اگر 17 جون کو منہاج القرآن مرکز میں بے گناہ عورتوں اور مردوں کا وحشیانہ قتل عام نہ ہوا ہوتا تو ممکن ہے کہ چودہ اگست یا اس سے پہلے کسی قسم کے لانگ مارچ کی نوبت ہی نہ آتی اور اگر ایسا ہو بھی جاتا تو شائد اسے وہ عوامی پذیرائی نہ ملتی جو ابھی سے دیکھنے میں آ رہی ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ماڈل ٹائون کا سانحہ اتفاقاً ہوا ہے تو وہ اپنی جگہ پر غلط ہے۔ ہر کوئی یہی محسوس کر رہا ہے کہ یہ سب ایک طے شدہ منصوبے کے تحت ہی کیا گیا۔ مقصد یہی تھا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کو اس قدر خوف زدہ کر دیا جائے کہ وہ پاکستان واپسی کا ارادہ ہمیشہ کیلئے نہیں تو کچھ عرصہ کیلئے ضرور ملتوی کر دیں لیکن ایسا سوچنے والوں کے سب اندازے غلط ہو گئے اور وہ ایک سنگین غلطی کر بیٹھے۔ انسانی جانوں کے خون سے کھیلی جانے والی اس ہولی نے ہر انسان دوست دل کو تڑپا کر رکھ دیا۔ ہر گھر اداس ہو چکا تھا۔ اس سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ منہاج القرآن کی ایک معصوم بیٹی کی پکار پرجس کی ماں تنزیلہ اور پھوپھی شازیہ گولیوں سے بھون کر وحشت و بر بریت کا نشانہ بنا دی گئیں‘ ان کیلئے نہ جانے کتنے نوجوان اور بیٹیاں باہر نکل پڑیں‘ کسی کو ابھی اس کا اندازہ نہیں ہے۔کہنے کو بہت کچھ کہا جا سکتا ہے‘ لکھنے کیلئے بھی بہت کچھ ہے لیکن صرف اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ آج 45 دنوں بعد بھی16 بے گناہوں کے قتل اور87 لوگوں کو قتل کرنے کی نیت سے فائرنگ کرنے والوں کے خلاف کہیں بھی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی۔ کیا اس ملک میں جنگل کا قانون نافذ ہے؟یہ خون ناحق چھپے گا کیسے...جسے یہ دنیا چھپا رہی ہے۔حکمرانوں نے شائد ابھی بھی سبق نہیں سیکھا کیونکہ ان کی باڈی لینگویئج کا اندازہ کرنا ہو تو رانا مشہود اور جناب پرویز رشید کے تین اگست کو راولپنڈی میں کہے جانے والے الفاظ کو سامنے رکھنا ہو گا جو آنے والے چند دنوں میں پیش آنے والے واقعات کی نشاندہی کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اگر کسی کو یاد رہ گیا ہو تو بھٹو صاحب کے خلاف چلائی جانے والی قومی اتحاد کی تحریک کے آخری ایام کو سامنے رکھنا ہو گا جب پنجاب کے شہر ایک طرف‘ ہر گائوں اور قصبے سے سینکڑوں کے حساب سے لوگوں کو گرفتار کیا جا رہا تھا‘ اس وقت بھٹو صاحب نے مذہبی طبقے کو متاثر کرنے کیلئے لاہور کے گور نر ہائوس میں بیٹھ کر شراب اور ریس پر پابندی لگا دی تھی‘ اسی طرح سننے میں آ رہا ہے کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف بھی اگلے ایک ہفتے کے اندر اند ر ریڈیو اور ٹی وی پر خطاب کرنے جا رہے ہیں جس میں وہ چند اہم ترین اعلانات کریں گے۔
با وثوق ذرائع بتا رہے ہیں کہ مسلم لیگ نواز سے کوئی صاحب مصطفیٰ کھر کا پانچ جولائی کی شام والا وہ کردار ادا کرنے جا رہے ہیں جس نے مارشل لاء لگوانے میں بنیا دی کردار ادا کیا تھا ۔پنجاب میںتحریک انصاف، عوامی تحریک، سنی کونسل اور ق لیگ کے کارکنوں کے گھروں پر پولیس کے کریک ڈائون کیلئے دو طرح کی فہرستوں کا کام تقریباً مکمل ہو چکا ہے۔ پہلی فہرست میں مسلم لیگ نواز،مقامی پولیس تھانہ اور سپیشل برانچ کی آ پس میں معاونت اور صلاح مشورہ سے حکومت کی مخالف سیا سی اور مذہبی جماعتوں سے ہمدردی رکھنے والوں کے نام شامل ہیں تو دوسری فہرست حکمرانوں کے ہتھ چھٹ اور مراعات یافتہ کارکنوں اور ان کی مدد کرنے والے ان تمام عناصر کی ہے جن کا مقامی پولیس سے بھی ہر وقت چولی دامن کا ساتھ رہتا ہے۔اور یہ وہی فارمولا ہے جو 1977ء میں پاکستان قومی اتحاد کی بھٹو حکومت کے خلاف چلائی جانے والی تحریک کے آخری تین ایام میں نتھ فورس، مصطفیٰ کھر اور مسعود محمود کی زیر کمان پی پی پی کے ورکروں اور فیڈرل سکیورٹی فورس نے پنجاب بھر میں سر انجام دینا تھا۔ وہ 77ء تھا آج37 سال بعد فیڈرل سکیورٹی فورس کی جگہ پنجاب کی ایلیٹ فورس نون لیگیوں کے ہمراہ مسلح ہو کر ''امن و امان‘‘ کو اسی طرح کنٹرول کرے گی جس طرح اس نے سولہ جون کو مرکز منہاج القرآن ماڈل ٹائون میں امن قائم کر کے دکھایا تھا۔ سرکاری سطح پر تیار کی جانے والی اس فورس کیلئے درکار وسائل کو پوراکرنے کیلئے امداد کے نام پر پنجاب کے ہر گائوں، قصبے، تحصیل اور ضلع سے اربوں روپیہ بذریعہ پولیس ، انکم ٹیکس ، بلدیہ اور پٹواری، تحصیلدار اکٹھا کیا جا رہا ہے اور یہ سب مال و دولت اکٹھا کرنے میں حکمران جماعت کے وہ ایم پی اے اور ایم این اے بھی شامل ہیں جن کی کرپشن کی فائلیں ہر متعلقہ محکمے کے پاس تیار پڑی ہیں اور جنہیں یہ یقین ہے کہ اگر اس دفعہ ان کی اسمبلی کی نشست ہاتھ سے گئی تو اس کیلئے انہیں دوبارہ بہت دیر تک انتظار کرنے کے علا وہ احتساب کے زبردست مرحلے کا الگ سے سامنا کرنا پڑے گا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ پنجاب کے ہر چھوٹے بڑے بازار اور ہر گلی سے بے گھر افراد کی مدد کے نام پر اکٹھا کیاجانے والا یہ اربوں روپیہ کن کن ہاتھوں میں جا رہا ہے۔ملک کے تمام حساس اداروں کو یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ اسلحہ اور ان میں استعمال ہونے والی ''گولیاں‘‘ کس تعداد میں جائز اور ناجائز مارکیٹ سے غائب ہو رہی ہیں۔ اگر پنجاب کی ایلیٹ فورس جس نے مرکز منہاج القرآن کے محافظین پر چند گھنٹوں میں 469 رائونڈ اورجی تھری رائفل کے55 رائونڈ فائر کیے تھے‘ اگر یہ مارچ روکنے کیلئے اسی طرح مبینہ فورس کا حصہ بنتے ہیں تو اس کے نتائج شائدکسی کے تصور میں بھی نہیں ہوں گے۔
ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے ماضی کی غلطیوں سے نہ سیکھنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اخبارات اور ٹی وی چینلز کا شور اگر کسی کو سنائی نہیں دے رہا تو وہ حکمران ہی ہیں۔ اگر یہ لوگ تھوڑے سے ہوش اور عقل سے کام لیں تو مستقبل میں اس قسم کے سانحے سے بچا جا سکتا ہے۔ سانحہ ماڈل ٹائون کے لواحقین کو انصاف ملنا تو دور کی بات‘ وہ تو عدالتوں میں دھکے کھا رہے ہیں۔ انہیں انصاف کس نے دینا ہے ‘ انہیں یہ بھی معلوم نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس کا فیصلہ رائے ونڈ سے ہونا ہے۔ انسانی جانوں کی یہ وقعت رہ جائے گی‘ کیا آج سے چند سال قبل کسی کو معلوم تھا؟ اگر چودہ اگست کو سانحہ ماڈل ٹائون دہرانے کی کوشش کی گئی تو اس کا انجام اتنا خطرناک ہو گا کہ جو خود حکومت کو بھی معلوم نہیں ۔ حکمرانوں کے گرد جو مشیر انہیں اس قسم کے مشورے دے رہے ہیں وہ ایسے سانحوں کے بعد گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہو جاتے ہیں۔
لاہور ، شیخوپورہ، گوجرانوالہ، سیالکوٹ ، نارووال، قصور ، ننکانہ، حافظ آباد اور فیصل آباد سمیت پنجاب اور ہزارہ کے اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی کو مطلوبہ معیار پر پورا اترنے والے ''کارکناں اور ہمدردوں‘‘ کو تیار رکھنے کا کہہ دیا گیا ہے اور گجرات سے جن صاحب کو حکم نامہ جاری کیا گیا ہے اس کے نام سے چوہدری شجاعت اور پرویزالٰہی بخوبی واقف ہیں۔ اب یہاں پر رانا ثنا اﷲ کا امتحان شروع ہوگا۔ اگر تو وہ واقعی سچے دل سے اپنے پچھلے گناہوں کی معافی مانگنا چاہتے ہیں تو ان کیلئے یہ سب سے بہتر موقع ہے اور اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ چار اگست کو وزیر اعظم کی جانب سے دیا جانے والاجانثار ساتھی کا خطاب کل کو ان کے بہتر مقام کیلئے کام آ سکتا ہے تو یہ ان کی بھول ہے ۔اب وہ ''کل‘‘ نواز شریف صاحب کی جانب سے ان کیلئے کبھی نہیں آئے گا اور میری یہ بات آنے والا وقت رانا صاحب کو ثابت بھی کر دے گا۔
پنڈی بھٹیاںجلال پور میں پاکستان عوامی تحریک کے صدر اسلم بھٹی کے ساتھ جو کچھ کیا گیا وہ سب کے سامنے ہے اور جو کچھ پولیس کی جانب سے کیا گیا وہ بھی سب کے سامنے ہے کہ گولی مارنے والے کو انتظامیہ کے حکم سے اس طرح شاہی مہمان کا درجہ دیا جا رہا ہے جیسے اس نے قتل نہیں کیا بلکہ بادشاہ سلامت کے کسی دشمن کا کام تمام کیا ہے۔ کیا مرکز منہاج القرآن کے دروازے پر تنزیلہ بی بی اور شازیہ بی بی کا بہایا جانے والا خون نا حق اسی طرح بہایا جا تا رہے گا؟۔ کیا یہ خون ناحق انصاف کی ہر آنکھ سے اسی طرح اوجھل رہے گا؟۔۔۔ اگر ایسا ہوا تو کل کو کشمیر کی بیٹیوں کیلئے اٹھائی جانے والی آواز بھی کسی کو سنائی نہیں دے گی!!