"MABC" (space) message & send to 7575

کیا ملے گا ؟

تاجرانہ رویوں اور سیا ست میں بہت فرق 
ہوتا ہے لیکن بد قسمتی سے سیا ست اور جمہوریت 
سودے بازی ہو کر رہ گئی ہے اور پاکستان کے 
ساتھ بھی یہی بدقسمتی رہی ہے کہ ہر کوئی ایک ہی 
خیال لیے گھر سے نکلتا ہے کہ مجھے کیا ملے گا؟ 
جس دن ہم سب نے یہ سوچ ترک کرتے 
ہوئے اس نیت اور ارادے کو اپنے دلوں 
میں بٹھا لیا کہ ہمارے اس کام سے، اس عمل 
سے قوم کو کیا ملے گاتو پاکستان کے بہت 
سے مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے
 
 
کہتے ہیں کہ کسی گائوں میں ایک بوڑھا شخص پسینے سے شرابور سخت دھوپ اور گرمی میں اپنے گھر کے سامنے سے گذرنے والی سڑک پر چھوٹے چھوٹے پودوں کی دیکھ بھال کر رہا تھا ۔راہ چلتے ہوئے ایک گھڑ سوار مسافر نے اسے دیکھ کر کہا ''بزرگو،اس قدر گرمی میں ان پودوں کے لئے اپنے آپ کو کیوں عذاب میں ڈالے ہوئے ہیں ؟ آپ اگر اپنی عمر کی طرف دیکھیں تو جب تک یہ پودے سایہ اور پھل دینے کے قابل ہوںگے، اس وقت تک تو آپ کی ہڈیاں بھی قبر میں گل سڑ چکی ہوں گی۔ آپ کو ان سے کیا فائدہ ؟‘‘۔ بوڑھے نے گھڑ سوار کی جانب دیکھا اور بڑی مشکل سے سہارا لیتے ہوئے اٹھ کر کہا '' بیٹا ،تم جس سڑک سے سفر کرتے ہوئے یہاں تک پہنچے ہو ،راستے میں تم نے اور تمہارے گھوڑے نے کتنی دفعہ سایہ دار درختوںکے نیچے آرام کیا ہے؟‘‘ سوار بولا ''دو تین دفعہ‘‘ ...۔بوڑھے نے کہا ''۔وہ درخت جن کی ٹھنڈی چھائوں میں تم آرام کرتے آئے ہو کیا انہیں تم نے یا تمہارے باپ دادا نے لگایا تھا ؟‘‘۔ سوار بولا ''نہیں‘‘...'' اگر تمہارے آبائو اجداد میں سے کسی نے وہ درخت نہیں لگائے تو پھر تم جانتے ہو کہ وہ پودے ،جو اب تن آور درخت بن چکے ہیں ،کس نے لگائے تھے؟ ‘‘۔گھڑ سوار بولا ''میں نہیں جانتا‘‘۔ بوڑھا شخص اس کی جانب کچھ دیر دیکھتا رہا اور پھر بڑی نرمی سے کہا'' بیٹا، اگر آج ہم ا س دنیا میں کوئی اچھا کام کر جائیں تو ہم نہیں تو ہماری آنے والی نسلیں اگر اس سے مستفید ہو جائیں تو کیا یہ اچھا نہیں؟۔‘‘
چند دن قبل ایک ٹیلیویژن چینل پر تین انتہائی معروف تجزیہ نگار اور اینکرز اپنے سامنے بیٹھے ہوئے چوتھے اینکر کو عمران خان کے چودہ اگست کے لانگ مارچ کے اثرات اور مضمرات سے آگاہ کرتے ہوئے ایک ہی بات کئے جا رہے تھے کہ اس لانگ مارچ سے عمران خان کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا ۔وہ اس قدر سخت موسم ، حبس اور بلاکی گرمی میں لاہور سے اسلام آباد تک پہنچنے کی مشقت برداشت کرنے کے با وجود وزیر اعظم نہیں بن سکے گا؟ تو پھر وہ اپنے ساتھ لاکھوں نہیں تو ہزاروں لوگوں کو بھوک اور پیاس کے ساتھ ساتھ گرمی میں ہلکان کرنے پر کیوں تلا ہوا ہے ؟ ۔ 
چند سال قبل ایک حکومتی رکن نے کسی لکھنے والے سے کہا ،آپ ہمارا ساتھ دیں۔ تو اس شخص نے کہا، جناب میں ایک سو سے بھی زیا دہ مضمون آپ کے خلاف لکھ چکا ہوں، اب کس منہ سے آپ کی تعریف کروں؟ تو اس طاقتور حکومتی شخصیت ،ہنس کر کہا ، میںکب آپ سے یہ کہہ رہا ہوں بس آپ ہمارے ''اس مخالف‘‘ کو اچھی طرح رگڑا لگانا شروع کر دیں۔۔۔عمران خان کے خلاف جو مرضی لکھا جائے لیکن ان سب معززین سے سوال صرف یہ ہے کہ اب تک ہر الیکشن میںپولنگ اسٹیشنوں پر عوام کی دی جانے والی رائے کے مقابلے میں'' کسی اور کی مرضی‘‘ کو ہی فتح کیوں نصیب ہوتی رہی ہے؟ گیارہ مئی کے انتخابات میں دنیا بھر سے ہزاروں کی تعداد بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے لئے پاکستان پہنچے اور سب کی آنکھیں گواہ ہیں کہ بیرون ملک مقیم یہ خاندان اس وقت پولنگ اسٹیشنوں کے باہر جا پہنچے جب ابھی پورا عملہ بھی نہیں آیا تھا ۔لوگ حلفیہ کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ قطاروں میں کھڑے ہوئے لوگوں میں سے چند ایک ہی عمران خان کے مخالف گروپ سے تعلق رکھتے تھے لیکن رات گئے جب نتائج سامنے آئے تو ان کے ووٹ کہیں بھی نظر نہیں آ رہے تھے۔ایک سینئر اینکر بڑے ہی مضحکہ خیز لہجے میں عمران خان کے ساتھ شریک ہونے کا ارادہ رکھنے والے نو جوا نوں کو بھاشن دیتے ہوئے سمجھا رہے تھے کہ جب اس لانگ مارچ سے عمران خان کو کچھ بھی حا صل ہونے کی امید نہیں تو پھر وہ نو جوان، جن میں اکثریت طالب علموں کی ہے ، اس طویل لانگ مارچ میں شرکت کر کے اپنا وقت ،صحت اور پیسہ برباد کرنے کیوں جا رہے ہیں ۔''کچھ ملے گا یا نہیں‘‘ کشکول پکڑنے کی اس عادت نے ہی ہمارے ملک کو اس حالت تک پہنچایا ہے، جہاں ہم آزاد ہو کر بھی آزاد نہیں۔ 
عمران خان اس لانگ مارچ سے اگروزیر اعظم نہیں بنتے لیکن ان کی اس مشقت اور اپنی جان جوکھوں میں ڈالنے کے نتیجے میں پاکستان میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ایک صاف شفاف انتخابی سسٹم قائم ہو جاتا ہے ،جس سے میرے اور آپ کے حق رائے دہی کو کوئی قبضہ گروپ چھین سکے، جس سے کئی گھنٹے قطاروں میں کھڑے ہونے کے با وجود استعمال کیا گیاحق رائے دہی کسی کوڑے کے ڈھیر میں پڑا نظر نہ آئے یا اسے دیمک نہ چاٹ لے ،تو کیا یہ بُرا سودا ہے؟ اگر آج عمران خان کے لانگ مارچ کی بد ولت گیارہ مئی کے انتخابات کو لوٹنے والوں، پورے پاکستان کی قسمت کے ساتھ کھیلنے والوں، وطن عزیز کے ساتھ فریب اور دھوکہ بازی کرنے والوں اور ہزاروں کی تعداد میں کروڑ ہا روپیہ خرچ کرکے بیرون ملک سے خاص طور پر اس مقصد کے لیے آنے والے پاکستانیوں کی مائوں ،بہنوں اور بیٹیوں کے تین تین گھنٹے قطاروں پر کھڑے رہنے کے بعد کاسٹ کیے جانے والے ووٹوں کو دیمک کے حوالے کرنے اور انہیں ردی میںبدلنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچا دیا جائے تو کیا یہ غلط ہو گا؟۔ جب ووٹوں کی خریداری یا کسی بھی قسم کی ترغیب گلے کا پھندہ بن جائے ،جب کسی جاگیردار، تھانیدار ،ایس پی ،ڈی ایس پی ،کمشنر ،پٹواری ،تحصیلدار اورانکم ٹیکس افسر کو یقین ہوجائے کہ ووٹر کو ڈرانے دھمکانے کی سزا لمبی جیل یاترا کی صورت میں مل کر رہے گی تو پھر غریب، مزارع اور مزدور اپنی مرضی سے اپنی سوچ سے ووٹ کاسٹ کر سکے گا۔
ایک صاف اور شفاف انتخابی سسٹم رائج ہونے کے چند سال بعد ایسے با شعور اور تعلیم یافتہ لوگ ہمارے نمائندے ہوں گے جن کا ماضی داغدار نہ ہو، جنہوں نے اس ملک کی ایک پائی نہ لوٹی ہو،جنہوں نے غریبوں اور مزدوروں کو کچلا نہ ہو، اور کبھی فرقہ ورانہ نفرت کی تعلیم نہ دی ہو۔ جب اس طرح کے لوگ پارلیمنٹ میں آئیں گے تو صرف اپنے ملک کا سوچیں گے، اپنا نہیں۔وہ قرضے ہڑپ نہیں کریں گے بلکہ ملک کے قرضے اتاریں گے ،وہ تعلیم کو محدود نہیں بلکہ بہترین طریقوں سے عام کریں گے، وہ انصاف بیچیں گے نہیں بلکہ شفاف انصاف ہر گھر کی دہلیز پر پہنچائیں گے ، اورعام لوگ گلی گلی سڑک سڑک ڈاکوئوں کے ہاتھوں لٹنے سے بچ رہیں گے۔
دنیائے کرکٹ میں نیوٹرل ایمپائروں کا تصور سب سے پہلے عمران خان نے دیا اور اس پر سختی سے کار بند رہتے ہوئے برسوں ا س کے لئے جدو جہد کرتے رہے ۔اس راہ میں اپنوں اور غیروں کی مہر بانیوں سے بہت سے تلخ اور مشکل مقام بھی آتے رہے لیکن وہ اپنے موقف پر ثابت قدمی سے ڈٹے رہے اور پھر ایک دن ساری دنیا نے دیکھا کہ وہ اپنے اس مشن میں کامیاب ہو گئے۔کیا اس سے انہیں کوئی ذاتی فائدہ ہوا؟۔ اس کا فائدہ اور اس کے ثمرات آج پاکستان سمیت ساری دنیا کی کرکٹ ٹیمیں سمیٹ رہی ہیں۔ تاجرانہ رویوں اور سیا ست میں بہت فرق ہوتا ہے لیکن بد قسمتی سے سیا ست اور جمہوریت سودے بازی ہو کر رہ گئی ہے اور پاکستان کے ساتھ بھی یہی بدقسمتی رہی ہے کہ ہر کوئی ایک ہی خیال لیے گھر سے نکلتا ہے کہ مجھے کیا ملے گا؟ جس دن ہم سب نے یہ سوچ ترک کرتے ہوئے اس نیت اور ارادے کو اپنے دلوں میں بٹھا لیا کہ ہمارے اس کام سے، اس عمل سے قوم کو کیا ملے گا تو پاکستان کے بہت سے مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں