"MABC" (space) message & send to 7575

عمر اکمل کا لائسنس

کرکٹر عمر اکمل کے ساتھ کیے جانے والے خصوصی سلوک کی وجہ کہیں یہ تو نہیں کہ وہ ایک ایسے گھرانے میں شادی کرنے جا رہے ہیں جس کا عمران خان سے بہت ہی قریبی تعلق ہے؟ عمر اکمل جن کے بارے میں با وثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کی منگنی پاکستان کے معروف گگلی کرکٹر عبد القادر کی بیٹی سے ہو چکی ہے جو تحریک انصاف کی بہت ہی سر گرم خاتون کارکن ہیں اور گیارہ مئی کے انتخابات میں عبد القادر کے خاندان نے عمران خان کی انتخابی مہم میں ان کے لیے جس طرح دن رات ایک کرتے ہوئے تقریروں اور تبصروں میں مہم چلائی‘ وہ حکمرانوں کے نزدیک نا قابلِ معافی تھی۔ واقفانِ حال بتاتے ہیں کہ عمر اکمل ا ور ٹریفک وارڈن کے درمیان ہونے والے جھگڑے کی خبر جونہی کچھ طاقتور حلقوں تک پہنچی تو انہیں عمران خان کی حمایت میں جلسے اور جلوس نکالنے والے خاندان سے بدلہ لینے کا موقع مل گیا۔ ان کا یہ مقدمہ اب کورٹ میں ہے‘ اس لیے اس بارے کچھ اور کہنا مناسب نہیں ہے لیکن ایک سوال سول سوسائٹی اور بہت سے کھلاڑیوں کا کہنا ہے کہ اسی لاہور شہر کی پولیس کے تھانوں میں قتل‘ ڈاکے اور دوسری سنگین و ارداتوں کے ملزمان کو مہمان خصوصی بنا کر رکھا جاتا ہے‘ ان کے لواحقین اور دوستوں کو ملزم سے ملنے ملانے اور آنے جانے کے لیے بھر پور مدد کی جاتی ہے لیکن ایک بہت ہی معمولی سے واقعے کو بنیاد بنا کر عمر اکمل کو عادی مجرموں کے ساتھ پابند سلاسل کرنا‘ اس سے توہین آمیز سلوک اور بد کلامی کرنا کسی طور مناسب نہیں تھا۔ میڈیا سمیت بہت سے لوگوں نے دیکھا کہ عمر اکمل کے بھائی کامران اکمل جب اس جھگڑے کی اطلاع ملنے پر گلبرگ پولیس اسٹیشن میں اپنے بھائی سے ملنے کے لیے آئے تو انہیں بھی دھکے دیے گئے اور ان کے ساتھ بھی اس طرح کا سلوک روا رکھا گیا جیسے وہ معروف کرکٹر نہیں بلکہ کوئی بہت بڑا دہشت گر دہو؟ ابھی عمر اکمل کا معاملہ عدالت میں ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ عمر اکمل کا ڈرائیونگ لائسنس منسوخ کرنے سے پہلے عدالت کے فیصلے کا انتظار کر لیا جاتا؟ یہ تو کہیں بھی کسی بھی قانون میں درج نہیں کہ کسی ملزم کو عدالت کے فیصلے سے پہلے ہی اس پر عائد کیے جانے والے الزام کی بنا پر سزا دے دی جائے۔ سی ٹی او لاہور کیپٹن سہیل کیا اس ملک کے آئین اور قانون کا پابند رہنا منا سب نہیں سمجھتے؟
ریسکیو 1122 کی ایک رپورٹ کے مطا بق 10 نومبر 2004ء سے2011ء تک لاہور شہر میں136733 ٹریفک حادثات ہوئے‘ جن میں سینکڑوں لوگ ہلاک اور زندگی بھر کے لیے معذور ہو گئے جبکہ شدید اور معمولی زخمی ہونے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ کیا سی ٹی او لاہور کیپٹن سہیل بتانا پسند فرمائیں گے کہ ان جان لیوا حادثات کا سبب بننے والے کتنے ڈرائیوروں کا اب تک انہوں نے لائسنس منسوخ کیا ہے؟ کیا پنجاب پولیس کے سربراہ نہیں جانتے کہ پنجاب بھر میں اس عرصے میں358368 ٹریفک حادثات ہو چکے ہیں جن میں ہزاروں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔ ان حادثات کاسبب بننے والے کس ڈرائیور کا لائسنس ان کی پولیس نے منسوخ کیا ہے؟ ۔ گزشتہ روز چیچہ وطنی میں پنجاب پولیس کی بس نے ایک کار میں سوار دولہا اور دلہن سمیت چھ افراد کو کچل کر ہلاک کر دیا۔ کیا اس پولیس بس کے ڈرائیور کو بھی لائسنس منسوخ کرنے کا نو ٹس جا ری کیا گیا ہے؟ وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اﷲ کے شہر فیصل آباد میں اب تک60829 ٹریفک حادثات ہو چکے ہیں۔ کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ ان حادثات میں دو ہزار سے زائد انسانی جانوں سے کھیلنے والوں میں سے کسی ایک کا بھی انہوں نے ڈرائیونگ لائسنس منسوخ کیا؟ وزیر قانون پنجاب اس حقیقت سے یقینا با خبر ہوں گے کہ کسی بھی ٹریفک حادثے کے نتیجے میں اگر کوئی معذور ہو جائے تو اس کا سبب بننے والے ڈرائیور کا لائسنس منسوخ کر دیا جاتا ہے۔ کیا آئی جی پنجاب اور سی ٹی او لاہور بتا سکتے
ہیں کہ اب تک پنجاب اور لاہور میں ٹریفک حادثات میں معذور کیے جانے پر کتنے ڈرائیوروں کا لائسنس منسوخ کیا گیا؟ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے شہر راولپنڈی میں14574 ٹریفک حادثات ہوئے۔ ان حادثات کا سبب بننے والوں میں سے کس کا ڈرائیونگ لائسنس منسوخ کیا گیا؟ چیف ٹریفک آفیسر کیپٹن سہیل کی طرف سے فردوس مارکیٹ میں وارڈن کے ساتھ تلخ کلامی کے واقعہ کے بعد منٹوں سیکنڈوں میں عمر اکمل کی گرفتاری اور اس کے ساتھ کیے جانے والے بے رحمانہ سلوک سے حکمرانوں کا شاید دل نہیں بھرا تھا‘ اس لیے سی ٹی او کو ''ڈومور‘‘ کاحکم خاص جاری ہوا اور پھر سب نے دیکھا کہ کیپٹن سہیل کی طرف سے ان کا ڈرائیونگ لائسنس معطل کرنے کا پہلا اور پھر دوسرا نوٹس جاری کر دیا گیا۔ اس سے یہ بات ظاہر ہو رہی ہے کہ انہیں کسی کے حکم خاص کی تعمیل کرنے کی بہت جلدی تھی کیونکہ یہ بات کسی سے بھی چھپی ہوئی نہیں کہ اسی لاہور شہر کی ہر سڑک اور ہر چوک پر روزانہ ٹریفک وارڈنز کا کسی نہ کسی سے جھگڑا معمول کی بات ہے اور ان جھگڑوں کی نوبت ہمیشہ مار کٹائی تک پہنچتی ہے اور اس میں مرد اور عورت کی بھی کوئی تفریق نہیں ہوتی۔ عوام تو ایک طرف لاہور میں حکمران جماعت کے بہت سے چھوٹے بڑے لیڈران اور اراکین اسمبلی کی جانب 
سے ٹریفک پولیس کے وارڈنوں کے ساتھ کیے جانے والے ''سلوک‘‘ کی خبروں سے اخبارات کے صفحات اور الیکٹرانک میڈیا کے ریکارڈ رومز بھرے پڑے ہیں۔ ٹریفک وارڈنز کے ساتھ مار کٹائی کرنے والوں میں سے کسی ایک کا بھی ڈرائیونگ لائسنس منسوخ ہوا؟ بات مار کٹائی تک ہی محدود نہیں بلکہ اب تک 123 سے زائد ٹریفک وارڈنز کو شدید زخمی کیا گیا ہے۔ کیا ان میں سے کسی ایک کا بھی کیپٹن سہیل نے لائسنس منسوخ کیا؟ عمر اکمل کے مقدمے کے تفتیشی افسر نے تو ایک ہفتے میں رپورٹ تیار کر کے سی ٹی او کو سفارش کر دی ہے کہ عمر اکمل کو پابند کیا جائے کہ وہ ایک ہفتے میں اپنا لائسنس ان کے دفتر میں جمع کرا دے لیکن پنجاب اور لاہور پولیس کے افسران اپنا ریکارڈ چیک کریں اور دیکھیں کہ لاہور اور پنجاب کے ٹریفک افسران اور اہل کاروں پر اب تک فائرنگ سے کتنے اہل کار شہید اور شدید زخمی ہوئے۔ کیا ان مجرموں میں سے کسی ایک کا بھی لائسنس منسوخ کیا گیا ہے؟ 
کسی بھی شخص کا ٹریفک لائسنس منسوخ کرنا ہو تو اس کے بارے میں ایک واضح قانون ہے اور اس کے لیے دنیا بھر میں ایک طریقہ رائج ہے کہ اس کی ٹریفک خلاف ورزیوں کا باقاعدہ ریکارڈ رکھا جاتا ہے اور ہر غلطی کے ساتھ اس کے پوائنٹ میں کمی کی جاتی ہے اور ایک مقررہ حد کے بعد اس کا ڈرایئونگ لائسنس معطل یا منسوخ کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی یک دم کسی کا لائسنس منسوخ نہیں کیا جا سکتا اور اس کیس میں بھی ملک میں رائج قانون کی پیروی لازم ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں