وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید اور پنجاب کے وزیر قانون رانا مشہود فرماتے ہیں کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کو پولیس کو حکم عدولی پر اکسانے جیسے سنگین جرم پر غداری کے مقدمات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسے کہتے ہیں دوسرے کی آنکھ کا بال نظر آجانا لیکن اپنی آنکھ کا شہتیر نظر انداز کر دینا۔۔۔حضور! ایسا ہی جرم جو آپ سے سر زد ہوا کیا آپ بھول چکے ہیں؟ وہ کوئی دس پندرہ سال کا پرانا قصہ بھی نہیں ہے جو آپ کو یاد نہ رہا ہو؟ اگر ذہن پر تھوڑا سا بھی زور دیں تو اسے گزرے ا بھی بمشکل پانچ سال ہوئے ہیں۔ آپ کی کہی ہوئی وہ بات جو آپ کو یاد دلانے کی کوشش کررہا ہوں آپ نے یہ تیس ہزار سے زائد افراد کے مجمع میں انتہائی بلند آواز میں شیر کی طرح گرجتے ہوئے اور زرداری صاحب پر برستے ہوئے کہی تھی‘ یاد کریں۔ 2009ء کا شیخوپورہ کا کمپنی باغ‘ جب سپریم کورٹ نے آپ کو اور شہباز شریف کو نااہل قرار دیتے ہوئے پنجاب میں آپ کی حکومت ختم کر دی تھی تو صدر مملکت زرداری صاحب کے ایک حکم کے ذریعے پنجاب میں گورنر راج نافذ کر دیا گیا تھا۔ اس جلسہ عام میں آپ کے کہے گئے الفاظ کو 80 سے زائد لائوڈ سپیکروں کے جھرمٹ میں کھڑئے تیس ہزار سے زائد لوگ سن رہے تھے۔ وہ جمعرات کا دن تھا اور آپ کے یہ فرمودات اس ملک کے تمام ٹی وی چینل اندرون اور بیرون ملک کروڑوں لوگوں کو براہ راست دکھا اور سنا رہے تھے۔ آپ نے کمپنی باغ شیخوپورہ کے اس جلسہ عام میں بھر پور تالیوں کی گونج میں فرمایا تھا ''میں کسی عدالت کے حکم کو نہیں مانتا۔ میں نے شیخوپورہ آنے سے پہلے شہباز شریف کو حکم جاری کر دیا ہے کہ وہ ابھی بھی پنجاب کا وزیر اعلیٰ ہے اور وہ میرے شیخوپورہ پہنچنے سے پہلے لاہور میں پنجاب اسمبلی پہنچ کر اسے اپنے قبضے میں لیتے ہوئے بطور وزیر اعلیٰ پنجاب کام جاری رکھے اور آج اس جلسے میں پاکستان کی تمام بیوروکریسی کو حکم جاری کرتا ہوں کہ وہ شہباز شریف کو ہی پنجاب کا اصلی وزیر اعلیٰ سمجھیں۔ وہ گورنر راج کے نتیجے میں سلمان تاثیر اور آصف علی زرداری کی حکومت کے جاری کردہ کسی بھی حکم کو ماننے سے قطعی انکار کر دے اور اگر کسی نے شہباز شریف کا نہ حکم ما نا تو میں اس کو الٹا لٹکا دوں گا۔ پولیس اور انتظامیہ سے تعلق رکھنے والے‘ جو میری بات مان کر زرداری کا حکم ماننے سے انکار کرنے پر معطل کئے جائیں گے انہیں میں اپنے ہاتھوں سے بحال کرتے ہوئے بہترین پوسٹنگ دوں گا‘‘۔۔۔۔ پھر سب نے دیکھا کہ پاس ہی کھڑا پولیس کا ایک کانسٹیبل اچھل کر میاں نواز شریف کے پاس پہنچا اور اپنے سر سے پنجاب پولیس کی ٹوپی اور کمر سے بیلٹ اتار کر نواز شریف کے قدموں میں پھینکی اور نواز شریف زندہ باد کے نعرے لگانے لگا۔ جس پر میاں نواز شریف نے اسٹیج پر بلاکر اپنے گلے لگاتے ہوئے اس کا ماتھا چوما اور پھر اس کے گلے میںگلاب کے پھولوں کابہت بڑا ہار ڈالتے ہوئے سٹیج پر کھڑے قریبی لوگوں اور مجمع کو اس کے حق میں نعرے اور تالیاں بجانے کا حکم جاری کیا۔ پھر سب نے یہ بھی دیکھا کہ اگلے ہی دن اس کانسٹیبل کو‘ حکم عدولی کے مجرم کو‘ انہوں نے اپنے پاس رائے ونڈ بلا کر ذاتی سکیورٹی سٹاف میں رکھ لیا‘‘۔ اگر قادری اور عمران خان کا پولیس سے غیر قانونی حکم نہ ماننے کی اپیل کرنا غداری اور بغاوت ہے۔ تو جناب والا پھر یہ سب کیا تھا؟ آج آپ ریفرنس بھیجنے اور مقدمات چلانے کی بات کرتے ہیں لیکن اگر آپ کے خلاف زرداری حکومت نے سرکاری ملازمین کو حکومت کے خلاف اُکسانے پر کوئی مقدمہ درج نہیں کیا تھا تو اس کی وجہ کیا تھی؟۔اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تین رکنی بنچ پر غصہ نکالنے پر آپ کے خلاف کسی طرف سے بھی توہین عدالت کا بلاوا نہ آیا ورنہ یہاں تو رواج ہے کہ ایک شعر پڑھنے پر با بر اعوان کا لائسنس معطل کر دیا جاتا ہے اور عمران خان کو شرم کا لفظ استعمال کرنے پر عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کر لیا جاتا ہے۔
اب بات سے بات نکلی ہے تو یہ کہتے ہوئے مجھے بھی بہت شرمساری ہو رہی ہے کہ کراچی ایئرپورٹ پر دہشت گردوں کے حملے کے نتیجے میں گودام اور سٹور میں سات افراد کی ہلاکت پر انتظامیہ کے خلاف سپریم کورٹ کی جانب سے پندرہ دن بعد سو موٹو ایکشن لے لیا گیا ہے لیکن 16/17 جون کو گزرے بائیس سے زیا دہ دن گزر چکے ہیں اور۔۔۔ لاہور منہاج القران میں ایک ہی گھر کی دو خواتین کو چہرے پر برسٹ مار کر ہلاک کر دیا جاتا ہے‘ ان کے علا وہ بارہ دوسرے افراد کو سرعام قتل اور83 بے گناہ افراد کو گولیاں مار کر اپاہج بنا دیا جاتا ہے لیکن ابھی تک کوئی سو موٹو نہیں لیا گیا؟
ماڈل ٹائون آپریشن ایسے موقع پر کیا گیا جب قوم دہشت گردوں کے خلاف یکسو ہو رہی تھی۔ اس پر کسی نے پنجاب حکومت پر نوٹس نہیں لیا۔ الٹا جنہوں نے ظلم کیا انہوں نے ہی ایک ٹربیونل بنا دیا۔ یعنی وہی لوگ جو پہلے سپریم کورٹ کو بات بات پر نوٹس لینے کا کہتے تھے‘ اب انہوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کرنامناسب نہ سمجھا۔ جو چودہ بے گناہ لوگ پولیس گردی کا شکار ہوئے آج بھی ان کے ورثا نوحہ کناں ہیں اور لواحقین یہ پوچھتے ہیں کہ ان کا جرم کیا تھا۔ آخر ملک کی سب سے بڑی عدالت نے ان کے زخموں پر پھاہا کیوں نہ رکھا۔ کیوں ان پر ہونے والا ظلم اس ملک کے منصفوں کو نظر نہیں آیا۔ وہ گلو بٹ جس نے پولیس کی سربراہی میں توڑ پھوڑ کی‘ ایک دن وہ رہا ہو کر ملک کا وزیر بنے گا اور ہم کسی چوک میں رک کر اس کے گزرنے کا انتظار کر رہے ہوں گے۔ اس کو پولیس پہلے بھی شہ دے رہی تھی اور آج بھی دے رہی ہے۔ اس ملک میں گلوبٹوں کی عزت ہی رہ گئی ہے۔ عام آدمی کی حالت نہ کسی حکمران کو نظر آتی ہے نہ عدالتوں کو۔ وہ این جی اوز جو خواتین پر معمولی ظلم پر چیخ اٹھتی تھیں وہ بھی خاموش رہیں۔ انہیں بھی دو خواتین پر ہونے والی بربریت نظر نہ آئی۔ پنجاب کے یہی حکمران اگر پرویز الٰہی یا محمودالرشید ہوتے تو مسلم لیگ ن نے آسمان سر پر اٹھا لینا تھا اور اس پر عدالتوں نے از خود نوٹس بھی لے لینا تھا۔
عمران خان اور طاہر القادری نے پنجاب پولیس سے کہا کہ وہ غیر قانونی حکم مانتے ہوئے کسی پر گولی مت چلائیں ۔شہباز شریف کی حکومت کے کہنے پر سیا سی کارکنوں پر ظلم و تشدد سے گریز کریں اور اگر کسی نے سیاسی ورکروں پر گولی چلائی اور اس کے نتیجے میں کوئی سیا سی ورکر مارا گیا تو پولیس کے وہ ملازمین جو عوام کا خادم اور عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہ پاتے ہیں‘ پھانسی کے حق دار ہوں گے اور انہیں ان کی حکومت خود اپنے ہاتھ سے پھانسی پر لٹکائے گی ۔۔۔۔جناب والا خود ہی بتا دیں کہ الٹا لٹکانے اور پھانسی لگانے میں کیا فرق ہے؟۔آ پ کو ایک اور بات یاد کرا دوں کہ شاہدرہ کے کسی گٹر میں ایک بچہ گر مر گیا تو آپ نے اوور سیئر، ایس ڈی او کے علا وہ ایک ایسے دیانت دار اور نیک نام واسا کے ڈائریکٹر کو بھی ساتھ ہی گرفتارکرادیا‘ جس کا جرم وہ گٹر نہیں بلکہ یہ تھا کہ اس کا فوج سے بحیثیت بریگیڈیئر ریٹائر ہونے والا ایک عزیز چند دن پہلے تحریک انصاف میں شامل ہونے کا جرم کر بیٹھا تھا۔۔۔اب یہ کیسا انصاف ہے کہ شاہدرہ کے گٹرمیں گر کر ہلاک ہونے والے بچے کی ذمہ داری ڈائریکٹر بھلی پر لیکن12 مرد اور2 عورتوں کو براہ راست کلاشنکوفوں کے برسٹ برسا کر شہید اور83 افراد جن میں عورتیں بچے اور بوڑھے شامل ہیں ان کو نشانے با ندھ باندھ کر گولیاں مارنے والوں کی ذمہ داری غصے میں آ کر بہکنے والے چند ایلیٹ فورس کے جوانوں پر؟۔