بر صغیر میں جب پاکستان اور بھارت کے نام سے دو علیحدہ علیحدہ ریاستیں وجود میں آئیں تو ہمالیہ کے مشرق میں تبت،نیپال، بھوٹان اور مغربی بنگال سے منسلک سکم کا حکمران مہاراجہ تاشی نامگیال تھا جسے متحدہ ہندوستان کی حکومت کی جانب سے چوگیال( دھرم راجہ) کا خطاب دیا گیا تھا...1972ء میں اندرا گاندھی جب بھارت کی وزیر اعظم مقرر ہوئیں تو انہوں نے بھارت کی خفیہ ایجنسی را کو یہ خصوصی فرض سونپا کہ وہ سکم میں بھارت نواز جمہوری حکومت کو اقتدار میں لانے کی کوشش کرے ۔اندرا گاندھی نے اس سلسلے میں را کو خصوصی طور پربے تحاشہ سیکرٹ فنڈز دیئے ۔تین سال کی لگاتا ر کوششوں کے بعد بھارت کی خفیہ ایجنسی را26 اپریل1975ء کو سکم کی خود مختاری ختم کرانے کے بعد اسے بھارت کا باقاعدہ22 واں صوبہ بنانے میں کامیاب ہو گئی ۔لوگ حیران ہوتے تھے کہ ایک چھوٹی سی پہاڑی ریاست کے پیچھے بھارت ،عالمی رائے عامہ کی مخالفت کیوں مول لے رہا ہے؟۔ شاید اس وقت تک عالمی رائے عامہ بھارت کو جانتی نہیں تھی ۔سب کی آنکھیں اس وقت کھلیں جب بھارت نے اپنے ہی پیدا کردہ بنگلہ دیش کی طرف سکم سے آنے والے ٹیسٹا دریاکے پانی کو روک کر اس پرپچاس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے والے30 ہائیڈل پاور اسٹیشن لگانے کیلئے با قاعدہ پیپر ورک شروع کر دیا۔۔۔۔جنرل ضیا الحق نے کہا تھا کہ سیا چن پر تو گھاس بھی نہیں اگتی لیکن یہ کہتے ہوئے وہ بھول گئے تھے کہ جس کے پاس سیا چن ہو گا وہی دریائے سندھ کا کنٹرول حاصل کر سکے گااور یہی وجہ تھی کہ آج سے30 سال قبل بھارت نے سیا چن پر قبضہ کیا۔ پاکستان کہتا ہے کہ کشمیر اس کی شہ رگ ہے اور بھارت کا کہنا ہے کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے ۔ اس لیے کہ پاکستان کی طرف بہنے والے سب دریائوں کا پانی چونکہ کشمیر سے ہی نکلتا ہے اس لیے بھارت کشمیر کا مسئلہ حل کرنا تو دور کی بات ہے ،اب نام سننا بھی گوارا نہیں کرتا ۔جب چوہدری محمد علی پاکستان کے وزیر اعظم تھے تو ان سے ایک ملاقات میں پنڈت نہرو نے بظاہر مذاق کرتے ہوئے کہا تھا '' چوہدری صاحب ہم کشمیر آپ کو نہیں دیں گے ،اس لیے کہ بر صغیر پر حکمرانی کی چابی اسی کے ہاتھ میں ہوتی ہے جس کا شمال پر قبضہ ہو‘‘ بھارت کی سیاسی اور فوجی قیا دت اسی ایک بات پر قائم ہے کہ کشمیر اور سیاچن کے بغیر پاکستان کے پانیوں کی آخری امید دریائے سندھ لولا لنگڑا بن کر رہ جا ئے گا اور یہ بات وہی سمجھ سکتا ہے جو بھارت کی نیت اور فطرت کو جانتا ہو گا۔موجودہ بھارتی صدر پرناب مکھر جی نے کئی سال پہلے دوبئی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا'' ہم پاکستان سے جنگ کیوں کریں۔۔۔۔ہم اسے پانی کا محتاج کرتے ہوئے اپاہج کر دیں گے‘‘۔
فتح جنگ میں فوجی افسران کی خود کش حملے میں شہادت اور کراچی ایئر پورٹ پر حملے کی ذمہ داری بظاہر تحریک طالبان پاکستان نے قبول کر لی ہے لیکن ان حملہ آوروں سے خون منجمد کرنے والے فیکٹر ایٹ انجکشنوں کی بر آمدگی بہت سے شبہات کو جنم دیتی ہے کیونکہ یہ مارکیٹ میں دستیاب ہی نہیں ہیں اور یہ مقبوضہ کشمیر میں فرنٹ لائن پر بھارتی فوجیوں کے استعمال میں آتے ہیں یا جنگلوں میں تعینات کمانڈوز کو سانپ یا شیر کے کاٹنے سے بچانے کیلئے دیئے جاتے ہیں۔۔۔ ملک کے خفیہ ادارے اگر پرانی فائلیں دیکھیں تو ہو سکتا ہے کہ آج کی بڑھتی ہوئی دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے انہیں کوئی نئی راہ مل جائے۔۔۔۔۔بھارت کی بد نام زمانہ خفیہ ایجنسی را کا قیام1968 ء میں عمل میں آتا ہے اور اپنے کام کے آغاز میں ہی اسے ظاہر شاہ کے افغانستان کی خفیہ ایجنسی خادکی بھی بھر پور مدد اور تعاون حاصل ہو جاتا ہے جس کے ذریعے اسے پاکستان میں اپنے قدم جمانے کے آسان مواقع حاصل ہو جاتے ہیں۔1980 ء میں یہ رابطے اور بھی مضبوط ہوجاتے ہیں جب روس افغانستان پر چڑھائی کرتے ہوئے اس پر قبضہ کر لیتا ہے۔افغانستان پر روسی قبضے کے بعد روس کی کے جی بی، افغانستان کی خاد اور بھارت کی را کا ٹرائیکا آپس میں مل کر پاکستان کے خلاف با قاعدہ ،نئے اور بڑے آپریشن کا آغاز کر دیتی ہیں۔
1980ء میں بھارت کی خفیہ ایجنسی را اپنے ادارے میںدو خفیہ گروپ کائونٹر انٹیلیجنس ٹیم CIT-XاورCIT-J کے ناموں سے تشکیل دیتی ہے ۔پہلی ٹیم کے ذمے پاکستان کے اندر کارروائیاں کرنا تھا تو دوسری ٹیم کا فرض خالصتان کی تحریک کو نا کام بنانا تھا اور اس کیلئے صوبہ سرحد سے ان کے پرانے ہمدردوں ، جن سے افغانستان کی خفیہ ایجنسی خاد کے بہت ہی قریبی تعلقات تھے ،کی مدد کی گئی۔ بھارتی را کے ان دونوں ملیٹنٹ گروپوںکو یہ کڑی ہدایات تھیں کہ اپنے دوسرے فرائض کی ادائیگی کے علاوہ انہوں نے پاکستان کے اندر تخریبی کارروائیوں کو بڑھانا ہے اور 1980 ء کی دہائی میں سب نے دیکھا کہ پاکستان کے اندر جگہ جگہ بم دھماکوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ 1980ء سے مارچ1989ء تک بھارت کی را ،افغانستان کی خاد اورروس کی کے جی بی نے پاکستان میں 1617 بم دھماکے کئے جن میں890 افراد شہید اور3201 زخمی ہوئے ۔اس کے علا وہ 1980ء سے1989ء تک ان تین ممالک کی خفیہ ایجنسیوں اور سکیورٹی فورسز نے مشترکہ آپریشنز میںپاکستانی حدود کی 2730فضائی اور2599 زمینی خلاف ورزیاں کیں جن میں1355 پاکستانی شہید اور1007 زخمی ہوئے۔ اسی دوران عوامی نیشنل پارٹی کے ولی خان نے 26 فروری1986 ء کو کراچی میں تقریر کرتے ہوئے انتہائی معنی خیز جملہ کہا تھا'' کالا باغ بنانے کی کوشش کی تو یاد رکھنا کہ روس اس وقت درہ ٔخیبر پر کھڑا ہوا ہے۔ ہماری ایک ہی آواز پر وہ اٹک کے پل تک پہنچ جائے گا‘‘(نوائے وقت کراچی)۔
اس وقت حیرانی سی ہونے لگتی ہے جب اپنے ہی ملک کی خفیہ ایجنسیوں کے بارے میں عجیب طرح کی کہانیاں پینٹ کرتے ہوئے یہ تاثر ذہنوں میں بٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ان سے برا کوئی ہے ہی نہیں۔ایسے لوگوں کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ بھارتی را نے اس کام کیلئے ''SNATCH'' کے نام سے ایک علیحدہ گروپ بنا لیا ہے(اس کی مکمل تفصیل کسی اگلے کالم میں) ۔ایسے لوگ یہ جانتے ہوئے بھی اپنی زبان سے ایک لفظ نکالنا بھی گناہ سمجھتے ہیں کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی را کی سپیشل فرنٹیئر فورس کے نام سے اپنی ایک پیرا ملٹری فورس ہے جس کا سربراہ انسپکٹر جنرل رینک کے ایک ایسے ریٹائر افسر کو لگایا جاتا ہے جس نے را میں پانچ سال تک خدمات انجام دی ہو ں اور یہ فورس صرف اور صرف را کے احکامات کی پیروی کرتی ہے ۔اس وقت را کی سپیشل فرنٹیئر فورس کی کل نفری دس ہزار کے قریب ہے اور اس کی ایک بٹالین نو سو افراد پر مشتمل ہے اور ہر بٹالین میں6 کمپنیاں ہیں اور ہر کمپنی 132 افراد پر مشتمل ہے ۔اس کے علا وہ را کے پاس سات سو انتہائی تربیت یافتہ گورکھا فورس ہے جو چند لمحوں کے نوٹس پر اپنی '' کارروائیاں‘‘ بجا لاتی ہے... سپیشل فرنٹیئر فورس کے اسی گروپ نے 2000 ء میں کشمیری مجاہدین کے لباس پہن کر امریکی صدر بل کلنٹن کے پانچ روزہ دورہ بھارت سے چند گھنٹے قبل مقبوضہ کشمیر کے چٹی سنگھ پورہ میں 36 سکھوں کو قتل کر کے امریکی صدر کے دورہ کے دوران مسئلہ کشمیر پر پہلے سے طے شدہ ''ایجنڈے‘‘ کو نا کام بنا دیا تھا...!!