جب سنا کہ قومی اسمبلی کے ایوان میں ایک وزیر نے افواج پاکستان کے بجٹ اور فوجیوں کو ملنے والی مراعات پر سوالات اٹھائے ہیں تو 2 نومبر 1982ء کا وہ منظر یاد آ گیا جب انہی وزیر صاحب کے والد گرامی کو جنرل ضیاء الحق نے پارلیمنٹ( مجلس شوریٰ) کا رکن نامزد کیا تھا تو اسی ایوان میں انہوں نے بھی اسی طرح ہاتھ بلند کر کے بلند آواز میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا تھا: ''پاکستان میں فوج کے کردار کا تعین آئین کی نفی نہیں بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ فوج کو جو اختیارات ملے ہوئے ہیں‘ ان میں مزید اضافہ کیا جائے‘‘۔ میرا خیال یہ ہے کہ اگر ناقدین سیاست میں آنے سے پہلے اپنے مالی معاملات کا جائزہ لیں اور سیاست میں آنے کے بعد اس سے اٹھائے گئے مفادا ت اور حکومت میں ہونے کی وجہ سے اپنی اور اپنے خاندان کے افراد کو ملنے والی نئی اور پرانی سب مراعات کو سامنے رکھیں تو ہو سکتا ہے کہ اس کے بعد انہیں کسی سے نظریں ملانا تو بہت دور کی بات نظریں اٹھانے کی بھی ہمت نہ ہو سکے۔فوج اور حکومت کا رشتہ کیا ہوتا ہے اور فوج کے بارے اسلامی مملکت کے حکمرانوں کے خیالات کیا ہوتے ہیں؟ اس سوال کے جواب کے لیے اسلامی تاریخ پر نظر ڈالنا پڑے گی۔ اس سلسلے میں ہم سب کی رہنمائی کے لیے حضرت علی
مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کا مصر کے گورنر مالک اُشتر کے نام لکھا گیا خط انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ حضرت علیؓ نے گورنر مصر کولکھا تھا: ''اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہماری افواج اﷲ‘ سلطنت اسلامیہ اور رسول اﷲ کا کلمہ پڑھنے والے مسلمانوں کے لیے ناقابل تسخیر قلعے کا درجہ رکھتی ہیں‘ اس لیے ہماری فوج کو مملکت کے لیے باوقار ہونا چاہیے۔ اسلامی فوج امن کیلئے ایک جیتی جاگتی علامت ہے اور مسلمانوں کو اس کے سائے میں پھلنے پھولنے کاموقع ملتا ہے۔ اسلامی فوج کے تمام اخراجات اﷲ کے حکم سے حاصل کئے گئے ٹیکسوں کی ان رقوم سے پورے کیے جائیں‘ جن میں خدا نے پہلے سے ہی مسلمانوں کے ان محافظوں کا حصہ مقرر کر دیا ہے۔ ان سپاہیوں کی تمام پیشہ ورانہ ضروریات پوری کرنے اور انہیں ہر طرح کے ہتھیاروں سے لیس کرنے کے اخراجات بھی اسی فنڈسے پورے کیے جائیں تاکہ وہ اﷲ کی راہ میں انصاف کی بالا دستی کیلئے اپنا جہاد بخوبی جاری رکھ سکیں‘‘۔
اپنے خط میں حضرت علیؓ نے مزید لکھا: ''جہاں تک فوج کے افسران کا تعلق ہے‘ ان کا اﷲ اور اس کے رسولؐ سے مخلص ہونا بے حد ضروری ہے۔ اگر یہ افسران کسی اعزاز کے مستحق ہیں تو ان کو یہ اعزاز دینے میں کسی قسم کی سستی مت کرو اور ان کی چھوٹی چھوٹی خواہشات کو کبھی رد نہ کرنا‘ ان کی بہادری اور دلیری کی تعریف کرنے میں کبھی بخل سے کام نہ لینا۔ ان کی تعریف و توصیف اور ان کی بہادری کے کارناموں کو بار بار دہرانے سے فوج کے کمزور شعبوں میں خود کو مضبوط اور توصیف کے لائق بنانے کا جذبہ پیدا ہو گا۔ یہ کبھی نہ سوچنا کہ ان کے بڑے بڑے مسائل حل کرنے کے بعد ان کی کسی چھوٹی سی خواہش کو رد کر دیا جائے۔ اسلامی افواج کو دی جانے والی تنخواہیں اور مراعات اس قدر پر کشش ہونی چاہئیں کہ ان کو اپنے بچوں اور خاندان کے دوسرے افراد کی دیکھ بھال کرنے میں پریشانی نہ ہو۔ یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنا کہ فکر معاش سے آزاد سپاہی اﷲ کی راہ میں بھر پور جہاد کرتا ہے اور اس کی یہی یکسوئی اسے انجانی طاقت سے سرفراز کرتی ہے‘‘۔
اب آیئے اس غلط فہمی کا ازالہ بھی کردیں کہ فوجی افسروں کو کیا مراعات ملتی ہیں۔ فرض کریں کہ فوج اور سول سروس میں دو افراد ایک ساتھ ملازمت اختیار کرتے ہیں۔ فوج میں کمیشن حاصل کرنے والوں میں سے بمشکل بیس فیصد بریگیڈیئر اور تین فیصد لیفٹیننٹ جنرل کے رینک تک پہنچتے ہیں‘ باقی چالیس اور پچاس سال کی عمر تک پہنچنے پر ریٹائر کر دیئے جاتے ہیں یا وہ خود ریٹائر ہو جاتے ہیں‘ ان کے مقابلے میں سول سروس میں ریٹائرمنٹ کی عمر ساٹھ سال ہے‘ گریڈ سترہ سے ان کو اپنے اور خاندان کے استعمال کے لیے سرکار کی جانب سے گاڑی مل جاتی ہے جبکہ سیکنڈ لیفٹیننٹ سے میجر تک یہ سہولت نہیں۔ دوسرا فوجی افسران بیس سے تیس سال کی سروس کے بعد ریٹائر ہوتے ہیں جبکہ سول سرونٹ ساٹھ سال کی عمر تک نوکری کرتے رہتے ہیں۔ فوج کے افسران کی بہت بڑی اکثریت جب میجر یا کرنل کے رینک تک ریٹائر کر دی جاتی ہے تو اس وقت ان کے تعلیم حاصل کرنے والے بچے بمشکل ہائی سٹینڈرڈ یا کالج کی سطح تک پہنچے ہوتے ہیں۔ اس وقت ان کے تعلیمی اخراجات ان کی پنشن سے بھی زیا دہ ہوتے ہیں۔ تعلیمی اخراجات اور ان کی شادیوں کے اخراجات کا بوجھ ان کو حاصل مراعات سے زیادہ ہوتا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ فوجی افسران کو مختلف سکیموں میں جو پلاٹ ملتے ہیں وہ مفت میں نہیں ملتے‘ اس کی تنخواہ میں سے ہر ماہ قسطوں کی صورت میں باقاعدہ کٹوتی ہوتی ہے۔ میں لاہور میں ایک ایسے ریٹائرڈ میجر جنرل کو جانتا ہوں جس کے گھر کے کمروں میں نصب ایئر کنڈیشنڈ ہر کمرے میںباری باری چلائے جاتے ہیں کیونکہ وہ بجلی کے زائد بل ادا کرنے کے متحمل نہیں۔
افواج پاکستان ریاست کا ایک منظم ادارہ ہے جو ہماری سرحدوں کا محافظ ہے۔ ضروری ہے کہ اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے محتاط رہا جائے اور جو بات بھی کی جائے‘ ٹھوس دلائل کی بنیاد پر کی جائے۔ تنقید برائے تنقید کو اچھا عمل قرار نہیں دیا جا سکتا۔