"MABC" (space) message & send to 7575

سلطنت عثمانیہ کا احیا ء کیا جا رہا ہے؟

کیا سلطنت عثمانیہ کا ایک بار پھر احیاء کرنے کی با قاعدہ کوششوں کا آغاز کر دیا گیا ہے ؟ ایسا سوچتے ہوئے یا اس پر خیال آرائی کرتے ہوئے یہ بات کچھ عجیب سی لگتی ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ ہر اس ملک اور ریاست جہاں سیکولر حکومتیں قائم تھیں ، میں مسلم جہادی تنظیموں کی مدد کر رہا ہے تاکہ یہ ریاستیں آپس میں لڑتے لڑتے اندر سے کھوکھلی ہو جائیں۔ 1995ء سے یورپ اور مشرق وسطیٰ میں چلائی جانے والی ایک مذہبی شدت پسند تحریک کا بغور جائزہ لیں تو کیا یہ درست نہیں ہے کہ امریکہ نے 1995ء میں سربوں پر بمباری کرتے ہوئے وہاں کے مسلم لیڈر عزت بیگوچ کی تنظیم کو سپورٹ کیا ؟پھر 1999ء میں کسووومیں مسلم تنظیم KLAکا ساتھ دیتے ہوئے سربوں پر بھر پور بمباری کی ۔ اپنے ان اقدامات کو جائز قرار دینے کے لیے وائٹ ہائو س سے یہی توجیہہ پیش کی جاتی رہی کہ یہ سب ہم انسانی حقوق کی بحالی، آمروں کے خاتمے کرتے اوروہاں کے عوام کی شخصی آزادی کے لیے کر رہے ہیں ۔ لیکن آج غزہ میں معصوم فلسطینی بچوں اور عورتوں کو جس طرح ذبح کیا جا رہا ہے کیا امریکہ کی نظر میں یہ ظالمانہ اسرائیلی حرکتیں انسانی حقوق کی پامالی کے زمرے میں نہیں آتیں؟ اب اسرائیل پر امریکی بمباری کیوں نہیں؟
وہ سب ریاستیں جو کل تک سلطنت عثمانیہ کا حصہ رہیں اور آج وہاں سیکولر حکومتیں تھیں ،وہاں خلافت کے دعوے دار مسلم انتہا پسندوں کو قابض کرانے کے بعد سول وار کروائی جا رہی ہے۔
سلطنت عثمانیہ کی بات کریں تو تیونس اور مصر بھی خلافت عثمانیہ کا ہی باقاعدہ حصہ تھے ۔اگر 2011 ء میں ترکی کے صدر اردگان کی اس تقریر کو سامنے رکھیں جب انہوں نے اپنی انتخابی فتح کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''میری اس کامیابی پر جہاں انقرہ میں اطمینان اور فخر کی لہر دوڑ رہی ہے ،وہاں میری کامیابی کے ثمرات بوسنیا ہرگوزوینا اور سراجیو کے لیے بھی ہیں جو خلافت عثمانیہ کے وقت ایک اہم ترین شہر تھا ۔آج جب میں ترکی کے صدر کی حیثیت سے حلف لے رہا ہوں تو جس طرح یہ ازمیر کیلئے باعث مسرت ہے اسی طرح دمشق کے لیے بھی باعث طمینان اور مسرت ہو گا۔‘‘ اپنے خطاب میں اردگان کے یہ سب کہنے کا مطلب اس کے سوا اور کچھ نہیں تھا کہ وہ علا قے جو کل تک سلطنت عثمانیہ کے تحت تھے ،ترکی انہیں آج بھی اپنے سے الگ نہیں سمجھتا اور اسی لیے انہوں نے کہا کہ ان سابق عثمانی ریاستوں اور استنبول کے لیے میری کامیابی ایک ہی جیسی ہی ہے اور کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یورپ کے اند ر بیٹھے ہوئے ملک کا نو منتخب صدر اپنی افتتاحی تقریر میں پالیسی بیان دینے کی بجائے اس طرح کی بڑھکیں مار سکتا ہے؟۔سوال کیا جا سکتا ہے کہ ا مریکہ اور اس کے اتحادی ممالک ایک ایسے مسلمان ملک جہاں حجاب کی اجازت دے دی جائے ،کواس قدر مضبوط کیوں کریں گے ؟ اس کا جواب ڈھونڈنے کیلئے آپ کو تین معروضات کو سامنے رکھنا ہو گا۔ایک ، یورپی یونین میں شمولیت کے لیے ترکی کی کئی سال تک کی لگاتار
کوششوں کے با جود اس کا رکن نہ بنا ئے جانے پر ترک عوام کے اپنی ہزیمت اور بے عزتی پر سخت غصے کی وجہ سے ان کی دلجوئی ۔ دوم، ایک عرب ملک کی اندرونی اور خاندانی قبائلی چپقلش کے ساتھ ساتھ خطے کی مسلم ریاستوں پر اس کی کمزور سے کمزور تر ہوتی ہوئی گرفت ،قطر کے حکمرانوں سے اختلافات اور بحرین کی صورت حال ۔سوم، لگتا ہے کہ امریکہ نے یہ فیصلہ انتہائی سوچ بچار اور تاریخ کے اوراق کھنگالتے ہوئے کیا ہے ۔شاید یہ حقیقت اس کے سامنے ہے کہ جنگ عظیم میں ترکی جب جرمنی کا اتحادی بنا تو اس نے لاکھ دھمکیوں اورترغیبات کے با وجود جرمنی سے بے وفائی نہیں کی بلکہ آخری وقت تک اس کا ساتھ دیا۔اس دوستی اوراتحاد سے اسے نقصان بھی پہنچا لیکن وہ پوری طاقت سے اپنے قدموں پر کھڑا رہااور یہ کوئی چند سال کی بات نہیں تھی بلکہ1870ء سے جرمنی ترک ایمپائر کی استقامت کا مشاہدہ کر رہا تھا ۔ جرمنی ترکی کو یورپی یونین کا رکن بنانے کے حق میں تھا۔ اب بھی جرمنی یورپی یونین کا طاقتور ملک ہونے کی حیثیت سے ترکی سے اپنے صدیوں پرانے خوشگوار تعلقات کی بنا پرسلطنت عثمانیہ کے احیا ء کی کوششوں میں سب سے آگے ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ تحریک '' عرب بہار ‘‘ میں بہت بڑا کردار جرمنی کا بھی ہے تو بمشکل یقین کیا جائے گا لیکن اگر لیبیا کے کرنل قذافی کی حکومت کا خاتمہ کرنے کیلئے انٹر نیشنل کریمنل کورٹ کی اس کارروائی کا جائزہ لیا جائے جس سے قذافی کی گرفتاری کے احکامات جاری کروائے گئے اور پھر اس کے تحت نیٹو کے جہازوں کی لیبیا پر بمباری کی قانونی اجازت دلوائی گئی تو پوشیدہ ہاتھ سامنے آتے ہیں ،کیونکہ دنیا بھر کا با خبر میڈیا اور ادارے جانتے ہیں کہ جرائم کے نام پر بنائی گئی یہ بین الاقوامی جرائم کی عدالت در اصل جرمنی کی لمیٹڈ کمپنی ہے۔یہ لکھتے ہوئے دکھ بھی ہو رہا ہے کہ امریکہ بہادر کی شہ پر جرمنی کی انٹیلی جنس BND اور القاعدہ ایک ساتھ مل کر شام کے عوام اور بشارالاسد کے خلاف مسلح جدو جہد کررہے ہیں اور شام کے خلاف لڑنے والی مسلم عسکری تنظیم سیرین نیشنل کونسل کو جرمنی میں ہر وہ سہولت مہیا کی جا رہی ہے جس 
کی انہیں ضرورت ہوتی ہے۔کیا اب یہ بات چھپی رہ گئی ہیکہ 25 مئی2012 ء کو شامی قصبے حولہ میں القاعدہ کے ہاتھوں شامی شہریوں کے قتل عام کاذمہ دار در اصل جرمنی کا فارن آفس تھا جس کا الزام اس وقت بشارالاسد کی فوجوں پر لگا دیا گیا تھا ۔ لیکن یہ جھوٹ کچھ ہی دن بعد دنیا کے سامنے کھل کر آ گیا کہ شام میں جرمنی کا فارن آفس اور اس کی خفیہ ایجنسیBND ملوث تھے ۔کس قدر افسوس کی بات ہے کہ غزہ کے 1000 معصوم لوگوں کے قتل عام پر شام کے شہر حولہ میں 1255سے زائد شامی عورتوں ،بچوں اور بوڑھوں کا قتل عام کرنے والے داعش ہاتھ باندھے بیٹھے ہیں ۔آخر ان کی شہادتوں پر خلافت کے دعوے دار کیوں نہیں روئے ؟کیا ان لوگوں نے عراق میں مسلم بچوں کا اجتماعی قتل عام نہیں کیا ؟ اگر یہ اتنے ہی جہادی ہیں تو کیا انہیں اب غزہ فلسطین کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے والے یہ درجنوں بچے نظر نہیں آرہے؟ کیا تحریک طالبان سے لے کر داعش تک اور القاعدہ سے لے کر بوکو حرام تک غزہ ،کشمیر، برما، پاکستان ، عراق اور شام کے مسلمان بچوں کو قتل کرنے والوں کے خلاف جہاد کو کار ثواب نہیں سمجھتے؟لگتا ہے کہ اسرائیل کے دہانے پر بیٹھے ہوئے یہ نام نہاد جہادی یہودیوں کے ہاتھوں غزہ فلسطین کے بچوں کی چیر پھاڑ کو جائز سمجھتے ہیں؟ان سب نام نہادجہادیوں کے چہروں پر چڑھائے ہوئے نقاب کو غزہ کے معصوم فلسطینی بچوں کے خون نے اتار دیا ہے۔! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں