پاکستان اور دنیا بھر میں بہترین فرنیچر کی سب سے بڑی مارکیٹ چنیوٹ میں ہے۔ اسی شہر کے محلہ غفور آباد کے ایک چھوٹے سے گھر کے رہائشی جان محمد کی زندگی بجلی کا چند ہزار روپے کا بل چاٹ گیا۔ جان محمد نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح بل ادا ہو جائے لیکن ہر طرف سے مایوس ہو نے کے بعد اس نے خواب آور گولیاں کھا کر زندگی کا خاتمہ کر لیا اور آئندہ کے لیے بلوں کی ادائیگی کے عذاب سے مستقل نجات پا لی۔ اس کی بیوہ اور چھوٹے چھوٹے بچے لاوارث ہو گئے۔
چنیوٹ‘ جہاں ہر ماہ ایک ارب روپے سے زیادہ مالیت کا فرنیچر فروخت ہوتا ہے‘ میں چند ہزار روپے کی خاطر ایک گھرانہ لاوارث ہو گیا۔ اس شہر‘ جس کے باسی روزانہ کروڑوں روپے کھانے پینے پر خرچ کر دیتے ہیں، میں ایک غریب شخص نے محض ایک بل ادا نہ کر سکنے پر اپنی زندگی اپنے ہاتھوں سے ختم کر لی۔ اس قوم‘ جس کے لیے قرآن حکیم نازل ہوا‘ جس میں کھول کھول کر آیتیں بیان کر دی گئی ہیں، کے لوگ غریب اور مستحق لوگوں کی کھال کھینچ رہے ہیں اور وہ جنہیں ہم غیر مسلم کہتے ہیں وہ دنیا کے ہر خطّے میں موجود غریبوں اور مفلسوں کو سردی سے بچانے کے لیے اپنا سٹاک مفت بھیج دیتے ہیں۔
آج کے دور کی حقیقت یہ ہے کہ لالچ نے رشتہ داریاں اور دوستیاں دیمک کی طرح چاٹ لی ہیں۔ ہر طرف شیطان کا راج ہے، ایسے لگتا ہے کہ ہم شیطان کی پیروکار بن چکے ہیں۔ ہر شخص ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ دوسرے کا حق غصب کرنا بری بات نہیں سمجھی جاتی۔ اس ملک میں پورا سال یہی کچھ ہوتا رہتا ہے۔ رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں بھی‘ شیطان کو قید کر لیا جاتا ہے‘ پاکستان میں اس کی پیروی زوروشور سے جاری رہتی ہے۔ جس طرف نظر اٹھائیں شیطان صفت انسان نظر آتے ہیں‘ جن میں رحم کا شائبہ تک نہیں ملتا۔ اس مقدس مہینے میں بھی کسی دفتر، مارکیٹ، ہسپتال، تھانے یا کچہری چلے جائیں تو عید کے ''ایڈیشنل سرچارج‘‘ کے نام پر غریب لوگوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا ہوتا ہے۔
لگتا ہے پورا ملک بے حس ہو چکا ہے، ہر طرف افراتفری کا عالم ہے، ہر کوئی دوسرے کو دھکا دے کر آگے بڑھنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ ہر ایک کی توجہ صرف اپنی ذات پر ہوتی ہے اور ہر کوئی اپنے مفاد سے پیار کرتا ہے۔ اس ملک میں خستہ حال انسان حتیٰ کہ غریب رشتہ دار کو دیکھ کر لوگ آنکھ بچا کر گزر جاتے ہیں؛ بلکہ دل ہی دل میں پیچ و تاب کھاتے ہیں کہ یہ ہمارے سامنے ہی کیوں آیا۔ ہمارے راستے میں کیوں کھڑا ہو گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا جان محمد نے اس بل کی ادائیگی کے لیے اپنوں اور غیروں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائے ہوں گے؟ لیکن ہم اس بدقسمت معاشرے میں رہتے ہیں جہاں آسمان نے یہ منظر بھی دیکھا کہ ایک سرکاری افسر اپنے غریب بھائی کی تدفین چھوڑ کر اپنے محکمے کے سربراہ کے بیٹے کی سالگرہ میں پہنچ گیا!
ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ جن معاشروں میں شیطان کو قید کرنے کی بات نہیں کی جاتی وہاں اہم مواقع اور تہواروں پر مختلف اشیا کی قیمتیں کم کر دی جاتی ہیں، ان میں ملاوٹ بھی نہیں ہوتی لیکن پاکستان میں جہاں کم از کم رمضان المبارک کے مہینے میں شیطان قید ہو جاتا ہے وہاں تمام اشیا کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگتی ہیں۔ کیا یہ ملک اسی لیے اﷲ کے نام پر قائم ہوا تھا؟ کیا یہی دن دیکھنے کے لیے لوگوں نے پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ کے نعرے لگائے تھے؟ کیا اب اسی جرم کی انہیں سزا دی جا رہی ہے؟
اسلام کے نام پر قائم ہونے والے اس ملک کے لوگ بھوک کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے بچے بیچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یااﷲ! اے پروردگار! میرا ایمان یہی ہے کہ تو جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے، ہر پتا تیری مرضی اور حکم سے ہی ہلتا ہے، میں نے تیری مقدس کتاب قرآن پاک میں پڑھا ہے کہ تو مائوں کے پیٹ میں جیسی چاہتا ہے صورتیں بناتا ہے۔ اے میرے اﷲ! میں بڑی عاجزی سے تیرے حضور سر جھکا کر، سجدہ ریز ہو کر عرض کرتا ہوں کہ میرے وطن کے غریب گھروں میں تُو جو بچے پیدا کرتا ہے ان کے پیٹ اس طرح بنا دے کہ انہیں بھوک ہی نہ لگے تاکہ ان کی مائیں اپنے بچوں کی بھوک سے پاگل ہو کر نہروں میں چھلانگیں لگا کے خود کشیاں نہ کریں۔ بھوک سے بلکتے بچوںکے مفلس باپ مینار پاکستان سے کود کر جانیں نہ دیں۔ میرے اﷲ! میں نے یہ سب بہت ہی ڈرتے اور کانپتے ہوئے لکھا ہے۔یااﷲ! تو نے دیکھا کہ چند دن پہلے چنیوٹ کے تیرے ایک غریب بندینے بجلی کے بل کی وجہ سے خود کشی کر لی۔ میرے رب! جس طرح تو نے اپنی مخلوق سے رزق کا وعدہ کیا ہوا ہے ، اب پاکستان میں بسنے والی اپنی مخلوق سے بجلی، پانی اورگیس کے بلوں سمیت، بچوں کی سکول کی فیسوں اور دیگر وعدہ بنیادی اشیا کی فراہمی کا بھی کر لے۔ یا اﷲ! اگررزق کے وعدے پر تو ان کا بھوک محسوس کرنے والا پیٹ بنانا ضروری سمجھتا ہے تو ان کا رزق اتنا بڑھا دے کہ یہ لوگ مفلسی سے تنگ آکرخودکشیاں نہ کریں۔یا اﷲ! پاکستان کے سیاست دانوں اور علماء کے دلوں میں اپنا خوف ڈال دے تاکہ یہ مسجدوں اور امام بارگاہوں کو گوشہ امن بنا دیں ۔
اب تو شیطان بھی آدم کو سجدہ نہ کرنے پر پچھتا رہا ہوگا۔ وہ ہمارے سیاستدانوں ، تاجروں، ذخیرہ اندوزوں، سرکاری افسروں اور اہل کا روں، حکمرانوں، فرقہ پرست مولویوں کی کارکردگیاں دیکھ کر چیخ اٹھتا ہو گا۔ شیطان ملعون اب چیخ چیخ کر اﷲ سے کہہ رہا ہو گا کہ اگر مجھے علم ہو تا کہ تیرے بنائے ہوئے انسانوں میں سے ہی پاکستان کے افسر،اہل کار،کارخانہ دار، تاجر،ٹھیکیدار، سیاستدان یا عالم بنیں گے تو میں اسی وقت اسے سجدہ کر لیتا، مجھ سے سخت بھول ہو گئی ان رشوت خوروں، قبضہ گروپوں، سود خوروں، منافع خوروں کو نہ قرآن مصطفیؐ کا پاس ہے اور نہ ہی احکامِ مصطفیؐ کا ۔۔۔ ایسے لوگ ہی مجھ ابلیس شیطان کے پسندیدہ اور پیارے ہیں۔۔۔!