وزیر اعلیٰ پنجاب مظفر گڑھ پہنچ کر ایک بچی کی خود سوزی پر آر پی او اور ڈی پی او کو '' رگڑا‘‘ اور تین ڈی ایس پی اور ایک انسپکٹر کو حوالہ زنداں کر آئے لیکن چنیوٹ میں حوا کی بیٹی کے ساتھ ہونے والی شرمناک درندگی اور شیخو پورہ میں سرمایہ کاری کرنے والے ایک اوورسیز پاکستانی کے ساتھ ایک پولیس افسر کے رویّے پر نہ جانے کیوں ابھی تک خاموش ہیں۔میں تنقید کرنے والوں کی اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ وہ اسی جگہ جاتے ہیں جہاں سے ان کی جماعت کو ووٹ نہ ملے ہوں۔جو بھی اوور سیز پاکستانی وطن کی محبت میں سرشاراپنی سالہا سال کی محنت سے کمائی ہوئی دولت سے پاکستان میں کسی بھی قسم کی سرمایہ کاری کی کوشش کرتا ہے‘ اسے اتنے تلخ حالات اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ وہ آئندہ کیلئے سرمایہ کاری سے توبہ کرلیتا ہے ۔پھر پاکستان سے واپس جا کر خود پر بیتی ہوئی کہانی جس درد بھرے انداز میں سناتا ہے‘ اس سے دوسرے لوگ بھی پاکستان میں سرمایہ کاری تو دور کی بات ہے‘ دیار غیر سے واپس آنے سے ہی توبہ کر لیتے ہیں۔
ایسے ہی ایک پاکستانی نے ،جو کئی سال سے امریکہ اور جاپان میں کاروبار کر رہا تھا‘ اپنے شہر شیخو پورہ میں سرمایہ کاری کا سوچا۔ جونہی اس نے کام کا آغاز کیا‘ اسے ایک پرچی بھیجی گئی جس میں لکھا تھا'' آپ فوری طور پر پانچ لاکھ روپیہ ادا کریں اور ہاں آپ کو تاکید کی جاتی ہے کہ جب بھی ہمارے آدمی آپ کے ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے کے لیے آئیں‘ ان کا خصوصی خیال رکھنا ‘ ان کی تمام فرمائشوں کو پورا کرنا اور ان سے کبھی اور کسی بھی قسم کی کوئی رقم مانگنے کی غلطی نہ کرنا ،ورنہ انجام بہت برا ہوگا۔ اگر اس ریسٹورنٹ کو چلانا چاہتے ہو تو خاموشی سے ہمارے ہر حکم کی تعمیل کرنا ہوگی‘ دوسری صورت میں تمہیں اور تمہارے اس ریسٹورنٹ اور پلازے کو جلا کر راکھ کے ڈھیر میں بدل دیا جائے گا‘‘ ان الفاظ پر مشتمل یہ بھتہ پرچی شیخوپورہ کے ایک پلازے اور جدید ترین ریسٹورنٹ کے مالک شیری بشیر کو ملی جن کا بزنس تو امریکہ اور جاپان میں پھیلا ہوا تھا لیکن وہ چونکہ شیخوپورہ کے رہائشی تھے‘ لہٰذا اپنی مٹی کا قرض اتارنے کے لیے انہوں نے دو ملین ڈالر کی انویسٹمنٹ کرتے ہوئے شیخوپورہ میں ایک خوبصورت اور نفیس قسم کا ریسٹورنٹ تعمیر کیا۔ بشیر صاحب کو پہلی دفعہ بھتہ ادائیگی کا یہ خط موصول ہوا تو انہوں نے اس کی طرف کوئی خاص دھیان نہ دیا کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں میاں شہباز شریف اور مرکز میں میاں نواز شریف کی حکومت ہے جو سرمایہ کاری کیلئے اوور سیز پاکستانیوں اور غیر ملکوں کمپنیوں کوملک میں صنعتیں لگانے اور کاروباری دفاتر کھولنے کی ترغیبات دے رہے ہیں لہٰذا یہ ممکن نہیں کہ ملک میں سرمایہ کاری کرنے والے کو کوئی اس طرح ہراساں کرسکے ۔ لیکن چند دن بعد جب یہ بھتہ پرچی انہیں خوفناک قسم کی دھمکی کے ساتھ دوبارہ ملی تو انہیں پریشانی ہوئی اور انہوں نے مقامی پولیس کو با قاعدہ آگاہ کر تے ہوئے شیخوپورہ پولیس کے تھانہ اے ڈویژن میں بھتہ پرچی پھینکنے والے گروپ کے خلاف با قاعدہ ایف آئی آر درج کرا دی ،جس پر متعلقہ پولیس نے ایف آئی آر میں نامزد تین افراد کو گرفتار کر لیا جو اس کے ریسٹورنٹ میں بیٹھے مفت کے کھانے اڑا رہے تھے۔
بھتہ خور گروپ کے سربراہ کو جونہی تھانہ اے ڈویژن پولیس شیخوپورہ میں شیری بشیر کی طرف سے درج کرائی گئی ایف آئی آر اور اپنے آدمیوں کی گرفتاری کی خبر ہوئی‘ اس نے آئو دیکھا نہ تائو‘ اس کے ریسٹورنٹ پر دن دیہاڑے دھاوا بول دیا۔ سامان کی توڑ
پھوڑ کے علا وہ شیری بشیر صاحب کو مار مار کر ادھ موا کر دیا۔ وہاں سے گروپ کا سربراہ تھانہ اے ڈویژن گیا اور اپنے آدمیوں کو تھانے سے چھڑوا کر سیدھا بشیر کے ریسٹورنٹ آیا اور زخموں سے چور شیری بشیر سے کہا کہ دیکھ لو یہی وہ لوگ ہیں ناں‘ جنہیں تم نے گرفتار کرایا تھا؟ اگر ہم چاہیں تو یہاں کا کوئی ڈاکٹر تمہارے زخموں کاعلاج کرنے کی بھی ہمت نہ کرے۔ ابھی ہم نے تمہاری مر مت کی ہے‘ اب تمہاری ٹانگیں توڑیں گے۔ اگر اپنی خیر منانی ہے تو ہمارے ہر حکم کی تعمیل کرتے جائو ورنہ تمہارا یہ ریسٹورنٹ جلا کر راکھ کر دیں گے۔ ان کی یہ دھمکیاں سن کر بشیر صاحب ،جو پہلے ہی جان کنی کی حالت میں تھے‘مزید پریشان ہو گئے۔ وہ جان گئے تھے کہ اب پولیس بھی کچھ نہیں کر سکے گی کیونکہ اس گروپ کو علاقے کے اہم افراد کی حمایت حاصل ہے ۔
پاکستان آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے ہر سال دو بلین ڈالر قرض لیتا ہے لیکن اس قرض کے ایک ایک ڈالر کے بدلے میں وہ پاکستان سے اپنی ہر بات منواتے ہیں۔ وہ یہ دو بلین ڈالر قرض دینے سے پہلے اس قدر سخت اور شرمناک شرائط سامنے رکھتے ہیں کہ پوری پاکستانی قوم کو لمحہ لمحہ دانتوں پسینہ آ تا رہتاہے۔ اپنی اقتصادی پالیسیوں کو ان کے پاس گروی رکھنا تو ایک طرف ان کے کہنے پر بعض اوقات خارجہ پالیسی تک تبدیل کرنی پڑتی ہے۔ اپنے ملک کے عوام پر بھاری ٹیکس لگانے پڑتے ہیں‘ پانی‘ بجلی اور گیس کو مہنگا کرنا پڑتا ہے لیکن یہی اوور سیز پاکستانی جو ہر سال دو بلین ڈالر سے بھی زیا دہ اپنے وطن بھیجتے ہیں ،انہیں اپنے ملک کے سفارت خانوں میں دھکے کھانے پڑتے ہیں۔ انہیں بیٹھنے کیلئے کوئی جگہ دینے کی بجائے کوئی ان کی بات سننا بھی گوارہ نہیں کیا جاتا۔ یہی پاکستانی جب وطن آنے کیلئے ائر پورٹ پر اترتے ہیں تو انہیں امیگریشن سے کسٹم تک جگہ جگہ توہین آمیز سلوک سے گزرنا پڑتا ہے۔۔۔کس قدر تضاد ہے کہ قرض مع سود وصول کرنے والے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک والوں کے سو سو نخرے اٹھائے جاتے ہیں۔لیکن یہی دو بلین ڈالر سالانہ دینے والے پردیسی پاکسانیوں کو مار مار کر ادھ موا کر دیا جاتا ہے انہیں کوئی تحفظ حاصل نہیں۔ دو بلین ڈالر قرض دینے والے آئی ایم ایف کے چھوٹے سے چھوٹے افسر کے پاکستان آنے سے واپس جانے تک قانون کے رکھوالے ان کے رستوں میں آنکھیں بچھائے گھنٹوں کھڑے رہتے ہیں لیکن جب دو بلین ڈالر وطن بھیجنے والے پاکستان پہنچتے ہیں تو قانون بنانے والا ایک رکن پارلیمنٹ اور اس قانون کو نا فذ کرنے والا ایک ڈی ایس پی اس کی جان کا دشمن بن جاتا ہے۔۔۔ ۔۔۔ شیری بشیر صاحب نے اپنا بچا کھچا سمیٹ کر پاکستان سے واپس امریکہ جاتے ہوئے جہاز میں سوار ہو نے سے پہلے آنسو بھری آنکھوں سے کہا۔۔۔۔۔ وطن کی مٹی گواہ رہنا‘ میں تمہیں سنوارنے کے لیے اپنے برسوں کے کمائے ہوئے دو ملین ڈالر گنوا کر واپس جا رہا ہوں۔ خدا حافظ!