجا نا چاہئے ۔
اگر کوئی عمران خان پر کیے جانے والے ان نئے حملوں پر حیران ہو رہا ہے تو وہ نا سمجھ ہے کیونکہ اس وقت بھائیوں کو للکارنے والا سوائے عمران خان کے اور کوئی نہیں ہے۔ جوڑی جان چکی ہے کہ اب شاید باریوں اور صوبوں کی تقسیم کا کھیل مزید جاری نہ رہ سکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ شروع میں تحریکِ انصاف کی طرف سے خیبر پختونخوا میں حکومت سنبھالتے ہی بھائیوں کی جوڑی ہم آواز ہو کر ایک ہی بات کیا اور کرایا کرتی تھی کہ عمران نا کام ہو گیا ہے۔ خیبر پختونخوا میں اس کی کا ر کر دگی صفر ہے، لیکن خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی کار کر دگی کے نام پر ٹی وی چینلز اور اخباری بیانات کے ذریعے مچایا جانے والا شور عوام کی توجہ حاصل کرنے اور انہیں گمراہ کرنے میں ناکام ہو گیا ، کیونکہ لوگ پوچھنا شروع ہو گئے تھے کہ آپ لوگ جو گزشتہ تیس سالوں سے باری باری حکومت کرتے چلے آ رہے ہیں، کچھ نہیں کر سکے تو وہ پارٹی جسے حکومت کرتے ہوئے ابھی چھ ماہ بھی نہیں گزرے ،اس کے خلاف اتنا واویلا کیوں؟ یہ حملہ ناکام ہوتے دیکھا تو اندر اور باہر سے اس پر ایک ساتھ ضرب لگانے کا فیصلہ کیا گیا اور ا س کے لیے انتخابات کے فوری بعد فضائی حملہ کیا گیا تاکہ تحریک انصاف کا تورا بورا بنا دیا جائے اور اس کے لیے اوور سیز خاص طور پر امریکہ اور برطانیہ سے پرواز کرتے ہوئے بہت سے ہوائی جہازوں سے ہلکی ہلکی شیلنگ کوئی تین چار ماہ سے جاری تھی لیکن ان ہوابازوں کوشاید ابھی کسی اچھے اور باخبر او پی کی خدمات حاصل نہیں ہوئی تھیں یا بھارتی ہوا بازوں کی طرح یہ حساب میں کمزور تھے یا ان کے ٹھیک ٹھیک نشانوں پر پھینکے جانے والے بموں کو سبز چولوں والے اپنے تھیلوں میں ڈال لیتے تھے۔ یہ سب ابتدائی فضائی حملے ہر طرح سے ناکام ہوتے نظر آئے تو زمینی حملوں کا سہارا لیا گیا کیونکہ عمران خان سے اس گستاخی نماغلطی کا بھی تو حساب بے باق کرنا تھا جو اس نے ''زمینی فوج کے سابق سربراہ کو مزید توسیع‘‘ نہ دینے کا اعلان کر کے کی تھی۔!