16 جنوری2008 ء کا دن مسلم لیگ ن کے رہنمائوں کیلئے انتہائی مصروف تھا۔ میاں نواز شریف سے رائے ونڈ میں بھارتی ہائی کمشنر ستیہ پال کی ملاقات طے تھی اور اس کے بعد انہوں نے پریس کانفرنس سے خطاب کرنا تھا‘ جس کیلئے اندرون اور بیرون ملک سے میڈیا کا ایک ہجوم رائے ونڈ ان کی رہائش گاہ کے باہر اکٹھا تھا۔ ستیہ پال سے ملاقات کے کوئی ایک گھنٹہ بعد ایک پُرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے میاں نواز شریف نے قاضی فاروق کی جگہ جسٹس بھگوان داس کا نام پاکستان کے نئے چیف الیکشن کمشنر کیلئے تجویز کیا ۔ 18 فروری کے انتخابات ہو گئے جس کے بعد ملک کی دونوں بڑی پارلیمانی اور سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے آئین پاکستان میں اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے فیصلہ کیا تھا کہ الیکشن کمیشن کیلئے چاروں صوبوں سے ایک ایک رکن لیا جائے گا جو متعلقہ صوبے کی ہائیکورٹ کا جج رہ چکا ہو اور ان ارکان کے تقرر کیلئے وزیر اعظم اورلیڈر آف دی اپوزیشن سے مشاورت کے بعدہر صوبے سے تین تین نام منتخب کر کے پارلیمانی کمیٹی کو بھیجے جائیں گے جو ان میں سے ایک نام کا انتخاب کرے گی۔ اگر وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کسی ایک فہرست پر متفق نہیں ہوتے تو دونوں جماعتوںکی طرف سے ہر رکن کیلئے علیحدہ علیحدہ فہرست پارلیمانی کمیٹی کو بھیجی جائے گی جو ہر صوبے کیلئے ایک ایک نام کی منظوری دے گی۔ قومی اسمبلی کے اراکین پر مشتمل یہ پارلیمانی کمیٹی آٹھ ارکان پر مشتمل ہو گی جس کے چار چار ارکان حکومتی اور اپوزیشن سے بنچوں سے متعلق ہوں گے لیکن بعد میں آئین میں انیسویں ترمیم کرتے ہوئے اس کمیٹی میں سینیٹ سے بھی چار رکن شامل کرتے ہوئے اس کی تعداد بارہ کر دی گئی۔ اٹھارہویں ترمیم سے قبل چیف الیکشن کمشنر کو اختیار تھا کہ وہ جو چاہے فیصلہ کرے لیکن اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے چیف الیکشن کمشنر کو حاصل تمام اختیارات الیکشن کمیشن کو سونپ دیئے گئے۔ دوسرے لفظوں میں اب چیف الیکشن کمشنرکے اختیارات بھی وہی ہیں جو باقی چار اراکین کو حاصل ہیں۔ اب اگر فخرالدین جی ابراہیم کوئی حکم یا فیصلہ دینا بھی چاہتے تو نہیں دے سکتے تھے کیونکہ ان کا بھی باقی چار اراکین کی طرح اپنا صرف ایک ہی ووٹ تھااورباقی چار اراکین نے آپس میں ایکا کر کے ان کے خلاف جو چاہا فیصلہ دیا۔ اس ترمیم کا ایک نکتہ بہت ہی دلچسپ ہے کہ اگر چیف الیکشن کمشنر کسی بھی اجلاس کے وقت موجود نہیں ہیں تو کسی بھی طریقے سے کسی بھی فیصلے کیلئے وہ اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کر سکتے ۔
آج آپ جو چاہے فرض کر لیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ موجودہ طریقہ کار کے تحت آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کی ذمہ داری صرف اور صرف چیف الیکشن کمشنر سمیت ان پانچ اراکین پر عائد ہوتی ہے اور اگر ان اراکین کی تعیناتی مشکوک یا قابل بھروسہ نہ تھی تو پھر ان کے تحت ہونے والے انتخابات منصفانہ کیسے ہو سکتے تھے؟ یہی وہ نکتہ تھا جسے ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے اسلام آباد میں دھرنا دیتے وقت اٹھایا تھا لیکن اس اہم ترین نکتے کو منظم طریقے سے میڈیا کے دھوئیں میں اوجھل کر دیا گیا۔ آج بھی وہ اسی نکتے کی وضاحت پیش کرتے ہوئے بتا رہے ہیں کہ موجودہ انتخابی نظام کبھی انصاف نہیں دے سکتا؟۔۔۔ ۔ جو وہ کہہ رہے ہیں اس کی۔ حقیقت تک پہنچنے کیلئے الیکشن کمشن کی تعیناتی کے سارے عمل کو ایک ایک کر کے دیکھنا ہو گا٭8اپریل2010 ء کو صدر پاکستان آصف علی زرداری اورمیاں نواز شریف کی مو جود گی میں 18 ویں ترمیم کے بل پر دستخط کرتے ہوئے صدر نے کہا کہ آج ہم نے فوجی آمریت کا دروازہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند کر دیا ہے ٭ 22 فروری2011 ء کو اس ترمیم کی منظوری کے تقریباً ایک سال بعد قومی اسمبلی کی جانب سے پارلیمانی کمیٹی قائم کی جاتی ہے تاکہ وہ الیکشن کمشن کی تشکیل کر سکے جس میں8 اراکین قومی اسمبلی سے اور باقی چار سینیٹ سے لیے گئے۔۔۔۔ان بارہ ارکان میں پی پی پی کے تین، مسلم لیگ ن کے تین، مسلم لیگ ق کے دو اور متحدہ قومی موومنٹ، جمعیت علمائے اسلام ف، عوامی نیشنل پارٹی اور فاٹا سے ایک ایک رکن لیا گیا٭ اٹھارہویں ترمیم منظور ہونے کے ایک سال بعد 26 اپریل2011ء کو سپریم کورٹ نے ایک پٹیشن پر حکم جاری کیا کہ بہت ہو چکا اب حکومت فوری طور پر
آئین کے مطابق الیکشن کمشن کی تشکیل کرے٭19 مئی کو سپریم کورٹ نے حکومت کو تین ہفتے کی مہلت دیتے ہوئے کہا کہ اس دوران ہر صورت میں نئے الیکشن کمشن کی تشکیل کی جائے٭اس دوران26 ارکان ضمنی انتخابات میں کامیاب ہوچکے تھے جس پر سپریم کورٹ نے کہا ''یہ ضمنی انتخابات آئینی نہیں کیونکہ اٹھارہویں ترمیم منظور ہونے کے بعد یہ انتخابات چیف الیکشن کمشنر نہیں بلکہ الیکشن کمشن کے تحت ہونے تھے جو نہیں ہوئے٭30 مئی کو پیپلز پارٹی نے کہا کہ وہ بیسویں ترمیم پیش کرنے جا رہی ہے تاکہ ضمنی انتخابات میں منتخب ہونے والے چھبیس ارکان کو قانونی حیثیت دی جا سکے۔ سپریم کورٹ میں حکومت کی طرف سے بتایا گیا کہ الیکشن کمشن کی پانچ میں سے چار نشستیں ابھی مکمل نہیں ٭یکم جون کو الیکشن کمشن کی تشکیل کیلئے قائم کی گئی پارلیمانی کمیٹی نے بلوچستان سے جسٹس فضل الرحمان‘ خیبر پختونخوا سے جسٹس شہزاد اکبر خان‘ پنجاب سے جسٹس ریاض کیانی اور سندھ سے جسٹس روشن عیسانی کے ناموں کی سفارش کر دی٭دس جون کو الیکشن کمیشن کے چار ارکان کی منظوری دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کی تشکیل کر دی گئی۔۔۔۔۔۔
اب ایک نہایت ہی اہم اور وضاحت طلب نکتہ یہ ہے کہ الیکشن کمشن کیلئے جو کچھ ہوا وہ تیس مئی سے یکم جون کے اس مختصر عرصے میں کیا گیا اور غالباً انہی دو دنوں کی پیش رفت میں مک مکا ہوا ؟ کیا مجوزہ آئینی اورقانونی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ہر صوبے سے کمشن کی تشکیل کیلئے نامزد کئے گئے تیرہ ارکان کو وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر نے انٹرویو کیلئے بلایا؟کیا آئین اور قانون کی رو سے پارلیمانی کمیٹی نے Hearing کی؟ اطلاعات کے مطابق نہیں کی گئی۔ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ الیکشن کمشن کے ان چار ارکان کو مک مکا کے تحت نامزد کیا گیا اور انہیں تشکیل دی گئی بارہ ارکان کی پارلیمانی کمیٹی کی بجائے آٹھ ارکان کی پارلیمانی کمیٹی نے نامزد کیا۔۔۔۔اس طرح یہ تاثر ابھرنا قدرتی بات ہے کہ الیکشن کمشن کی تشکیل آئین کے مطا بق نہیں کی گئی تھی۔
یہ سوال ہر با شعور شہری کے ذہن میں گونج رہا ہے کہ کیا الیکشن کمشن کے یہ چار وںاراکین غیر جانبدار تھے؟کیا ان کا ماضی کا ریکارڈ ثابت نہیں کرتا کہ وہ جانبدار اور واضح سیا سی وابستگیاں رکھتے ہیں؟ آئین کے مطابق ایک صوبے کے اپوزیشن لیڈر کی طرف سے کمشن کیلئے جو نام تجویز کیا گیا۔۔۔ کیا اس شخصیت کو اس صوبے کیلئے نامزد کیا گیا اور نہیں تو اس کی وجہ کیا تھی؟ اگر ملک میں واقعی ہی منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کرانے ہوتے تو اس کیلئے صرف اکیلا ایماندار چیف الیکشن کمشنر کافی نہیں اس کیلئے الیکشن کمشن کے باقی چاروں اراکین کا بھی ایماندار اور غیر جانبدار ہونا ضروری ہے۔ باقی رہی حالیہ الیکشن کی شفافیت تو ان انتخابات کے چند روز بعد لاہور بلاول ہائوس میں میڈیا نے جب صدر آصف علی زرداری سے ان انتخابات بارے سوال کیا تو چند سیکنڈ کی خاموشی کے بعد انہوں نے چہرے پر ایک معنی خیز مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا: ''اس طرح کے ریٹرننگ افسران اگر مجھے مل جائیں تو میں اگلا صدارتی الیکشن جیت سکتا ہوں‘‘!