"MABC" (space) message & send to 7575

حادثے کا قتل

گیارہ اگست کی پر ہجوم پریس کانفرنس میں عمران خان کے‘ انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کے الزام کے جواب میں حکومت کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ یہ جھوٹ کا پلندہ ہے اور عمران خان ہمیشہ کی طرح پھر جھوٹ کا سہارا لے کر مسلم لیگ نواز کی حکومت کو بدنام کرنے کی نا کام کوشش کر رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے فرمایا ہے کہ قرآن کی قسمیںکھاکر جھوٹ بولنے والے ڈاکٹر طاہر القادری کی بات پر کوئی بھی اب یقین کرنے کو تیار نہیں۔ ان کے جھوٹوں کی طرح ان کا انقلاب بھی اب منہ کے بل گرے گا کیونکہ لوگ ان کے جھوٹ سن سن کر تنگ آچکے ہیں۔ اس سے پہلے خواجہ سعد رفیق اور رانا مشہود کے بیانات تو روزانہ دیکھنے اور سننے کو مل رہے ہیں کہ عمران خان کی سیا ست جھوٹ کی سیا ست ہے۔ جناب پرویز رشید وزیر اطلاعات بھی ہیں اور بھٹو مرحوم کے پرانے جانثار بھی۔ اس لیے وہ پھولوں کو گملوں سمیت گراتے ہوئے بہت ہی پیاری اور دلوں میں اتر جانے والی باتیں کرتے ہیں۔ کل پریس کانفرنس میں اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے احسن اقبال کے ہمراہ انہوں نے پریس کانفرنس میں کیا کہا؟ ان کی زبان سے نکلے ہوئے ان الفاظ کی قدر و قیمت کا اندازہ ہم جیسے کم علم لوگ کرنے سے ہمیشہ قاصر رہے ہیں ۔ پرویز رشید اور رانا مشہود کی عمران خان کے بارے میں پریس کانفرنس یا کسی ٹی وی شو میں کہی جانے والی بات کا تو آغاز ہی یہ کہتے ہوئے ہوتا ہے کہ '' عمران خان نے لاہور کے جلسہ عام میں کبھی بھی قوم سے جھوٹ نہ بولنے کا وعدہ کیا تھا لیکن وہ ہر وقت الٹی سیدھی باتیں کرتے ہوئے جھوٹ پر جھوٹ بولے جا رہے ہیں‘‘۔ ان سب حضرات کے فرمودات سننے کے بعد جو بات ہماری سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ عمران خان اور طاہر القادری جھوٹے ہیں اور ہمیشہ جھوٹ ہی بولتے رہتے ہیں۔
17 جون کو ادارہ منہاج القرآن میں جو کچھ کیا گیا۔ وہ دنیا نے دیکھا اس پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ اس کے بعددس اگست کو جو شہا دتیں ہوئیں چاہے وہ پولیس کی ہوں یا عوامی تحریک کی‘ یہ قومی نقصان تھا۔ اس پر دونوں جانب سے اگر سیاست کی جائے تو وہ منا سب نہیں بلکہ یہ غم زدہ خاندانوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔ جن پولیس والوں کے ہلاک ہونے کی اصل وجوہ ٹوئسٹ کی جا رہی ہیں وہ اخلاقی طور پر اور مذہبی طور پر کسی طرح بھی منا سب نہیں۔ کیا پنجاب کے حکمرانوں کو پانچ سے زیا دہ خفیہ اداروں نے یہ نہیں بتایا تھا کہ پولیس کے یہ لوگ عوامی تحریک والوں نے نہیں مارے بلکہ ان میں سے ایک سپیشل جج بینکنگ کورٹ احمد نواز رانجھا کا گن مین محمد اشرف بیلٹ نمبر 9005 لاہور ہے‘ جو فیروز پور روڈ پر ٹریفک حادثے میں اور دوسرا ڈاکوئوں کے ساتھ جھڑپ میں مارا گیا۔
خادم اعلیٰ پنجاب کی بے خبری کہہ لیں یا سیا سی سکور کرنے کی کوشش‘ کہ ان کی جانب سے نارووال سے تعلق رکھنے والے پولیس کانسٹیبل اشرف کی ہلاکت پر جب ان کے پس ماندگان کیلئے ایک کروڑ روپے کی امداد کا اعلان کیا گیا اور مرحوم کانسٹیبل کی برادری کے کچھ لوگوں نے جب ایک کروڑ روپے معاوضہ کی خبر سنی‘ تو حسد سے جلنے والے کچھ ''شریکوں‘‘ نے میڈیا کے چند لوگوں کو اصل اور سچی بات پہنچا دی اور پھر جنرل ہسپتال کے ڈاکٹروں نے سارا بھید کھول دیا۔ ہسپتال کی انتظامیہ کا کارنامہ دیکھیں کہ حادثے میں مرنے والے کی ہلاکت کو قتل میں تبدیل کرتے ہوئے تھانہ نصیر آباد میں بے گناہ لوگوں کو اس کے مقدمہ قتل میں ملوث کرلیا۔ عدالت عالیہ میں کنٹینر کیس کی سماعت کے دوران میڈیا کی جانب سے اس سارے جھوٹ کا پردہ اس طرح چاک ہوا کہ اسی کانسٹیبل کا بھائی بول اٹھا کہ اس کا بھائی حادثے میں ہلاک ہوا ہے۔ پھر میڈیا کھوج میں نکلا تو ثابت ہو گیا کہ بد قسمت کانسٹیبل عوامی تحریک کے ارکان نے نہیں بلکہ فیروز پور روڈ پر ارفع ٹاور کے قریب موٹر سائیکل کے ایک حادثے میں ہلاک ہوا۔ لیکن سب نے دیکھا کہ حکمران سرکاری اور نجی ٹی وی چینلز پر اس کانسٹیبل کے خاندان اور ''شہریوں‘‘ کے تاثرات اس طرح دکھاتے رہے جیسے اشرف کانسٹیبل کو دہشت گردوں کے کسی گروپ نے قتل کر دیا ہے۔ 
2001ء کی بات ہے جب ''کچھ لوگ‘‘ شاہی جہاز میں بیٹھ کر اچانک سعودی عرب چلے گئے جہاں با برکت مکہ مکرمہ ہے اور خانہ کعبہ ہے جس کا طواف رہتی دنیا تک جا ری رہے گا۔ اسی سعودی عرب میں مدینہ منورہ ہے جہاں ہادی بر حق رحمت اللعالمین نبی آخرالزمان حضرت محمد مصطفیٰﷺ کا روضہ مبارک ہے جن پر قرآن پاک نا زل ہوا جو ان لوگوں کو ہدایت دیتا ہے جن پر اﷲ اپنا فضل کرتا ہے۔ قرآن پاک لوگوں کو ہدایت دینے والی اﷲ کی آخری کتاب ہے۔ اس قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ لوگوں کو جھوٹ بولنے اور جھوٹی تہمت لگانے سے منع کرتے ہیں۔ اسی ملک میں وہ مقام بھی ہے جسے غار حرا کہتے ہیں جس میں حضرت محمد مصطفےﷺ پر پہلی وحی نازل ہوئی۔ اسی سرزمین پر وہ مقام نبوی بھی ہے جہاں کھڑے 
ہو کر رسولِ خدا نے آخری خطبہ دیا تھا۔ اسی ملک میں بیٹھ کر پاکستان سے آ ئے ہوئے ''کچھ لوگ‘‘ ایک بار نہیں ہزار بار کہتے رہے کہ ہم نے دس سال تک ملک سے باہر رہنے کا کوئی معاہدہ نہیں کیا۔ مدینہ منورہ میں روضہ رسولؐ کے رحمت اور ٹھنڈک دینے والے سبز گنبد کے سائے میں جہاں ایک مسلمان کی زبان سے اﷲ کی وحدانیت اور نبی اکرمﷺ کی تعلیم کے سوا کوئی اور بات زبان سے نہیں نکلتی‘ اس مقدس سرزمین پر پاکستان سے عمرہ کی سعادت کیلئے آئے لاکھوں لوگوں کے پوچھنے پر لاکھوں بار کہا گیا ''ہم نے حکومت پاکستان سے سعودی عرب میں رہنے کا کسی بھی قسم کا کوئی معاہدہ نہیں کیا۔ پھر ساری دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہر کان نے یہ کہتے ہوئے سنا کہ ہاں! ہم نے حکومت پاکستان سے معاہدہ کیا تو ہے لیکن یہ معاہدہ دس سال کا نہیں بلکہ پانچ سال کا کیا ہے۔ لیکن اُسی سعودی شہزادہ مقرن بن عبد العزیز بن سعود نے جن سے جناب وزیر اعظم رمضان المبارک میں ملاقات کر کے آئے ہیں‘ پاکستان پہنچ کر وہ تمام کاغذات دنیا بھر کے میڈیا کو دکھاتے ہوئے بتایا تھا کہ نواز شریف کا ہماری ضمانت پر دس سال تک پاکستان کی سیا ست سے دور رہنے کا معاہدہ ہوا ہے۔ جس کی کاپیاں انہوں نے میڈیا کے حوالے کیں۔ لہٰذا حادثوں کو قتل بنانے کی روایات چھوڑ دیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں