"MABC" (space) message & send to 7575

اس فخر کو گہنا نہ دینا !

رانا مشہود وزیر قانون پنجاب کا کل کے اخبارات کی لیڈ سٹوری کے طور پر شائع ہونے والا بیان سب نے دیکھ لیا ہو گا جس میں انہوں نے کہا ہے کہ'' نواز شریف کے لاکھوںرضا کار عمران خان کے لانگ مارچ کا راستہ روکنے کیلئے تیار کھڑے ہیں‘‘۔ 7 اگست کے اپنے مضمون ''یہ خون نا حق چُھپے گا کیسے‘‘ میں‘میں نے کچھ با خبر ذرائع کے حوالے سے خبر دی تھی کہ پانچ اضلاع کے ڈی پی اوز کے تیار کر دہ اور پنجاب کے مختلف اضلاع سے نواز لیگ کے اراکین قومی اور صوبائی کے ہزاروں کی تعداد میں ا نتہائی قریبی اشتہاری اور جرائم پیشہ افراد پر مشتمل جتھے عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے آزادی اور انقلاب مارچ پر جگہ جگہ اسی طرح حملے کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جیسے1977ء میں قومی اتحاد کی تحریک کے دوران ہوئے تھے۔ پنجاب پولیس میں شامل سینکڑوں کی تعداد میں گلو بٹ ان کے لیے ہراول دستے کا فریضہ سر انجام دیتے نظر آئیں گے۔ 
اسلام آباد میں سیا سی اورانتظامی طور پر لانگ مارچ سے نمٹنے کے لیے جو کچھ بھی کیا جا رہا ہے وہ تواپنی جگہ لیکن اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ آزادی مارچ کو روکنے کے لیے فوج کے دستوں کو بھی اسلام آباد کی سڑکوں پر پہنچا دیا گیا ہے ۔ممکن ہے اس اقدام کا مقصد کچھ اور ہو لیکن دیکھنے اور سننے والوں کا ایک ہی کہنا ہے کہ یہ کام تحریک انصاف اور ڈاکٹر طاہر القادری کے اسلام آباد کی جانب بڑھنے والے لانگ مارچ کو روکنے کے لیے کیا گیا ہے۔ ان افسران اور جوانوں کی تعداد350 بتائی جا رہی ہے ۔اس سے پیشتر پنجاب پولیس کی انتہائی تربیت یافتہ ایلیٹ فورس کے کمانڈوز کی35 کمپنیاں بھی اسلام آباد پہنچا دی گئی ہیں۔ اب یہ حاکم وقت پر منحصر ہے کہ وہ ان اہل کاروں کا کس طرح استعمال کرتے ہیں۔17 جون کو ماڈل ٹائون لاہورمیں کیے جانے والے قتل عام کا چونکہ کسی بھی سطح پربھر پور نوٹس نہیں لیا گیا‘ اس سے لوگوںکے لیے یہ خدشات محسوس کرنے پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی کہ کیا'' ریاستی طاقت پھر جبر و تشدد کا مظاہرہ کرے گی؟‘‘۔ 
ہم میں سے بہت سوں نے پاکستان بنتے ہوئے نہیں دیکھا لیکن گزشتہ پانچ دنوں سے لاہور اور پنجاب بھر میں جھکی ہوئی کمر والی بوڑھی عورتوں، سفید داڑھی والے بزرگوں، بیمار اور نادار بچوں کو گود میں اٹھائے ہزاروں مائوں کو کنٹینروں کے نیچے سے تارکول کی گرم سڑکوں پر رینگتے ہوئے اپنے گھروںکی طرف جاتے دیکھا تو ایسا لگا کہ پاکستان کی آزادی کا اعلان ہوا ہے اور لوگ بھارتی علا قوں سے گزرتے ہوئے اپنے نئے وطن پاکستان پہنچنے کے لیے سخت مشکلات کو عبور کر رہے ہیں۔جس طرح اس قوم کی بہنوں، بیٹیوں اور بزرگوں کو ذلیل و خوار ہوتے دنیا دیکھ رہی ہے ‘اس نے ہر درد مند دل کوخون کے آنسو رلا دیاہے۔کیا کبھی کسی نے سوچا تھا کہ 67سال بعد ایسا وقت پھر آئے گا کہ لوگ اسی طرح گھسٹ گھسٹ کر راوی کا پل پار کر یں گے جس طرح قیام پاکستان کے وقت سرحد پار کی تھی۔ اس حال تک پہنچانے کے ذمہ دار آج اپنے کئے پر نادم بھی نہیں ہیں۔ ان کے مطابق ان کے پاس اس صورتحال کو کنٹرول کرنے کا اس سے بہتر طریقہ کوئی اور نہ تھا۔ یہ بھی کہا گیا کہ عوام یہ ''تھوڑی سی‘‘ تکلیف برداشت کر لیں کیونکہ یہ سب ان کے مفاد میں کیا جا رہا ہے۔ اگر وہ ہسپتالوں تک نہیں پہنچ پا رہے‘ اگر ان کے بچوں کو خوراک میسر نہیں ہو رہی اور اگر وہ زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم کر دئیے گئے ہیں تو یہ سب ان کی بہتری کے لئے کیا گیا ہے۔ کیا یہ منطق کسی کی سمجھ میں آ سکتی ہے؟ کیا ماڈل ٹائون میں ایم کیو ایم نے جو کھانا بھیجا اسے روکنے کا بھی جواز بنتا ہے ۔ کیا کسی جمہوریت اور مذہب میں عوام کا کھانا پینا اور علاج معالجہ بھی بند کرنے کی اجازت موجود ہے۔ کیا ایمبولنسوں کو راستہ نہ دینا آئینی ہے؟ کیا دنیا کا کوئی بھی مذہب اور دنیا کی کوئی بھی جمہوریت اس عمل کی طرفداری کر سکتی ہے؟ جعلی پولیس مقابلوں کے ماہر اب سادہ کپڑوں میں اپنی کارکردگی کے جوہر دکھا رہے ہیں اور الزام لگایا جا رہا ہے کہ تحریک کے ورکروں نے پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنا ڈالا۔ کسی نہیں معلوم کہ یہ اس لئے کیا جارہا تاکہ ان کے خلاف مقدمات قائم کئے جا سکیں۔
ہندوستان کے بادشاہ سلطان غیاث الدین بلبن کے عہد حکومت میںبدایوں کے گورنر ملک فیض شیروانی نے ایک دن غصے میں بد مست ہو کر اپنے نوکر کو قتل کر دیا۔ نوکر کی بیوہ نے اس پر بہت شور مچا یا لیکن قاتل چونکہ خود بدایوں کا گور نر تھا اس لیے کہیں بھی شنوائی نہ ہوئی۔ چند ماہ بعد اچانک سلطان بلبن بدایوں سے گزرا تو اس بیوہ عورت نے اس کا رستہ روک کر اپنے خاوند کے قتل کی دہائی دیتے ہوئے انصاف مانگا ۔سلطان بلبن نے وہیں رک کر تحقیقات کا حکم دیا اور جب ثابت ہو گیا کہ بیوہ کی فریاد سچی ہے تو سلطان بلبن نے بدایوں کے شہریوں کو وسیع میدان میں جمع ہونے کا حکم جاری کر دیا۔ جب ہر طرف ہجوم اکٹھا ہو گیا تو سلطان نے سب کو سختی سے حکم دیا کہ یہاں موجود ہر شخص گورنر بدایوں کو جو چیز اس کے ہاتھ میں آئے ‘اس سے پوری طاقت سے پیٹے۔ تھوڑی ہی دیر میں گورنر بدایوں ملک فیض اﷲ شیروانی کی چیخیں بند ہو گئیں ۔سلطان بلبن کے حکم سے گورنر بدایوں کی لاش شہر پناہ کے دروازے سے لٹکادی گئی تاکہ دوسرے حاکم اس سے عبرت پکڑ سکیں۔
پاکستان کے آئین کے جس آرٹیکل کا سہارا لیتے ہوئے یہ فوجی دستے اسلام آباد پہنچائے گئے ہیں‘ اس میں تعداد کی کوئی قید نہیں رہ جاتی۔ یہ نقطہ فوج بھی جانتی ہے اور اسے بلانے والے بھی۔ فوج جہاں بھی آئے‘ جتنی تعداد میں بھی آئے پاکستان کے عوام اس کے لیے ہمیشہ سے دیدہ دل فرش راہ کرتے آئے ہیں کیونکہ اس قوم کو پاکستان بننے پربلوچ رجمنٹ کی خدمات اور پھر اپنی فوج کی 1947ء سے ضرب عضب تک دی جانے والی بیش بہا قربانیوں پر ہمیشہ فخر رہا ۔وہ بھولی نہیں ہو گی کہ انہیں بزدل کا خطاب کون لوگ مسلسل دیتے آئے ہیں۔ وہ یہ بھی نہیں بھولی ہو گی کہ ان پر قوم کا بجٹ کھانے کا الزام کون لگاتے رہے ہیں۔ فوج یہ بھی نہیں بھولی ہو گی کہ ان کے خاکی گریبان تک ہاتھ ڈالنے کے نعرے کون بلند کرتے رہے ہیں۔ اگر وہ پیچھے مڑ کر دیکھیں تو وہی چہرے اب انہیں سامنے کھڑے نظر آئیں گے‘ لیکن پاکستان کے عوام جو چودہ اگست کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کریں گے انہوں نے اس فوج کو ہمیشہ پاسبانِ وطن کا خطاب دیتے ہوئے سر آنکھوں پر بٹھایا ہے۔ اخبارات میں پاکستان کی محب وطن آرمی کے چیف جنرل راحیل شریف کی تصاویر شائع ہوئی ہیں‘ جن میں وہ بنوں میںآئی ڈی پیز اور ان کے بچوں کے ساتھ عید مناتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔تصویروں میں قبائلی علاقوں سے بے گھر ہو کر آنے والی مائوں کے بچوں کو اپنی گود میں اٹھائے جنرل راحیل کی آنکھوں میں پر جوش محبت اور چہرے پر پدرانہ شفقت کی سرخی دیکھیں تو ایسا لگتاہے کہ انہوں نے اپنے ہی بچے کو گود میں اٹھایا ہوا ہے اور یہ ہے پاک فوج کا اپنے ملک کے عوام سے عقیدت اور محبت کا انمٹ اور انمول رشتہ جو ہمیشہ سے پاکستان کے عوام کا فخر رہا ہے۔ امید ہے کہ ہمارے فیصلہ ساز اسے گہنانے کی بجائے اسی طرح بر قرار رکھیں گے ۔
پاکستان کی افواج کی تو تاریخ ہی محبت اور جانفشانی سے بھری ہوئی ہے۔ اس فوج نے پاکستان کی ایک ایک بیٹی کے آنچل کی حفاظت کی۔ اور اس سرحد‘ جس کے اندر یہ بیٹیاں رہتی ہیں کے تحفظ کے لیے اپنے جسموں کے ٹکڑوںکو فضائوںمیں اچھا ل دیے جانے سے بھی گریز نہیں کیا۔ اس فوج نے تو اپنے ملک کے عوام کے امن اور چین کی خاطر اپنی گردنوں پر چھریاں چلوائی ہیں۔ کل بھی اور آج بھی۔ اور اس پر اس قوم کو ہمیشہ فخر رہے گا ۔ کہیں اپنا یہ فخر گہنا نہ دینا!!
کیپٹن بلال ظفر شہید نے 17 مئی2007 ء کو اپنی شہادت سے چند منٹ قبل اپنے موبائل سے جو آخریSMS کرتے ہوئے قوم کو پیغام دیا تھا۔وہ یوں تھا۔
In the vallies of bullets....In the thunder of bombs.....thats why they say "DEATH" better from disgrace. ۔۔۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں