"MABC" (space) message & send to 7575

ارسلان افتخار کی تقرری…(آخری قسط)

2006ء میں ٹی سی سی نے نہ چاہتے ہوئے ریکو ڈک سے نیم دلی سے پروڈکشن شروع کرا نے کی ہامی بھری ہی تھی کہ بلوچستان پی پی ایل کالونی سوئی میں ایک ڈرامہ کرا دیا گیا۔ اکبر بگٹی نے بلوچستان میں موجود تمام غیر ملکی کمپنیوں کو وارننگ دے دی کہ وہ بلوچستان کے وسائل لوٹنے میں حصہ دار مت بنیں اور ساتھ ہی چار مختلف منصوبوں پر کام کرنے والے چینی انجینئرز کو ہلاک کرنا شروع کر دیا ۔ بغاوت اس حد تک پھیل گئی کہ ملکی تنصیبات نشانہ بننے لگیں ۔ تب فوج کو‘ بغاوت کچلنے کیلئے آنا پڑا۔ اکبر بگٹی مارے گئے‘ سب کام بند کرا دیئے گئے۔ اس کے بعد جنرل مشرف کے خلاف تحریک کا کھیل شروع ہوا۔ قومی املاک کو تباہ کیا جانا معمول بن گیا۔ تب ساتھ ہی اندرون خانہ مائننگ کی دنیا کی سب سے مشہورو معروف کمپنیوں چلی کی''Antofagasta'' اور کینیڈا کی''Barrick Gold Corporation" نے ٹی سی سی کو حاصل تمام حقوق حاصل کرلیے۔ حقوق حاصل کرتے ہی ان کمپنیوں نے اعلان کر دیا کہ ٹی سی سی کی تیار کردہ فیزیبلٹی رپورٹ اور اب تک اس نے جوکام مکمل کیا ہے اس کی بجائے ہم آزادانہ کام کرتے ہوئے تیس ملین ڈالر کی لاگت سے نئے سرے سے کام کریں گے اور ٹی سی سی کی تیار کر دہ فزیبلٹی رپورٹ اور ان کے اب تک کے کیے گئے کام سے ہمارا کوئی تعلق اور سروکار نہیں ہو گا۔اس بدمعاشی کا اصل مقصد یہ تھا کہ ''BHP'' اور''TCC'' نے اب تک جو کام کیا ہے‘ معاہدے کے مطابق حکومت بلوچستان اس کا25فیصد ادا کرے اور وہی کام جو اب چلی اور کینیڈا کی یہ دو کمپنیاں کریں گی‘ اس کا بھی پچیس فیصد وصول کیا جا ئے گا۔۔۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹی سی سی نے ان کمپنیوں کو رپورٹ دے دی تھی کہ ریکو ڈک میں وسیع پیمانے پر تانبے اور سونے کے ذخائر کے علاوہ انتہائی قیمتی اور نایاب دھات ''Molybdenum'' کے ذخائر موجود ہیں اور امریکی اسی رپورٹ کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے۔ با وثوق ذرائع یہ بھی کہتے ہیں کہ ٹی سی سی نے یہ رپورٹ کبھی بھی حکومت بلوچستان کو فراہم نہیں کی۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ امریکہ کے ہاتھ کس طرح جا پہنچی؟ ۔حکومت بلوچستان اگلے تین سال اپنی جگہ سوئی رہی جبکہ نئی داخل ہونے والی دونوں کمپنیوں نے نئی فزیبلٹی رپورٹ کے نام پر بھاری اخراجات پیش کر دیئے اور2008ء میں انہوں نے حکومت کو کہا کہ اس رپورٹ کی تیاری میں ہمارے بائیس کروڑ ڈالر خرچ ہو چکے ہیں۔ جب یہ بل پیش ہوا تو جنرل مشرف اس وقت صدر تھے‘ ان کے نوٹس میں یہ بات آئی تو انہوں نے اس پر جواب طلبی کرتے ہوئے حکومت بلوچستان سے پوچھا کہ ہمیں صرف کروڑوں ڈالروں کے بل دکھائے جا رہے ہیں لیکن پراجیکٹ وہیں کا وہیں پر ہے‘ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ''کچھ طاقتیں‘‘ چاہتی ہیں کہ گوادر پورٹ کی طرح بلوچستان کے سونا‘ تانبا اور دوسری انتہائی قیمتی اور کمیاب معدنیات کے ذخائر پر ہمیشہ کی طرح دبیزپردہ پڑا رہے۔ پھر میثاق جمہوریت کے تحت اقتدار میں آنے والی دونوں جماعتوں کو اشارہ کر دیا گیا کہ جنرل مشرف کو فارغ کر دیا جائے۔ 
کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے حساس اداروں نے ملک کی سلامتی اور موجودہ معاشی صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت کو مشورہ دیا کہ قدرت کی طرف سے عطا کیے گئے ان ذخائر پر بھر پور توجہ دی جائے جس پر بلوچستان کی کابینہ نے متفقہ طور پر 24 دسمبر 2009ء کو فیصلہ کرتے ہوئے ریکوڈک پراجیکٹ پر سنجیدگی سے کام کرنے کیلئے ایک بورڈ آف گورنر تشکیل دیا جس کی سربراہی ملک کے مایہ ناز ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مند ممبر پلاننگ کمیشن کو سونپ دی گئی۔ اب تک ریکو ڈک میں بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی طر ف سے جو دو بنیادی غلطیاں کی گئی ہیں ان میں ''TCC کو آسٹریلین سٹاک ایکسچینج میں رجسٹر ہونے کی اجازت اور اور ایکسپلوریشن لائسنس کی بار بار تجدید‘‘ شامل ہیں۔ بلوچستان حکومت کو چاہئے تو یہ تھا کہ جب ''منکور کمپنی‘‘ ٹی سی سی کو ریکو ڈک معاہدے کے مکمل اختیارات منتقل کر رہی تھی تو بجائے آسٹریلین سٹاک ایکسچینج کے اسے پاکستان کی سٹاک ایکسچینج میں رجسٹر ہو نے کا پابند کرنا چاہئے تھا لیکن ٹی سی سی کی غیر ملکی سٹاک ایکسچینج کی رکنیت کی وجہ سے حکومت بلوچستان اس پر کسی بھی قسم کا دبائو ڈالنے کے حق سے محروم ہو گئی۔ ٹی سی سی کا کہنا ہے کہ جب بی ایچ پی آسٹریلیا نے یہاں سے جانے کا فیصلہ کیا تو اس نے حکومت بلوچستان کو کہا کہ معاہدے کے مطابق ان کے 75فیصد حصص حکومت بلوچستان حاصل کر لے لیکن ہم نے وسائل نہ ہونے کی وجہ سے معذوری ظاہر کر دی جس پر یہ حقوق ٹی سی سی کو منتقل ہو گئے جسے بلوچستان ہائیکورٹ بھی کنفرم کر چکی ہے۔ دوسری غلطی یہ ہوئی کہ2000ء میں جب اس معاہدے کی تجدید ہو رہی تھی تو حکومت کی طرف سے ایک شق رکھی گئی تھی کہ اگر کمپنی اپنے مالی حقوق کسی دوسری کمپنی کو منتقل کرے گی تو حکومت بلوچستان کو اختیار ہو گا کہ وہ اپنے مالی حصے کو بھی بڑھا سکے گی۔۔۔۔لیکن جب ٹی سی سی نے اپنے حقوق چلی اور کینیڈا کی کمپنیوں کو منتقل کئے تو کسی نے بھی اس طرف دھیان دینے کی کوشش نہیں کی۔ دوسری طرف ٹی سی سی کی بیلنس شیٹ دیکھیں تو ان کے مطابق مارچ2010ء تک وہ400ملین ڈالر اس پراجیکٹ پر خرچ کر چکی ہے۔ جس میں تیرہ کروڑ روپے اس نے صرف اس علاقے کی بہتری اور دوسری سہولتوں کی فراہمی پر خرچ کرنے کے علا وہ19ملین ڈالر حکومت بلوچستان کو مختلف ٹیکسوں کی صورت میں ادا کیے ہیں۔
PDD'sکے مطابق2008ء میں ریکوڈک میں ''76بلین ڈالر‘‘ کے ذخائر تھے جو عالمی مارکیٹ میں قیمتوں کے بڑھنے سے اب''130بلین ڈالر‘‘ ہو چکے ہیں۔۔۔کہا جاتا ہے کہ اگلے چند سال میں عالمی تجارتی لین دین میں ڈالر کی بجائے سونا '' متبادل کرنسی‘‘ کے طور پر سامنے آنے کا امکان ہے اور جس کے پاس سونے کی بہتات ہو گی وہی '' مضبوط‘‘ ہو گا۔اس کے علا وہ ریکوڈک میں دنیا کی ایک انتہائی قیمتی اور نایاب دھات ''Molybdenum'' کے بیش بہا ذخائر کی موجودگی کی توثیق ہو چکی ہے اور ''یہ کمیاب قیمتی دھات‘ طیارہ سازی‘ میزائل اور سپیس کی صنعتوں میں استعمال کی جاتی ہے‘‘۔ غالباً یہ وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں کہ آج کی طرح مستقبل کے مختصر اور جدید ترین تباہ کن ہتھیاروں کیلئے بھی یہ دھات سونے سے کئی ہزار گنا زیا دہ قیمتی ہوگی! 
مندرجہ بالا حقائق کو پڑھنے کے بعد اب ان لوگوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں جو آزاد عدلیہ کی تحریک کے دوران چار چار روز ٹی وی پر نگاہیں جمائے بیٹھے رہے کہ شاید یہ سب صرف اور صرف عوام اور ملک کے مفاد کے لیے کیا جا رہا ہے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں