"MABC" (space) message & send to 7575

بلوچستان کے امریکی دوست

واشنگٹن میںسلطنت عُمان کے سفارت خانے کو American Friends Of Balochistan'' ''نامی ایک این جی او کی طرف سے مراسلہ بھیجا گیا ہے جس میں عُمان کے سلطان قابوس سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ مداخلت کرتے ہوئے گوادر کا علاقہ پاکستان سے واپس لے لیں کیونکہ یہ پاکستان کا نہیں بلکہ سلطنت عُمان کا با قاعدہ حصہ ہے۔ تاریخ اور دونوں حکومتوں کے سرکاری ریکارڈ اور دستاویزات سے بے خبر سوشل میڈیا کے لوگوں کو بھارت اپنی اس طرح کی نت نئی این جی اوز کے نام پر اس طرح بے وقوف نہیں بنا سکتا، کیونکہ سلطنت عمان کے سرکاری کاغذات آج بھی گواہی دیں گے کہ گوادر 1958 ء میں حکومت پاکستان نے سلطنت عمان سے با قاعدہ خریدا تھا۔ بھارتی سفارت کاروں کا ترتیب دیا گیا جھوٹ پر مبنی گمراہ کن حقائق پر مبنی یہ خط جہاں ایک جانب تاریخی اور بین الاقوامی دستاویزات کو جھٹلاتا ہے تو دوسری جانب اس مراسلے کے بھیجنے والے احمر مستی خان کے حقیقی چہرے کو بے نقاب کرتا ہے۔ احمر مستی خان دنیا بھر میں عجیب و غریب حرکتوں کی وجہ سے جا نا اور پہچانا جاتا ہے ۔وہ امریکی میڈیا اور شو بز میں بڑے فخر سے اپنی ان حرکتوں کا خود اعتراف کرتا رہتا ہے۔ احمر مستی خان کا بلوچستان سے تعلق نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ شخص نہ تو بلوچستان میں پیدا ہوا اور نہ ہی اس کا بلوچستان کے کسی بھی حصے سے ذراساتعلق ہے۔ احمر مستی خان نامی یہ شخص جو اپنے نظریات کی وجہ سے امریکہ کے مادر پدر آزاد معاشرے میں ''عزت‘‘ کی نگاہ سے دیکھاجاتا ہے، برما میں پیدا ہو ا،اس کا خاندان عرصہ دراز سے بر ما میں قیام پذیر تھا۔ اب یہ شخص امریکہ میں مقیم ہے اور وہیں پر وہ '' بلوچستان کے امریکی دوست‘‘ کے نام سے این جی او چلا رہا ہے ۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ اس این جی او کو بھارت کی مالی اور سیاسی سرپرستی حاصل ہے۔ بلوچستان کے غیور اور خود دار لوگ کیا اس طرح کے شرمناک اور گھٹیا کردار کے حامل شخص کو اپنا نجات دہندہ یا ساتھی تسلیم کرنا پسند کریں گے ؟کبھی نہیں! کیونکہ بلوچستان کے غیرت مند لوگ کسی ایسے شخص کو ایک لمحے کیلئے بھی اپنا ترجمان اور رہنما ماننے کو تیار نہیں ہو سکتے جس کا کردار مشکوک ہو۔
میڈیا کے کچھ حلقوں سمیت اکثر حضرات بلوچوں کے ساتھ روا رکھی جانے والی نا انصافیوں کی باتیں تو کرتے ہیں لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ قیام پاکستان سے اب تک بلوچستان ہی ''بیرونی حملہ آوروں‘‘ کا نشانہ کیوں بنتا رہا؟۔ بھٹو دور میں بلوچوں سے ہونے والی ''زیا دتیوں‘‘ کی بات کریں تو کیا اکبر بگٹی پنجابی تھا جس کی وجہ سے بعض قبائل نے پاکستان کے خلاف ہتھیار اٹھائے؟ اسلام آباد میں عراق کے سفارتخانے سے اسلحہ کا ذخیرہ کسی پنجابی نے نہیں بلکہ نواب اکبر بگٹی نے بر آمد کروایا تھا؟ قیام پاکستان سے اب تک بلوچستان کے سردار ، ملک اور خوانین ہی اس صوبے کے حاکم رہے۔اگر قائد اعظم، ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو، ضیا الحق اور جنرل مشرف کے دور حکومت میں علیحدگی کی تحریکیں چلتی رہیں تو لیاقت علی خان، جونیجو، نواز شریف اور بے نظیر کی جمہوری حکومتوں میں در پردہ اور کھلم کھلا تخریب کاریاں کیوں ہوتی رہیں؟ کہیں اس کی بنیادی وجہ گوادر سمیت وہ قیمتی معدنی ذخائر تو نہیں جو امریکہ، بھارت، ایران اور افغانستان کی آنکھوں میں کانٹوں کی طرح کھٹک رہے ہیں۔پاکستان بننے کے بعد 55 سال میں ہماری بدقسمتی رہی کہ ہم وسائل اور متعلقہ مشینری نہ ہونے کی وجہ سے بلوچستان اور ملک کے دوسرے حصوں میں قدرت کی طرف سے عطا کردہ بیش بہا خزانوں کو استعمال کرنے کے قابل نہ بن سکے۔2000ء میں جب ہمارے مخلص دوست چین کی مدد سے بلوچستان کے کونے کونے میں چھپی ہوئی اس دولت اور رہتی دنیا تک قیمتی ہیروں سے لبریز کانوں سے بھی بیش قدرگوادر بندر گاہ کی تعمیر کا کام شروع ہواتو پاکستان کے دشمنوں کے سینوں پر سانپ نہیں بلکہ اژدہے لوٹنا شروع ہو گئے۔ دشمنانِ پاکستان جانتے ہیں 
کہ اگر گوادر ڈیپ سی پورٹ بھر پور طریقے سے کام کرنا شروع ہو گئی تو بہت جلد یہاں بین الاقوامی تجارتی گروپوں کی آئل ریفائنریاں اور دنیا بھر کی بڑی بڑی شپنگ کمپنیاں کام شروع کر دیں گی اور گوادر کے تابناک مستقبل اور اس کی بین الاقوامی اہمیت اور مرکزیت کا یہ تصور سامنے آتے ہی کئی ممالک کے جغرافیائی اور معاشی قلعوں میں دراڑیں پڑنا شروع ہو جاتی ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کے بھر پور فنکشنل ہونے کے دس سال کے اندر اندر پاکستان، امریکہ، یورپ، خلیجی اور عرب ممالک سمیت آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں اور ان کی معاشی اور سفارتی پابندیوں سے خود بخود آزاد ہو جائے گا۔گوادر ڈیپ سی پورٹ کا دوسرا مرحلہ جس کی امریکہ بھارت اور افغانستان کو سب سے زیا دہ تکلیف ہے وہ اس کا '' کاشغر‘‘ سے منسلک ہونا ہے‘ ساتھ ہی چین کی گوادر میں مستقل موجو دگی امریکہ اور بھارت کیلئے پریشان کن ہے کیونکہ ایشیائی ریاستوں اور خلیج میں چین کی موجو دگی سے امریکی مفادات کے رستے بند ہوجائیں گے۔ یہی وہ نا قابل برداشت اور تکلیف دہ امرہے‘ جسے بھڑکانے کے لیے انہوں نے سب سے پہلے سوئی میں ڈاکٹر شازیہ خالد کا ڈرامہ رچایا اور پھر اس کی آڑ میں ہمیشہ کی طرح مسلح تحریک شروع کر دی جسے روکنے کیلئے سکیورٹی اداروں کو آنا پڑا جس کے نتیجے میں کئی اعلیٰ فوجی افسران سمیت اکبر بگٹی کی ہلاکت ہوئی اور جس نے بلوچستان کیلئے امریکہ اور بھارت کی مالی اور اسلحی امداد سے چلنے والی اس تحریک کے جذباتی ماحول کو تشدد اور بغاوت کی راہ دکھانے کا کام کیا۔ 
بھارت کئی سالوں سے ایران کی چاہ بہار ڈیپ سی پورٹ (گہرے سمندر کی بندر گاہ ) پر کئی ملین ڈالر خرچ کر رہا تھا، اسے اب یہ سب کچھ خاک میں ملتا نظر آ رہا ہے ۔گوادر بندرگاہ کے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے شپنگ کمپنیوں اور تیل سپلائی کرنے والے عالمی کاروباری افراد کی نظروں میں چاہ بہار کی حیثیت ثانوی ہو کر رہ جاتی ہے کیونکہ گوادرکا انشورنس رسک اور سمندری فاصلہ کم ہو جاتا ہے جس سے تجارتی اداروں کو دوہری بچت ہو گی۔ یہی وہ حقیقت ہے جو بھارت سمیت خطے کے بہت سے ممالک کو گوارا نہیں۔ وسری طرف افغانستان کی بے چینی کی وجہ سب کے سامنے ہے کہ جونہی گوادر،کاشغر شاہراہ مکمل ہوگئی اس کے حکمرانوں اور ان کے سرپرست بھارت کی امیدوں پر پانی پھر جائے گا۔ احمر مستی خان سے منسوب کی گئی '' بلوچستان کے امریکی دوست ‘‘ نام کی یہ این جی او جسے امریکہ میں بھارتی سفارت خانے کے ذریعے متحرک کیا گیا، کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ بلوچستان میںانارکی پھیلا کر مسلح مداخلت کی راہ ہموار کی جائے اور سوشل میڈیا کے ذریعے برین واشنگ کرتے ہوئے حالات کی بدترین تصویر پیش کر کے پاکستان کو بدنام کیا جائے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں