"MABC" (space) message & send to 7575

زاغوں کے تصرف میں ہے…؟

گھنٹی بجنے پر موبائل فون اٹھایا تو دوسری طرف شہید سیاچن کیپٹن معظم کے والد بزرگوار ڈاکٹر میجر یوسف اختر کی ہچکیاں لے لے کر رونے کی آوازوں نے مجھے بوکھلا کر رکھ دیا۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ ہو گیا ہے۔ بار بار پوچھتا رہا کہ خیریت ہے؟ لیکن ان کی چیخیں تھیں کہ بڑھتی ہی جا رہی تھیں۔ کافی دیر بعد انہوں نے انتہائی دردناک آواز میں صرف اتنا کہنے کے بعد روتے ہوئے فون بند کر دیا کہ ''رات خواب میں میرا بیٹا کیپٹن معظم شہید فوجی وردی میں مجھے ملنے آیا تو دیکھا کہ اس کا سینہ اور چہرہ خون سے لت پت ہے اوربھارتی فوج کا راکٹ لگنے پر اس نے اپناکٹا ہوا دایاں بازو بائیں ہاتھ کے سہارے پکڑ ا ہوا ہے۔ اس نے مجھے دیکھتے ہی اذیت ناک لہجے میں زور زور سے چیخیں مارتے ہوئے پوچھا ۔ با با جب انتہائی بلندی پر بیٹھے ہوئے بھارتی فوجیوں کے چلائے گئے راکٹ کے ٹکڑوں نے میرے جسم اور چہرے کو ادھیڑ کر رکھ دیا تو اس وقت مجھے اتنی تکلیف نہیں ہوئی تھی جتنی مجھے کل سے ہو رہی ہے۔ میں صرف یہ پوچھنے آیا ہوں کہ کیا میں نے اس ملک کے اس طرح کے حاکموں اور وزیروں کیلئے اپنی جان دی تھی؟ با با سارا جہلم شہر جانتا ہے کہ میں نے والنٹیر بن کر سیاچن کے محاذ پر جانے سے پہلے وصیت کی تھی کہ میرے مرنے کے بعد فوج کی طرف سے میرے نام پر جو کچھ ملے‘ اس کی پائی پائی ایک ہسپتال بنانے پر خرچ کرنی ہو گی۔ ہمیں پلاٹوں اور عیاشیوں کے طعنے دیے جا رہے ہیں۔ پاکستانی فوج پر تنقید کرنے والوں کو بتا دو کہ ہم نے اپنی جانیں ان پلاٹوں کے لیے نہیں اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے اس ملک کی آن کے لیے قربان کی ہیں‘‘ (جی ایچ کیو سے ملنے والی رقم سے آج معظم شہید ہسپتال جہلم اور گردو نواح کے غریب لوگوں کی مفت اور بے لوث خدمت کر رہا ہے)۔ ڈاکٹر میجر یوسف اختر کہتے ہیں کہ ''وہ میرا بیٹا خاکی وردی میں صرف23 سال کی عمر میں وطن پر قربان ہوا‘ اس پر بھی آج اس ملک کا وزیر دفاع اس خاکی وردی کے گریبان پر ہاتھ ڈالنے کی باتیں کر رہا ہے‘‘۔ ڈاکٹر میجر یوسف اختر جو1965-71ء میں فوج کے میڈیکل یونٹ کے ساتھ سلیمانکی سیکٹر میں خدمات انجام دیتے رہے تھے‘ ان کے فون پر کہے گئے یہ الفاظ مجھے زندہ درگور کر گئے اور میں یہ سوچتے ہوئے کانپ کر رہ گیا کہ پاکستان کے درجنوں محاذوں پر اپنے فرائض سر انجام دینے والے اور ان کے ماں باپ بھی اگر اسی طرح سوچنے لگے تو اس ملک کا کیا ہو گا؟۔ 
خواجہ آصف اور ان جیسے دوسرے وزیروں کے تو دبئی میں گھر اور کاروبار ہیں۔ اگر بے وجہ تنقید یوں ہی جاری رہی تو ہمارے جیسے انیس کروڑ عوام اپنے سے گیارہ گنا دشمن کے مقابلے میں کیا کریں گے؟ کہاں جائیں گے؟۔ تاریخ سے نا بلد پاکستان کے ''وزیر دفاع‘‘ خواجہ آصف فرماتے ہیں کہ اس فوج نے 1948ء میں کشمیر کی جنگ میں حصہ لینے سے انکار کر دیا تھا۔ خواجہ آصف اگر اپنی قومی اسمبلی کے ایوان میں کی گئی اس تقریر میںبرطانیہ کے جنرل گریسی کا حوالہ دیتے تو مناسب تھا لیکن انہوں نے پاکستانی فوج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ '' اس فوج ‘‘ نے کشمیر میں لڑنے سے انکار کر دیا تھا۔ خواجہ آصف صاحب‘ آپ بد قسمتی سے اس وقت پاکستان کے اسی طرح کے وزیر دفاع ہیں جس طرح بہت سے زیر تعلیم افراد اس ملک کے وزیرتعلیم بن جاتے ہیں اور آپ چونکہ سیالکوٹ کے رہنے والے ہیں‘ جہاں سے رات کو جموں شہر کی روشنیاں بآسانی دکھائی دیتی ہیں اس لیے آپ کو تو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ ''اری پونچھ سیکٹر میں ہندوستان کے ساتھ ہونے والی کشمیر کی پہلی جنگ میں جس کا آپ نے حوالہ دیتے ہوئے پاکستانی فوج پر دشنام طرازی اور پاکستان کے نشان حیدر کی توہین کی ہے اور فرمایا ہے کہ وہ تو صرف قبائلی تھے جو کشمیر میں لڑنے کیلئے آئے تھے۔ خواجہ آصف صاحب کیا آپ کو اتنا بھی نہیں معلوم کہ اسی جنگ میں پاکستانی فوج کی پنجاب رجمنٹ کے کیپٹن راجہ محمد سرور شہید نے 27 اکتوبر1947ء کو کشمیر کے اری محاذپر انتہائی بلندی پر واقع دشمن کی ایک پوسٹ‘ جہاں تباہ کن مشین گن نصب تھی اور جس کے گرد دشمن نے آہنی باڑ لگائی ہوئی تھی‘ اس آہنی باڑ کو کاٹ کر دشمن کی اس مشین زگن کو تباہ کرنے کے لیے اس کی طرف اوپر بڑھتے ہوئے جام شہادت نوش کیا تھا‘ جس پر انہیں بہادری کے سب سے بڑے اعزاز نشان حیدر سے نوازا گیا۔ آپ کہتے ہیں کہ صرف قبائلیوں نے کشمیر کی جنگ میں حصہ لیا جو با لکل غلط ہے۔ اگر بحیثیت وزیر دفاع آپ کی لائبریریوں میں رکھی گئی کتابوں پر یقین نہیں رکھتے تو پھر1947-49ء تک کے مغربی اخبارات کی فائلیں دیکھ لیں تو آپ پر حقیقت واضح ہو جائے گی۔ اگر آپ کے پاس زیا دہ فرصت نہیں تو پھر ڈیلی ٹیلیگراف لندن کے نمائندہ خصوصی کی کشمیر سے بھیجی گئی یہ خبر ملا حظہ کر لیں جس میں اس نے اپنی12 جنوری1948ء کی رپورٹ میں لکھا تھا کہ ''جب جموں میں ہندوئوں اور سکھوں کے ہاتھوں ایک لاکھ سے زائد مسلمان مردوں اور بچوں کے قتل عام اور نو عمر بچیوں اور عورتوں کی آبروریزی کی خبریں چہار سو پھیلنا شروع ہوئیں تو کشمیری گوریلوں کی فورس نے 22اکتوبر کو مہاراجہ کشمیر کی فوجوں پر حملے شروع کر دیے اور پھر کشمیر اور پاکستان کے دوسرے لوگوں کی طرح قبائلیوں کے لشکر بھی کشمیر کے ان مسلمان بھائیوں کی مدد کے لیے پہنچنا شروع ہو گئے اور قبائلیوں کے پہلے لشکر نے کشمیری گوریلوں کی مدد سے 24 اکتوبر 1948ء کو سری نگر کے بجلی گھر کا محاصرہ کر لیا لیکن اسے برقرار نہ رکھ سکے اور اس کے بعد وہ مختلف ٹکڑیوں میں منتشر ہو گئے‘‘۔ 
جناب وزیر دفاع پاکستان‘ ہو سکے تو آپ میرے دیے گئے اس ریکارڈ کی چھان بین کر سکتے ہیں جو میں پوری ذمہ داری سے سب کی خدمت میں پیش کر نے جا رہا ہوں جس سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ پاکستانی فوج نے انکار نہیں کیا بلکہ 1948ء کی اس جنگ کشمیر میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے تھے۔ خواجہ صاحبان۔۔۔۔2/1 پنجاب نے پیر کانتھی سیکٹر پر حملہ کیا ،1/13 ایف ایف سگنا اور عروسہ پر،4/10 بلوچ رجمنٹ نے پانڈو پر اور2/12 ایف ایف نے بی بی ڈوری پر بھارتی فوج کے مقابل لڑائی میں حصہ لیا جبکہ ٹیٹوال سیکٹر میں3/12 ایف ایف کے لیفٹیننٹ کرنل عزیزالدین،5/12 ایف ایف کے لیفٹیننٹ کرنل کریم داد،4/16 پنجاب رجمنٹ کے لیفٹیننٹ کرنل نوشیرواں اور بی کمپنی1/15 پنجاب کے کیپٹن ایم اے اختر اپنے افسروں اور جوانوں کے ساتھ دشمن کے خلاف سینہ سپر تھے۔۔۔خواجہ صاحبان اس کے لیے ایک پوری کتاب چاہئے ورنہ 1948ء کی کشمیر جنگ میں منڈھیر، کوٹلی،جھانگڑ، میر پور ، بھمبر، باغ، پونچھ سمیت کشمیر کے سینکڑوں محاذوں پر لڑنے اور شہید ہونے والے ایک ایک افسر اور جوان کا نام اور اس کی یونٹ کا بتاتا ۔
خواجہ آصف نے قومی اسمبلی کے ایوان میں تذلیل آمیز لہجے اور انتہائی تمسخرانہ انداز میں فوج پر پلاٹوں کا الزام لگایا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ انہوں نے سچ کہا ہو لیکن‘ کیا وہ غلام عباس کا سپریم کورٹ میں جناب نواز شریف کے خلاف دائر کیے گئے بیس سال پرانے ''پلاٹوں والے کیس‘‘ کو سامنے لانا پسند فرمائیں گے؟ کیا جناب چیف جسٹس پاکستان ایک غیر جانبدار کمیشن کے ذریعے جس میں ڈاکٹر صفدر محمود جیسے لوگ شامل ہوں‘ پورے پاکستان میں سیاستدانوں کی جانب سے بانٹے گئے پلاٹوں اور جی ایچ کیو کی جانب سے فوجی افسران کو دیے گئے پلاٹوں کی مکمل تفصیل سے قوم کو آگاہ کریں گے؟ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں