"MABC" (space) message & send to 7575

کھیم کرن میں چند روز…(2)

دشمن کی بھا ری نفری کے مقابلہ میں ہمارے پاس ایک نا مکمل ڈویژن تھا۔ سات دسمبر کو بریگیڈیئر صاحب داد خان کا بریگیڈ بھی کھیم سیکٹر پہنچ گیا۔ اب اندازہ کریں کہ اٹھائیس میل لمبے اس محاذ پر پاک فوج کی کل نفری صرف پانچ پلٹنیں تھی۔ 8 ستمبر کو بریگیڈیئر صاحب داد کے بریگیڈ اور پاکستان کی ٹینک رجمنٹ کے کرنل صاحبزاد گل شہید ہلال جرأت نے پنجاب رجمنٹ اور ایف ایف کی ایک پلٹن سے کھیم کرن پر اپنا دبا ئو بڑھا دیا۔ دشمن نے اتنی خوفناک گولہ با ری کی کہ زمین اور آسمان آگ اور دھویں کے بادل میں چھپ گئے لیکن 8 ستمبر کو کرنل صاحبزاد گل شہید کی ٹینک رجمنٹ نے دشمن کے دونوں فلینک بے بس کر دیئے۔ قصور کے محاذ پر پاکستانی فوج نے جنگی تاریخ کانا قابل یقین رسک لیتے ہوئے دشمن کی آنکھوں میں دھول جھونک کر بڑی بڑی اور دور تک ما ر کرنے والی توپیں دشمن کے منہ کے آگے کھڑی کر دیں ان گنوں نے فیروز پور میں نصب دشمن کے ریڈار ، آرڈی نینس فیکٹری، ریلوے اسٹیشن اور فوجی تنصیبات کو تہس نہس کر دیا۔ 1965 ء کی جنگ میں کھڈیاں اور عثمان والا سیکٹر کی جنگ میں خاموشی کی وجہ ہمارے اس توپ خانہ کی ٹھیک ٹھیک گولہ با ری تھی۔ چونکہ یہ گولہ با ری رات کو ہو تی تھی اس لیے بھا رتی یہ سمجھتے تھے کہ 
ہوائی جہازوں سے گولہ با ری کی جا رہی ہے۔ میرے سمیت کچھ اور ساتھیوں کی ڈیوٹی قصور کے محاذ پر تھی تاکہ فوجی کنوائے اور دوسرا سامان گزارا جا سکے۔ پھر وہ دن بھی آ گیا جب ہما ری فوجیں کھیم کرن سے بھی آ گے نکل گئیں۔ ہم چونکہ محاذ کے قریب تھے اس لیئے ہمیں فوری اطلاع ہو گئی لیکن پاک فوج کا اصول تھا کہ کسی جگہ پر قبضہ کرتے پھر اسے مستحکم کرکے اس جگہ سے آگے پیش قدمی کر نے کے بعد ریڈیو اور ٹی وی پر اعلان کرا یا جاتا تھا۔ اس کے برعکس بھارتی ابھی کسی جگہ سے دومیل پیچھے ہی ہوتے تھے لیکن ساری دنیامیں وہاں پر قبضہ کا شور مچا دیتے تھے۔ 
11 ستمبر کو پاک فوج نے کھیم کرن پر قبضہ کر لیا۔ بھارت کایہ بڑا تجارتی قصبہ بھارتی سرحد کے چار میل اندر اس ریلوے لائن پر واقع ہے جو کبھی قصور کو ترن تارن ، امرتسر سے ملا تی تھی۔ یہی وہ وقت تھا جب بھارت نے چونڈہ کا محاذ کھول دیا اور ہمارے کچھ ٹینکوں اور توپخانے کو فوری طور پر ادھر بھیجنا پڑا ورنہ کھیم کرن سیکٹر پر ہمارے جوان ولٹوہا، آصل اتر اور امرتسر 32 میل کے سنگ میل 
تک پہنچ چکے تھے۔ 11 ستمبر کو دکن ہارس کی ٹینک رجمنٹ اور سکھ رجمنٹ نے طو فانی حملہ کیا اور ایک لمحہ پر ایسا لگا کہ سکھ رجمنٹ آگے بڑھ جائے گی لیکن اﷲ کے شیروں نے قدم جما تے ہوئے انہیں ناکام کر دیا اورسا تھ ہی اس رجمنٹ کے کرنل اننت سنگھ اور اس کے جوانوں کو قید کر لیا۔ گیارہ ستمبر کو کھیم کرن اور اس کا وسیع علا قہ مکمل طور پر پاکستان کے قبضہ میں آ گیا۔ جس جگہ پاکستانی فوج اپنا قبضہ مستحکم کر لیتی تھی۔ وہاں ریزرو کے کچھ جوان اور مجاہد فورس کے لوگ دیکھ بھال کے فرائض انجام دیتے تھے۔ 11 ستمبر سے 23 ستمبر تک جنگوں کی تاریخ میں کھیم کرن سیکٹر کی صورتحال ایک قیامت سے کم نہ تھی کیونکہ بھا رتی دنیا بھر میں یہی پروپیگنڈا کر رہے تھے کہ کھیم کرن بھا رتی فوج کے قبضہ میں ہے۔ وہ چا ہتے تھے کہ کسی نہ کسی طرح اسے واپس لے لیا جائے۔ میں نے پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کو قریب سے دشمن سے لڑتے ہو ئے دیکھا ہے۔ دشمن کی توپوں ‘ٹینکوں کی گولہ بازاری اور آر آر گنوں کی گولیوں کی بوچھاڑ، آسمان سے چیختے چنگھاڑتے گرجتے دشمن کے جنگی اور بم با ر طیاروں کی ہولناک بم با ر ی آنکھوں سے دیکھی اور کانوں سے سنی ہے ۔اس وقت کے لاہور کے شہریوں میں سے جنہوں نے6 ستمبر کی صبح ہما رے ایک فائٹر کی سائونڈ بیریئر توڑنے کی آ واز سنی تھی‘ اس چنگھاڑ کو اپنے تصور میں لائیں اور پھر سوچیں کہ میدان جنگ میں کیا حالت ہو تی ہو گی ۔ 
23ستمبر کو فائر بندی کی صبح کھیم کرن کے چا روں طرف جلے ہوئے بھا رتی ٹینک اور سینکڑوں بھا رتیوں کی لاشیں پڑی تھیں۔ بھارتی فوجی اس طرح ننگے پائوں بھاگے کہ اپنے بوٹ مورچوں میں ہی چھوڑ گئے۔ میں نے خود اپنی آنکھوں سے بھارتی فوج کے مورچوں میں فوجی لانگ بوٹ مع جرابوں کے پڑے ہو ئے دیکھے ۔ ایسے ہی ایک مورچہ سے مجھے پنجابی گانوں کاایک ریکارڈ ملا '' لیاندا دیور میرے مکلا وے تے اج مینوں نچ لین دے‘‘۔ اور کھیم کرن کا وہ ڈاک بنگلہ جہاں بیٹھ کر بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے 6 ستمبر سے پہلے صحافیوں سے با تیں کرتے ہوئے پاکستان کو اپنی پسند کا محاذ کھولنے کی دھمکی دی تھی‘ میرے وطن کے شیر جوانوں کی قربانیوں کے نتیجہ میںمیرے قدموں کے نیچے تھا۔ میں وہاں کافی دیر بیٹھ کر ہندو کی شکست سے لطف اندوز ہو تا رہا۔ ہم لوگوں نے کھیم کرن کی گلیوں با زاروں میں گھومتے پھرتے کئی بوڑھے ہندو اور سکھ مردوں اور عورتوں کی دیکھ بھال کی۔ انہیں با قاعدہ خوراک مہیا کی جا تی رہی وہ بار بار ہم سے یہی پو چھتے کہ کیا کھیم کرن کے بعد امرتسر بھی پاکستان بن گیا ہے؟ 1965ء میں کھیم کرن کا قصبہ جہاں ختم ہوتا تھا وہاں ولٹوہا کو جانے والی سڑک کے بائیںطرف ایک سگریٹ ساز کمپنی کا اشتہاری بورڈ لگا ہوا تھا جو میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ افسوس کہ اس وقت میرے پاس کیمرہ نہیں تھا ورنہ میں یہ یاد گار تصویر اتار لیتا۔ انچاس سال گزرنے کے با وجود وہ اشتہاری بورڈ آج بھی میری نظروں کے سامنے گھوم رہا ہے جس پر لکھا ہوا تھا: 
''لیمپ کہو یا تار‘ سگریٹ ہے بہت مزے دار‘‘ ... (ختم) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں