یہ غلط فہمی ہے کہ ایک سال سے بھارتی فوج کی جانب سے شکر گڑھ سیالکوٹ اور کشمیر سیکٹر کے پاکستانی علاقوں میں مسلسل کی جانے والی گولہ باری معمول کی سرحدی خلاف ورزیوں کا حصہ ہے۔ بھارت کی طرف سے پاکستان کی سرحدی چوکیوں پر گزشتہ چھ ماہ کی فائرنگ کا عمیق نظروں سے جائزہ لیا جائے تو پھر اصلیت کا پتہ چلے گا۔ ''شکر گڑھ سیکٹر‘‘ پر بھارتی فائرنگ کو قریب سے دیکھنا ہو گا۔ حالات بتا رہے ہیں کہ مستقبل میں بھارتی جارحیت کی صورت میں یہ سیکٹر انتہائی اہمیت کا حامل ہو گا۔ پاکستان سے نفرت آمیز دشمنی کی آگ میں جلنے والے تین اہم افراد‘ بھارت کے کلیدی عہدوں پر براجمان ہو گئے ہیں۔ ان میں بھارت کے نئے آرمی چیف جنرل دلبیر سنگھ سہاگ ،راشٹریہ سیوک سنگھ کے انتہا پسند (پردھان منتری) نریندر مودی اور ان کے نئے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اجیت ڈوول شامل ہیں۔ پالیسی سازوں کو فیصلے کرتے وقت اس تگڑم (تین کا ٹولہ) کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ انگریزی میں کہا جاتا ہے کہ''Action Speaks'' اور اس کیلئے پاکستان کو نئے بھارتی آرمی چیف کی مقبوضہ کشمیر میں حکمت عملی ، نریندری مودی کے انتہائی عجلت اور کم عرصے میں کئے جانے والے اقدامات اور اجیت ڈوول کے 1986ء سے 2005ء کے ماضی کے عبارانہ کاموں کو بغور دیکھنا ہو گا۔ اگر بھارت جلدی میں ہے تو ہمیں بھی ہر دم ہر وقت ہوشیار اور تیار رہنا ہو گا۔
نریندر مودی کی صرف پہلے تیس دن کی کار کر دگی دیکھیں تو یہ پاکستان کیلئے لمحہ فکریہ اور ملک کی سیاسی، سفارتی اور خاص طور پر عسکری قوتوں کیلئے خصوصی طور پر بھارت کے حالیہ اقدامات الارمنگ صورت حال کا درجہ رکھتے ہیں۔
1ـ۔بھارت کی وزارت دفاع نے نریندری مودی اور بھارتی فوج کے حکم پر سب سے پہلے چین کو واضح اور سخت پیغام دینے کیلئے کسی بھی قسم کی پروا کئے بغیر چین اور بھارت کے متنازع علاقوں کے ساتھ ساتھ اور وہاں تک پہنچنے کیلئے تیز ترین نقل و حمل کی جدید سہولیات سے مزین نئی ہائی وے قسم کی سڑکیں بنانے کی منظوری دیتے ہوئے محدود مدت میں ان کی تکمیل کرنے کیلئے بھاری فنڈز بھی جاری کر دیئے ہیں۔
2۔بھارت اور چین سے ملحقہ سرحدی علا قوں میں بھارتی فوج کی 50 نئی سرحدی چوکیاں تعمیر کرنے کی با قاعدہ منظوری دے دی گئی۔
3۔بھارت کی فوجی تاریخ میں پہلی مرتبہ2 بلین ڈالر کی لاگت سے اس کے جنوبی صوبے کرنا ٹک کی''کروار نیول بیس‘‘ کی توسیع کی جا رہی ہے تاکہ ممبئی کی بندرگاہ کو جو اس وقت تجارتی اور نیوی کے جہازوں کے استعمال میں ہے‘ صرف فوجی استعمال کیلئے مخصوص کر دیا جائے ان کا مقصد شائد یہ ہے کہ اس طرح کراچی کی طرف اس کی توجہ زیا دہ مرکوز رہے گی۔
4۔خلیج بنگال میں دور دور تک کسی بھی قسم کی نقل و حرکت کی لمحہ بہ لمحہ خبر رکھنے کیلئے جزائر انڈیمان اور''نکوبار‘‘ میں راڈار سٹیشن قائم کرنے کی منظوری دے دی گئی ہے اس سے بھارت کی سمندری نقب زنی کے عزائم کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
5۔نریندرمودی کی جنگی تیا ریاں کہہ لیں یا بھارت کی مسلح افواج کی دفاعی اور فوجی صلاحیتیں بڑھانے کے اقدامات‘ ہوش رکھنے والوں کیلئے تشویشناک ہیں۔ اس طرح کے جنگی اقدامات عام حالات میں کبھی نہیں کئے جاتے۔ اسی لئے مودی سرکار کا یہ حکم خطرے کی گھنٹی ہے جس میں اس نے حکم جاری کر دیا ہے کہ بھارت اور چین کی 4000 کلو میٹر طویل سرحدوں کے ساتھ ساتھ ہر100 کلو میٹر کے فاصلے پر راڈاراور ٹیلی کمیونیکیشن کی جدید ترین سہولیات سے مزین تنصیبات قائم کی جائیں۔ دیدہ دلیری کی حد دیکھئے کہ ان میں وہ متنازع علاقے بھی شامل ہیں جن پر چین اور بھارت میں کئی سرحدی جھڑپیں ہو چکی ہیں۔
6۔نریندری مودی نے بھارت کی وزارت عظمیٰ کا چارج سنبھالنے کے دس دن کے اندر متنازع ''نرمدا ڈیم‘‘ کی بلندی400 فٹ سے بڑھا کر455 فٹ کرنے کی منظوری دے دی‘ تاکہ پینے کے پانی کی زیا دہ فراہمی کے علاوہ بھارت کی زراعت اور بجلی پیدا کرنے کی استعداد بڑھائی جا سکے۔۔۔اور ایک ہم ہیں کہ کالا باغ ڈیم کو مل کر دفن کر دیا ہے اور بھاشا ڈیم کو2037ء تک ملتوی۔
7 ۔ بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کی خصوصی ہدایات کے تحت بھارتی میڈیا نے پہلی دفعہ مغرب اور امریکہ کے صحافیوں کی طرح یہ شوشا چھوڑنا شروع کر دیاہے کہ دہشت گردوں کی وجہ سے پاکستان کے ایٹمی اثاثے غیر محفوظ ہو گئے۔ اس سلسلے میں مغرب اور امریکی عوام کو گمراہ کرنے کی با قاعدہ مہم شروع کر دی گئی ہے۔
8۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کھل کر اعلان کر دیا کہ بھارت بیرون ملک جس کو چاہے گا اور جتنا چاہے گا اسلحہ بر آمد کرے گا جس میں جنگی جہاز اور میزائل بھی شامل ہوں گے۔ اس ضمن میں بھارت اور افغانستان کا پاکستان کے خلاف مشترکہ اتحاد کسی سے پوشیدہ نہیں۔
یہ تو بھارت کے وہ ہنگامی اقدامات ہیں جو وہ اپنی سرحدوں اور سمندروں کے گرد کر رہا ہے‘ اب اس کے ان سیا سی اقدامات کی طرف دیکھیں جو اصل میں اس کے فوجی مقاصد کی ابتدائی شکل ہیں۔ نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی سیا سی زندگی کی اولین تربیت گاہ راشٹریہ سیوک سنگھ نے مشترکہ قرارداد کے ذریعے کشمیر میں آرٹیکل370 کے نفاذ کی منظوری دی ہے اور ساتھ ہی آزاد جموں و کشمیر کی حکومت کو'' پاکستان کے مقبوضہ کشمیر‘‘ کا نام دے دیا ہے۔ دو طرفہ تعلقات اور کشمیر سمیت دوسرے متنازع معاملات پر بات چیت کیلئے پہلے سیکرٹری خارجہ سطح کے مذاکرات کی ہامی بھری۔ جب پاکستان نے اس تجویز پر عمل کرتے ہوئے بات کرنے کی کوشش کی تواب اس سے بھی انکار کر دیا ہے جب بھارت کے آئین کے آرٹیکل370 کی بات کی جاتی ہے تو یہ امر سامنے رکھیں کہ پنجاب اور بہار کی طرح مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کر نے کیلئے اسی بد نام زمانہ بھارتی آئین کے آرٹیکل کا سہارا لیا جا رہا ہے اور اس کا با قاعدہ آغاز کرتے ہوئے مقبوضہ جموں و کشمیر کے مختلف اضلاع کے نا موں کو بھی تبدیل کیا جا رہا ہے۔ بھارت یہ سب کچھ اس لئے کر رہا ہے تاکہ وہ مقبوضہ کشمیر کی علیحدہ حیثیت ختم کر کے بھارتی آئین نافذ کرے اور اسے باقاعدہ ضم کر لے۔
بھارت ہر ایک سو کلومیٹر(باسٹھ میل) پر چین کی سرحد کے ساتھ نئی سرحدی چوکی اور راڈار سٹیشن تعمیر کر رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس سے اس کا مقصد یہ تو نہیں کہ وہ اپنے کسی ناپاک مقصد کے دوران چین کو اس کی سرحدوں پر''Curtail'' کرتے ہوئے دنیا کی توجہ پاکستان کی بجائے چین کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہے؟ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں دلبیر سنگھ سہاگ اور اجیت ڈوول کی ہدایات پر ہر پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر ایک ٹار چر سیل بنا دیا گیا ہے جہاں کشمیرکی بیٹیوں اور نوجوانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ سری نگر کی ایک ہیومن رائٹس تنظیمVOC (وائس آف وکٹمز) کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطا بق بھارتی فوج اور دوسری سکیورٹی ایجنسیوں کے 471 عقوبت خانے (ٹارچر سیل) مقبوضہ کشمیر میں کام کر رہے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں نوجوانوں کے ذہنوں میں بٹھایا جا رہا ہے کہ کشمیر کو بھول کر پاکستان کو مضبوط بنائو۔ ایسا کہنے والے شائد نہیں جانتے کہ کشمیر کے بغیر پاکستان مضبوط نہیں ہوگا!!