"MABC" (space) message & send to 7575

یقین کامل۔۔۔۔۔انسانی ذہن کا ضمیر

8 نومبر2006 ء کو امریکہ کے نائب وزیر خارجہ رچرڈ آرمٹیج نے امریکی کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا'' اگر پاکستان کے صدر جنرل مشرف نے امریکہ کے دیے گئے ایجنڈے پر مکمل عملدرآمد سے گریز کیا تو ہم اس پر ہر طرح کا دبائو بڑھائیں گے‘‘ اور وہ دبائو آرمٹیج کی دھمکی کے تین ماہ بعد مارچ 2007 ء کے پہلے ہفتے میں ہی انتہائی منفرد انداز میں سب کے سامنے آ گیا۔ ابھی حال میں ہی امریکی جرنلسٹ کارلوٹا گال نے اپنی کتاب ''The Wrong Enemy'' میں الزام لگایا ہے کہ جنرل مشرف نے ہی اسامہ بن لادن کو چھپایا ہوا تھا ( جنرل مشرف کہتے تو ہوں گے کہ'' زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا۔۔۔ اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں‘‘)۔ نومبر2006ء ہی میں آئی ایس آئی کے سابق چیف ضیاالدین بٹ نے امریکی سی آئی اے کو اسامہ اور جنرل مشرف کے بارے میں آگاہ کیا‘ جس کی تفصیل فوکس نیوز اور ایک مقامی اخبار کے ایک اپنے مضمون میں کھل کر بیان کی گئی ہے۔ امریکیوں نے جنرل ضیاالدین بٹ کی کہانی سننے کے بعد کہا تھا کہ جنرل مشرف ہم سے اسامہ بن لادن کے معاملے پر جھوٹ بول بول کر ہمیں گمراہ کرتے رہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جنرل مشرف کے خلاف چلائی جانے والی تحریک مکمل طور پر امریکی سی آئی اے کی تیار کردہ تھی اور اس میں تین انتہائی اہم پردہ نشینوں کے نام بھی شامل ہیں جو امریکیوں کے اس مشن کو آگے بڑھانے میں اپنا اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ایک بات ہمیشہ ذہن میں رہے کہ ہمارے جیسے ترقی پذیر ملکوں میں کوئی بھی تحریک امریکی سرمائے اور حکم کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی' اس کے لیے ایوب خان کے خلاف بھٹو ، اور بھٹو کے خلاف قومی اتحاد کی کامیاب تحریکوں کو ہر وقت سامنے رکھنا ہو گا۔ جنرل مشرف نے سندھ ہائیکورٹ میں ای سی ایل سے اپنا نام نکالنے کے لیے درخواست دائر کر دی ہے جس پر وفاق سے جواب طلب کر لیا گیا ہے اور لگتا ہے کہ اس پٹیشن کا فیصلہ وہی ہو گا جس کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ 
جنرل مشرف پاکستان سے جانے کے متمنی ہیں یا سیا سی افق پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے مقابل کھل کر آ نے کے؟ یہ سب کچھ اب ان پر منحصر ہے کہ وہ کس قدر دبائو برداشت کرتے ہیں ۔ان کے سامنے ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی ہوئے 35 برس بیت چکے ہیں لیکن کیا یہ سچ نہیں کہ وہ آج بھی پاکستان کی سیا ست پر چھائے ہوئے ہیں؟ جس طرح اس وقت کی عدالتیں اور حاکم بھٹو کے خلاف تھے‘ اسی طرح کی صورت حال کا آج جنرل مشرف کو بھی سامنا ہے۔ فیصلہ جو بھی ہو گا ان کے حق میں نہیں ہو گا کیونکہ ان کے بارے میں لکھا ہوا فیصلہ کاغذوں کی اوٹ میں ہونے کے با وجود نوشتہ دیوار بن کر سب کو صاف اور واضح دکھائی دے رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ'' جنرل مشرف کے ساتھ وہی کچھ کیا جائے گا جو انہوں نے جنرل ضیاالدین بٹ کے ساتھ کیا۔ فوج سے ملنے والی تمام مراعات‘ جن میں ان کے پلاٹ اور شہری اور دیہی جائیدادیں شامل تھیں ان سے واپس لے لی جائیں گی۔ اسی طرح جنرل مشرف کا نام پاکستان کے سویلین اور فوجی اداروں میں جہاں جہاں موجود ہو گا ‘اسے حذف کر دیا جائے گا۔ تمام تمغے اور اعزازات چھین لیے جائیں گے اور فوج کے تمام ریکارڈ کو اس طرح صاف کر دیا جائے گا کہ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا کہ پرویز مشرف نامی کوئی شخص کبھی پاکستان کی فوج میں بھرتی ہوا تھا ۔انہیں کبھی اپنے نام کے ساتھ صدر پاکستان یا فوج کے کسی بھی عہدے کا نام استعمال کرنے کی اجا زت نہیں ہو گی۔ آج ان ہزاروں میں سے کوئی ایک بھی مشرف کے ساتھ نظر نہیں آرہا جن پر وہ8 سال مسلسل نوازشات کی بارشیں کرتے رہے‘ شاید اسی لئے کہا جاتا ہے کہ مصیبت اور آزمائش کی گھڑی میں انسان کے حقیقی کردار، صلاحیت اور اخلاقی ساخت کا اندازہ ہوتا ہے ۔اور دبائو کی صورت میں ہی انسان کی جزئیات کی بجائے اجتماعی شعور نمایاں ہوتا ہے۔ جب بھی کوئی بحران میں گھرتا ہے تو درپیش مشکل صورت حال سے نبرد آزما ہونے کے د و بنیادی طریقے ہوتے ہیں ۔ایک تو یہ کہ آپ طوفان کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ہر صورت اپنے اصولوں پر قائم رہتے ہیںاور دوسرا یہ کہ آپ کم از کم مزاحمت کا 
راستہ اختیار کرتے ہوئے کسی مصلحت اور خوف کی وجہ سے ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔ یہی دو طریقے ہوتے ہیں اور اب جنرل مشرف کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ ڈٹ جاتے ہیں ‘لچک اختیار کرتے ہیں یا اطاعت؟۔ لچک اور اطاعت کے درمیان اختلاف کا ایک جہان ہے‘ اگرچہ سیا ست میں لچک قابل قبول ہے مگر اصول پسند انسان کے لیے اطاعت اخلاقی موت کے برابر ہے۔ اگر تو جنرل مشرف کو یقین ہے کہ انہوں نے ہر قدم ملک و قوم کی بہتری اور بھلائی کے لیے اٹھایا تھا ‘ اس ملک کاایک روپیہ بھی غبن نہیں کیا۔ اس ملک کی سالمیت کو انہوں نے نقصان نہیں پہنچایا تو انہیں شہیدان کربلا سے سبق سیکھنا چاہیے جنہوں نے انتہائی مشکلات کے با وجود اپنے انگلیوں پر گنے جانے والے چند ساتھیوں کے ہمراہ بہت بڑے یزیدی لشکر کے خلاف سچائی کیلئے جنگ لڑی اور انسانی تاریخ کی سب سے عظیم قربانی دی۔ اس حقیقت کو تو وہ اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ آخری فتح یزید کی نہیں بلکہ کربلا کے ان سچے شہیدوں کی ہوئی ہے اور آج ساری دنیا گواہ ہے کہ آنے والی صدیوں میں اسلام کی فتح اور کامرانی کے سوتے شہیدان کربلا کے لہو سے ہی پھوٹے۔ اسی طرح جان آف آرک نے عیسائیت کی تاریخ میں جو اہم کردار ادا کیا ‘وہ آ ج بھی یاد کیا جاتا ہے۔ جنرل مشرف کو سقراط کی ہمت اور جرأت کو بھی سامنے رکھ کر فیصلہ کرنا ہو گا کہ جب399 قبل مسیح میں ایتھنز کے ایک سو کے قریب 
فسطائیوں نے سقراط پر جھوٹے الزمات عائد کر تے ہو ئے اسے قتل کرنے کی سازش کی تو اس کے با وجود سقراط اپنے اصولوں کی سچائی پر ڈٹا رہا اور اپنے نظریات پر کسی بھی قسم کاسمجھوتہ کرنے کی بجائے زہر کا پیالہ پینے کو ترجیح دی اور آج سقراط کو ظلم و جبر کے خلاف جدو جہد کی علامت سمجھا جاتا ہے لیکن اگر وہ اپنی زندگی بچانے اور آرام اور سکون کی خاطر اپنے نظریات سے منحرف ہوجاتا تو کیا آج اس کا نام اسی احترام اور عقیدت سے لیا جاتا؟۔ 
جنرل مشرف کو ہر قدم پر یہ بات ذہن میں رکھنی ہو گی کہ ''یقین کامل انسانی ذہن کا ضمیر ہوتا ہے‘‘ ۔اگر انہیں 'سب سے پہلے پاکستان ‘کے نعرے کے ساتھ ملک اور قوم کی خاطر کئے گئے اپنے ایک ایک عمل کی سچائی پر یقین کامل ہے تو انہیں خوف اور لچک کو جھٹکنا ہو گا۔ ایک کمانڈو کو کئی کئی منٹ تک اپنا سانس بند کرنے کی تربیت سے گذرنا پڑتا ہے‘ کیا وہ اپنے انسٹرکٹروں سے حاصل کی گئی تربیت کا عملی نمونہ بن کر دکھا نا پسندکریں گے؟ یہ سچ ہے کہ ان کے کل کے دوست اور دشمن ان کے مقابلے کے لیے ایک ہی سٹیج پر اکٹھے ہو چکے ہیں اور انہوں نے انہیں گھیرے میں لیا ہوا ہے اور وہ اس وقت سقراط کی طرح تنہا ہیں۔ پاکستان کے کل اور آج کے سیا سی منظر نامے کی دائمی ناپائیداری کی وجہ بھی یہی ہے کہ لوگ اصول، دیانت اور نظریاتی وابستگی کے بجائے موقع پرستی اور مصلحت کوشی کے غلام بن جاتے ۔یہ راستہ بے شک منافع بخش ہوتا ہے مگر ملک اور قوم کیلئے ہمیشہ تباہ کن ثابت ہوا ہے۔کیا جنرل مشرف بھی ریت کی دیوار بن کر اسی رستے پر چلنا پسند کریں گے یا قربانی کی ؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں