کچھ عرصہ قبل لاہور اسمبلی ہال کے باہر تحریک انصاف کی جانب سے لوڈ شیڈنگ کے خلاف لگائے گئے کیمپ کو دیکھتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا مینارِ پاکستان کے سامنے زرداری حکومت کے خلاف لگایا گیا احتجاجی کیمپ یاد آتا ہے ، جہاں وزیر اعلیٰ میڈیا کے ایک ہجوم کے ساتھ اپنی کابینہ کا اجلاس بھی بلایا کرتے تھے۔ یہ سلسلہ چند دنوں کے لیے نہیں تھا بلکہ لوڈ شیڈنگ کے خلاف پنجاب حکومت کا یہ احتجاج کئی ماہ تک چلتا رہا ۔اس احتجاجی کیمپ میں پنجاب کے سرکاری افسران اور اراکین اسمبلی ہاتھوں میں دستی پنکھے لئے بیٹھے رہتے تھے اور ٹی وی چینلز ان کی براہ راست کوریج کرتے تھے ۔اس احتجاجی کیمپ کے حوالے سے پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے اراکین کی ٹی وی مباحثوں میں ایک دوسرے کے خلاف بھر پور بیان بازی روز کا معمول تھی۔ اس وقت کے اخبارات اور ٹی وی کی خبروں کو سامنے رکھیں تومیاں شہباز شریف کی جانب سے ایک الزام بھر پور اور بڑی شدت سے لگایا جاتا تھا کہ آصف علی زرداری پنجاب کو اپنے حصے کی گیس اور بجلی جان بوجھ کر کم دے رہے ہیں اور لوگ ا س پر فوراََ یقین بھی کر لیا کرتے تھے ،لیکن ان کی آنکھیں اس وقت کھلیں جب نواز لیگ کی مرکز میں حکومت قائم ہوئی اور اس حکومت نے نہ صرف سردیوں میں پنجاب کے لاکھوں چولہے اور صنعتیںبند کر دیں ، بلکہ ہر ماہ بجلی اور پٹرول کی قیمتیں بھی بڑھانا شروع کر دیں۔اب گیس ، پانی اور بجلی کا بل آتا ہے تو غریبوں پر سکتہ طاری ہوجاتا ہے ۔ بجلی پر غریب اور متوسط طبقے کے عوام کو جنرل مشرف کے دور میں جو سبسڈی دی جا رہی تھی، اسے یک مشت ختم کرنے سے بجلی کی قیمتیں اس دور سے پچاس گنا زیا دہ کردی گئی ہیں۔ آٹے ،دال اور کھانے پینے کی اشیاء کا جو حال ہے ،وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ پنجاب کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک پھیلے ہوئے شہروں ،قصبوں اور دیہات میں دس سے چودہ گھنٹے تک بجلی میسر نہیں اور اس پر ظلم یہ کہ بجلی کی قیمتیں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ سب کی چیخیں نکل گئی ہیں ۔
جس وقت تحریک انصاف کی جانب سے لوڈ شیڈنگ کے خلاف لاہور اسمبلی ہال کے سامنے لگایا جانے والا کیمپ ٹی وی چینلز کی ''رونق ‘‘بن رہا تھا تو میں نے سوچا کہ کل کو اگر تحریک انصاف کی حکومت آگئی تو کیا وہ لوڈ شیڈنگ کا یہ جن قابو کر سکے گی؟ اگر وہ ایسا نہ کر سکی تو کیا تاریخ خود کو دہرانے کیلئے عوام کو ایک اور احتجاجی کیمپ کا نظارہ کرائے گی؟۔ کل جب مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی تو واپڈا کے دفاتر اور اہل کاروں کو پولیس کی موجودگی میں کھینچا اور پیٹا جاتا تھا ، ان کی گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کرنے علا وہ انہیں آگ بھی لگادی جاتی تھی ۔اس وقت دونوں جماعتیں ٹی وی چینلوں پر ایک دوسرے سے دست و گریباں رہتی تھیں لیکن حیران کن طور پر...اب جبکہ تحریک انصاف نے لوڈ شیڈنگ پر نواز حکومت کے خلاف کیمپ لگایا ہے تو پیپلز پارٹی کے لوگ اس کیمپ کا بائیکاٹ کیے ہوئے ہیں ۔ تو کیا یہ سب ''وچوں وچوں کھائی جا‘ تے اتوں رولا پائی جا‘‘ والا معاملہ ہے ؟ قارئین کو 2012 ء کے موسم گرما کا وہاڑی والا واقعہ یاد ہوگا‘ جس نے پنجاب حکومت میں بھونچال پیدا کر دیا تھا ،جب لوڈ شیڈنگ کے خلاف مظاہرہ کرنے والے ہزاروں مشتعل نوجوانوں نے پنجاب میں بر سر اقتدار مسلم لیگ نوازاور پیپلز پارٹی کے دفاتر کی توڑ پھوڑ کرتے ہوئے قائدین کی تصویریں پھاڑدیں اورانہیں پائوں تلے روندتے رہے اور پنجاب اور پی پی پی کے حکمرانوں کے خلاف یہ '' روح فرسا منا ظر‘‘ دکھانے میںہر ٹی وی چینل ایک دوسرے سے بازی لینے کی کوشش کر ر ہا تھا۔
جونہی وہاڑی کی یہ خبر عام ہوئی اور ٹی وی چینل کی بریکنگ نیوز چنگھاڑنے لگیں تو لاہور میں ایک اجلاس میں بیٹھے ہوئے اہم ترین لوگ پریشان ہو گئے کہ یہ کیا ہوگیا ہے اور پھر جناب وزیر اعلیٰ پنجاب نے عوام سے اظہار یک جہتی کے لیے لوڈ شیڈنگ کے خلاف چونگی امر سدھو میں ''احتجاجی ریلی‘‘نکالنے کا حکم جاری کر دیا۔ لاہور کی انتظامیہ اور سکیورٹی اداروں کو بتا دیا گیا کہ اس ریلی کے اختتامی جلسہ میں وزیر اعلیٰ پنجاب شرکت اور خطاب کریں گے ،چنانچہ لاہور کے تین سرکل کی پولیس اور سی آئی اے کے اہل کار بھاگم بھاگ چونگی امر سدھو پہنچنے لگے اور ہر کنٹرول روم سے ایک ہی راگ الا پا جا رہا تھا '' چونگی چلو چونگی چلو‘‘۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے اس ریلی سے خطاب کرتے ہوئے صدر زرداری کو لوڈ شیڈنگ اور پنجاب کے عوام کا کاروبار تباہ کرنے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے بہت جلد اسلام آباد کی طرف ایک بہت بڑا لانگ مارچ کرنے کا اعلان کر دیا اورٹی وی چینلز کی وساطت سے پورے پنجاب کے عوام سے شرکت کا وعدہ بھی لیا ۔ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں تخت نشین مرکزی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے
دائرہ کار میں آنے والے محکموں اور اداروں کی کار کردگی کا جائزہ لے ۔بجلی اور گیس چونکہ مرکزی حکومت کے محکمے ہیں اس لیے اگر گیس یا بجلی کی کمی ہو گی ،تیل اور ڈیزل کی قیمتیں بڑھیں گی ،ملک کی چھوٹی بڑی صنعتوں کا پہیہ رک جائے گا ، صنعتیں بند ہونے سے ملک بھر کی مارکیٹیں خالی ہو جائیں گی ، کاروبار تباہ ہو کر رہ جائیں گے تو اس کا ذمہ دار مرکز میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہوگی اور پھر میاں شہباز شریف نے لوڈ شیڈنگ کے خلاف مسلسل احتجاج کرنے کے لیے لاہور مینار پاکستان پر احتجاجی کیمپ لگانے کا اعلان کر دیا۔
جب ہم ملکی صنعتیں بند ہونے کی بات کرتے ہیں تو لوگوں کے ذہنوں میں شاید سڑکوں کے ارد گرد لگی ہوئی صنعتوں کا ہی خیال آتا ہو گا لیکن ایسا سوچنے والے شاید نہیں جانتے کہ پاکستان کے ہر شہر کی ہر گلی میں ایک صنعت ہے ۔اگر آپ صرف گوجرانوالہ، وزیر آباد، گجرات اور سیالکوٹ کو ہی لے لیں تو آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ ان گھریلو صنعتوں کی تعداد پچاس ہزار سے بھی زائد ہے ۔صرف گوجرانوالہ میں ہر گلی میں دس سے بیس گھریلو صنعتیں نظر آئیں گی جو بجلی کی تباہ کن لوڈ شیڈنگ سے تباہ ہوگئی ہیں ۔صلاح الدین ایوبی نے کہا تھا کہ اگر روٹی کی قیمت مزدوری سے زیادہ ہو جائے تو عورتیں اپنی عزتیں بیچنا شروع کردیں گی اور مرد بے غیرت ہو جائیں گے۔ بد قسمتی سے اس ملک میں آج ایسا ہی ہو رہا ہے۔