گنج بخشِ فیض عالم‘ مظہرِ نُورِ خدا
ناقصاں را پیر ِکامل‘ کاملاں را رہنما
برصغیرمیں صوفیائے کرام رحمۃاللہ علیھم نے تبلیغ اسلام کے لیے جوگرانقدر خدمات انجام دیں وہ تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ تصوف کامادہ صوف ہے جس کامعنی موٹاکپڑاہے۔ تصوف کی ابتدا کب اورکہاںہوئی؟ اس بارے میںکوئی مستند تاریخ توسامنے نہیں آئی لیکن یونان اورہندوستان میں زمانہ قبل ازمسیح میںاس کے آثارکاپتاچلتاہے۔کہا جاتا ہے کہ اس کا آغاز ہندوستان میں ہمالیہ کے دامن میں واقع ایک چھوٹی سی ریاست کپل وستو سے ہوا۔پھر ہمالیہ کی وادیوں اوربہارکے میدانوں سے نکل کراس کی مہک چہار سُو پھیل گئی۔ تاریخ کے اوراق بتاتے ہیںکہ جب حکمرانوںکا ظلم وجبراور مختلف مذاہب کے پیشوائوںکی چیرہ دستیاں بڑھنا شروع ہوتیں تودنیا کے اُس خطے میںایسے روحانی گروہ پیدا ہوناشروع ہوجاتے جومذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے والوں،مذہب کے نام پرانسانوں میں تفریق پیداکرنے والوں،خلق خدا کو رنگ، نسل اور زبان کی بنیاد پر تقسیم کرنے والوں کے مقابلے میں امن، بھائی چارے اور محبت واخوت کا ایسا درس دیتے کہ تاریکیاں چھٹ جاتیںاوران کی جگہ امن اورشانتی کی ایسی شمعیں روشن ہوجاتیں کہ گھرگھراجالا پھیلنا شروع ہوجاتا۔
بر صغیرپاک و ہند میں صوفیاء ومشائخ نے تبلیغ اسلام کے لیے جوگرانقدر خدمات سر انجام دیں وہ اسلامی تاریخ کا زریں ورق ہے۔اگر مسلم سلاطین ومجاہدین نے علاقے فتح کیے توصوفیاء ومشائخ نے تسخیرِ قلوب کا فریضہ انجام دیا۔ ہندوستان میں عہدِ سلاطین میں چشتیہ، سہر وردیہ اورمغلیہ دور میں قادریہ اور نقشبندیہ سلسلوں نے اسلامی تہذیب وتمدن کی داغ بیل ڈالی ۔ آسام، دہلی ، دکن،کشمیر اورکابل تک اہل طریقت کی اصلاحی اور تبلیغی مساعی کے نقوش کثرت سے ملتے ہیں۔گیارہویں صدی عیسوی میں ہندوستان کی سلطنت پر متمکن ہونے والا پہلاخوش نصیب حکمران قطب الدین ایبک ایک غلام تھا جو حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی نگاہ کیمیا اثر سے فیض یاب ہوا۔اسی کے دورسے برصغیرمیں مسلمانوں کے اقتدار اورجاہ و جلال کا وہ سلسلہ شروع ہوا جو سلطان محی الدین اورنگزیب عالمگیر پر منتج ہوا۔ سلطان غیاث الدین بلبن ایک ترک امیرزادہ تھا جوچنگیز خان کے حملے میںگرفتار ہونے کے بعد بغداد میں بطورغلام فروخت ہوا۔اسے ایک بزرگ حضرت جمال الدین بصریؒ نے خریدلیا اوراس کی تربیت کی۔ وہ ہمیشہ با وضو رہتا اورکثرت سے علماء و مشائخ کوکھانے پرمدعوکرتا۔ اس نے اپنے چالیس سالہ دوراقتدار میں ہندوستان میں اسلامی حکومت کی بنیادیں مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔محمد بن بختیار خلجی ایک جرنیل تھا جس نے بہار اور بنگال کے وسیع علا قے اسلامی حکومت میں شامل کیے۔ بنگال کی راجدھانی میں اس نے صرف اٹھارہ سو سواروں کی مدد سے فتح حاصل کی۔ وہ بنگال کے معروف صوفی بزرگ حضرت عطاء اﷲ کے دامنِ کرم سے وابستہ تھا۔ 1226ء میں نا صرالدین محمود جوایک درویش طبع بادشاہ تھا،حضرت خواجہ بختیارکاکیؒ اورحضرت خواجہ فریدالدین مسعود گنج شکرؒ جیسے اکابر صوفیاء کے فیض صحبت و نسبت سے تخت شاہی کے ساتھ ساتھ بلند روحانی مقام پر بھی فائز ہوا۔
اولیائے کرام کے مسلم معاشرے پر اثرات کا اندازہ برہان پور کے فاروقی سلاطین کے عقائد واعمال اورکردارو اطوارسے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ حضرت برہان الدین غریب کے نام سے منسوب اوران کی دعائوں سے آباد ہونے والے شہر برہان پورکو میرغلام علی آزاد بلگرامی نے اولیاء خیز شہر کے نام سے موسوم کیا۔شہنشاہ اکبر کے دور میں مسلم معاشرہ آزمائش وابتلاء سے دوچارہونا شروع ہوا تواس کی اصلاح، جداگانہ مسلم تشخص کے تحفظ اور غیر مسلم اقوام کے تسلط سے نجات کے لیے قدرت نے حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلویؒ اور شاہ غلام علی مجددیؒ جیسی ہستیوں کا انتخاب کیا۔ دو قومی نظریے کے داعی اور ممتاز مصلح سر سید احمد خان اور ان کا خانوادہ شاہ غلام علی مجددی ؒ ہی سے فیض یاب تھا۔خلجی خاندان کے دور میں اسلامی حکومت پورے ہندوستان میں قائم ہو گئی تھی،اس دور میں مبلغین اسلام اور مشائخ عظام رحمھم اللہ سلطنت کے کونے کونے میں پہنچ گئے ۔
کراچی کا ساحل خانوادہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے چشم وچراغ عبداﷲ شاہ غازیؒ کی روشنی سے درخشندہ ہے۔ وہاں سے چلتے ہوئے سندھ کے ریگزاروں کی طرف جائیں تو سیہون کے مقام پرعثمان مروندی کاظمی المعروف لعل شہباز قلندرؒ کا مینارۂ نور ہے جن کے عقیدت مندوں کا سلسلہ جنوبی ہند تک پھیلا ہوا ہے۔اس سے آگے حیدر آباد سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر بھٹ شاہ کے مقام پر شاہ سائیں کا بحر ہدایت موجزن ہے۔ ٹھٹھہ ‘انڈس ہائی وے کے ساتھ شاہ عبد اللطیف بھٹائیؒ آرام فرما ہیں، اس کے ساتھ ہی سچل سر مستؒ جیسے صوفی شاعرکے کلام سے پورا علاقہ وجدکی کیفیت میں رہتا ہے۔
سندھ کے صحرائوں کو عبورکرتے ہوئے اور پھر پنجاب کے میدانوں کی طرف سے گزرتے ہوئے وادی گنگا و جمنا کی طرف چلتے جائیں اور وہاں سے آگے بڑھتے ہوئے بنگال کارخ کریں توآپ کو آج بھی ہر شہر، ہر قصبے ،ہر گائوں، ہر چک اورہر گوٹھ میں صوفیاء کے مزارات اور آستانے نظر آئیں گے۔انہی بزرگوں نے نسلی، لسانی، مذہبی اور فرقہ پرستی جیسی نفرت کی دیواریں گرا کر ایک ایسا سماجی ماحول ترتیب دیا جس میں اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عقیدت و محبت کے سوا کسی دوسرے عنصرکے بارے سوچنے کی گنجائش ہی نہیں رہتی۔
آج شریعت کی حکمرانی کی آڑ میں اورامریکہ دشمنی کے نام پر بم دھماکوں اورخود کش حملوں کے ذریعے پاکستان کے گلی کو چوں اور بازاروں میں معصوم انسانوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ان فتنہ پروروں کے ہاتھوں سے اولیائے کرام کے مزارات بھی محفوظ نہیں رہے۔انہوں نے معصوم ذہنوں کو مذہب اور فرقہ پرستی کے نام پر اپنے مخالفین کے خلاف آگ کا گولہ بناکرگھروں کو اجاڑنا شروع کر دیا ہے۔ ان کے سدھائے ہوئے حملہ آوروں نے ہر طرف گولیوں کی تڑ تڑاہٹ اور بارود کی بو پھیلا دی ہے۔ ان کی وجہ سے ملک ماتم کدہ بنتا جا رہا ہے۔ وہ دینی مدرسے جو علم وہدایت کے لیے قائم کیے گئے تھے، ان کی ایک بہت بڑی تعداد جہاد کے نام پر فتنہ و فساد کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ بے گناہ مسلمانوں کی آنکھیں جو بارود کے دھوئیں سے بجھتی جا رہی ہیں،انہیں پھر اسی روشنی کی ضرورت ہے جو اس دھرتی پراہل طریقت اور اولیائے کرام کی میراث ہے۔آج پھر ناقصوں کو پیرکامل کی ہدایت درکارہے۔۔۔۔۔!