سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز کی جانب سے فتویٰ جاری کیا گیا ہے کہ ''قرآن و سنت کی روشنی میں خود کش حملے ناجائز اور حرام ہیں۔ خود کش حملے کرنے والا، خود کُش حملوں کی ترغیب دینے والا یا اکسانے والا دونوں اسلام کی رو سے کفر کا ارتکاب کرتے ہیں‘‘۔ خود کُش حملوں کی حمایت کرنے والے ایک بہیمانہ تصور کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ دینِ اسلام کو بدنام کرنے کے مترادف ہے۔ خود کش حملے کرنے والے اور کرانے والے سمجھ لیںکہ وہ انسانیت کے سب سے گرے ہوئے مقام پر ہیں، ان کے اس غیر انسانی فعل کا اس کے سوا اور کوئی مقصد نہیں کہ اسلام اور مسلمانوں کو اقوام عالم میں بدنام کیا جائے تاکہ وہ لوگ جو قرآن کی پاکیزہ تعلیمات اور رسول اﷲﷺ کی حیات طیبہ کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد دین کی طرف مائل ہوتے جا رہے ہیں‘ انہیں اس سے متنفر اور بدگمان کر دیا جائے۔
فتویٰ، فقہ اسلامی کی ایک اہم اصطلاح ہے۔ کسی انفرادی یا اجتماعی معاملے پر کسی مستند عالم دین سے شریعت یعنی اسلامی قانون کے مطابق جو رائے لی جاتی ہے اسے فتویٰ کہا جاتا ہے۔ اسلامی فقہ کا ماہر، درپیش معاملے کی تشریح و توضیح بھی کر دیتا ہے‘ جو اسلامی تعلیمات اور مصلحت سے مطابقت رکھتی ہے۔ فتویٰ دینے والے کو مفتی کہتے ہیں۔ یہ ایسا فرد ہوتا ہے جو شرعی قوانین اور اس کی گہرائیوں کا پورا علم و ادراک رکھتا ہے اور جس کے پہلے دیے گئے فتوے یا اس کی طرف سے جاری کیے گئے بیانات، اسباق اور خطبات کو کسی شک و شبے کے بغیر تسلیم کیا جا چکا ہو۔
سعودی عرب کے مفتی اعظم سے قبل مصر اور سپین کے ممتاز مذہبی سکالرز، قرآن و حدیث کے اساتذہ اور اسلامی فقہ کے مجتہدین کی آراء بھی منظر عام پر آ چکی ہیں‘ جن کے مطابق خود کش حملوں کے ذریعے یا بے گناہ لوگوں کو یرغمال بنا کر قتل کر دینے کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ پاکستان میں جس طرح فوج اور ایف سی کے جوانوں، خالد خواجہ اور کرنل امام کے علاوہ بے گناہ شہریوں کو قتل کیا گیا، اسلام اس کی ہرگز اجازت نہیں دیتا ۔ قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں واضح طور پر فرمایا گیا ہے کہ کسی بے گناہ مومن کی جان لینے والا ابدی جہنمی ہے۔ جو گروہ خود کش دھماکوں کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ بتدریج اجتماعی خود کشی کی جانب چل پڑتے ہیں اور ان کا ٹھکانہ جہنم کا بدترین حصہ ہوتا ہے۔
اگر طالبان سے ان کے مسلکی نظریات کو ہی سامنے رکھ کر بات کی جائے توکیا وہ جہاد کے بارے میں حضرت ابو بکر صدیقؓ اور دوسرے خلفائے راشدینؓ کے احکام اور ہدایات کو پیش نظر رکھتے ہیں؟ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور خلافت میں جب اسلامی لشکر جہاد پر روانہ ہونے لگا تو انہوں نے اسلامی فوج کو جو سب سے پہلا حکم جاری کیا‘ اس میں انہوں نے سخت تاکید کرتے ہوئے فرمایا: '' آپ درختوں کو نقصان نہیں پہنچائیں گے، بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کے خلاف کوئی اقدام نہیں کریں گے اور جو لوگ غیر مقابلین ہیں (جنگ کے میدان میں نہیں آئے) ان سے کسی قسم کا تعرض نہیں کریں گے‘‘۔
رسول کریمﷺ کے مکی دور میں مشرکین اور کفار نے رسول خداﷺ اور ان کے ساتھیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیے لیکن حضور نبی کریمﷺ نے ان کے تمام جبر و استبداد کے جواب میں اس طرح کا رویہ اختیار کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ ہر دی جانے والی تکلیف پر صبر و شکر کی تلقین فرمائی، حتیٰ کہ حبشہ اور مدینہ شریف کی طرف ہجرت کر جانے کو ترجیح دیتے ہوئے مظلوم مسلمانوں کو اس کے بدلے میں جنت کے اعلیٰ مقامات کی بشارت دی۔ صبر کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ اپنے موقف پر سختی سے کاربند رہتے ہوئے اپنا نقطہ نظر انتہائی شائستگی کے ساتھ پیش کیا جائے اور اﷲ تعالیٰ کی طرف سے بہتر حالات کا انتظار کیا جائے، اﷲ تعالیٰ یقیناً صبر کرنے والوں کی مدد و اعانت کرتا ہے۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ کا حکم تو یہ تھا کہ دشمن کے علاقوں میں درختوں کو بھی نقصان نہ پہنچایا جائے، لیکن تحریک طالبان پاکستان کے نام سے 'جہاد‘ کرنے والے کیسے لوگ ہیں جو ہسپتالوں میں بھی خود کش دھماکے کرتے ہیں جہاں دور دور سے آئے ہوئے بے گناہ مریض اپنی بیماریوں اور حادثات میں لگنے والے زخموں کے علاج کے لیے مقیم ہوتے ہیں۔ ان میں بچے، جوان، بوڑھے اور خواتین سبھی شامل ہوتے ہیں۔ یہ ایسے 'مجاہد‘ ہیں جنہوں نے سکول جانے والے بچوں کی ویگنوں اور گاڑیوں کو بھی نشانہ بنانے سے دریغ نہیں کیا۔ انہوں نے باغات، بازاروں، ریل گاڑیوں، لاری اڈوں، بزرگان دین کے مزاروں، مارکیٹوں، مساجد اور دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کی عبادت گاہوں کو بھی نشانہ بنایا۔ یہ کارروائیاں کرنے والے لوگ وہ ہیں جنہوں نے اپنی مساجد پر تو صحابی رسول حضرت ابوبکر صدیقؓ کا نام گرامی بڑے خوبصورت الفاظ میں نقش کرایا ہوتا ہے اور یہ حضرات اپنی مساجد اور مدارس میں ان کی زندگی کے واقعات کو متبرک سمجھتے ہوئے اپنے پیروکاروں کو سناتے ہیں، لیکن بدقسمتی کہیے کہ یہ لوگ خود ان کی طرف سے دیے گئے احکامات اور ہدایات کا ذرہ برابر احترام نہیں کرتے ۔۔۔کیا اس بے ادبی پر صحابہ کرامؓ ان سے راضی ہوتے ہوں گے؟
ہماری فوج جو صحرائوں، میدانوں، سنگلاخ پہاڑوں اور برف پوش چٹانوں پر ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے فرائض سر انجام دے رہی ہے، وہ جو وطن کے اندر کسی بھی قدرتی آفت کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمہ تن تیار ہوتی ہے، اس کو مارنے والے کون ہو سکتے ہیں؟ سب جانتے ہیں کہ تھر میں لاکھوں بچے، بوڑھے اور عورتیں بھوک سے بلک رہے ہیں، روزانہ دو یا تین بچے غذائی قلت یا مہلک بیماریوں کا شکار ہو کر لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ ان کی دن رات حفاظت اور ان کے ایک ایک جھونپڑے اور گھر تک راشن اور ادویات پہنچانے کے لیے افواج پاکستان دن رات کام کر رہی ہیں، فوج کی جانب سے قائم کیے گئے فیلڈ اورایمر جنسی ہسپتالوں میں ڈاکٹر اور نرسیں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔ بھوک اور بیماریوں میں مبتلا لوگوں تک راشن اور دوائیں پہنچانے والوں کو نشانہ بنانے والے بتائیں کہ وہ کون سے دین کی خدمت کر رہے ہیں؟ دین اسلام تو ان حرکتوں کی قطعاً اجازت نہیں دیتا، یہ لوگ کس مذہب کے پیروکار ہیں؟ وہ معصوم بچے جن کے تن پر کپڑے نہیں تھے وہ جواں اور بوڑھی عورتیں جو ناکافی لباس کی وجہ سے میڈیا کے کیمروں سے بچ کر کونوں کھدروں میں چھپ رہی تھیں، ان خواتین کو تن ڈھانپنے کے لیے لباس مہیا کرنے والوں کے رستوں میں اگر بارودی مواد رکھ دیا جائے تو ایسا کرنے والے کس طرح اﷲ کے احکامات کی پیروی کرنے والے کہلا سکتے ہیں؟
وہ لوگ جو سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبد العزیز اور الازہر یونیورسٹی کے مفتیوں کی جانب سے خود کش حملوں کو حرام قرار دینے کے فتوے کے بعد بھی ناسمجھ لڑکوں سے خود کش حملے کروا رہے ہیں کیا وہ اﷲ اور اس کے رسول حضرت محمد مصطفیٰٰﷺ پر ایمان لانے کے معیار پر پورے اترتے ہیں؟