کسان نے شہر کی غلّہ منڈی کے آڑھتی سے ،ادھار کہہ لیں یا ایڈوانس سمجھ لیں ،کچھ رقم لیتے ہوئے وعدہ کیا کہ وہ یہ رقم اگلے ہفتے فصل کی فروخت پر ادا کردے گا۔ دس دن اور پھر پندرہ دن گزر گئے، وہ کسان اپنی فصل اس کی آڑھت پر لے کر نہ آیا۔ آڑھتیوں کو سب پتہ ہوتا ہے کہ ان کے علا قے میں کس کس کی فصل کٹ چکی ہے۔کوئی ایک ماہ انتظار کرنے کے بعد اس آڑھتی نے اپنے ملازم کے ہاتھ کسان کو پیغام بھیجا کہ شیخ صاحب آپ کو یاد کر رہے ہیں۔ اُس نے جواب بھیجا کہ ایک ہفتے تک ملنے کیلئے آ رہا ہوں۔ ہفتہ گزرنے کے بعد مزید دس دن گزر گئے لیکن کسان نے نہ تو رقم بھیجی اور نہ ہی خود آیا۔قصہ مختصر دن پر دن گزرتے رہے ،شیخ صاحب پیغام بھیج بھیج کر تھک گئے لیکن کسان نے آڑھت والے شیخ صاحب سے فصل کے نام پر لی رقم کی ادائیگی نہ کی ،نہ ہی فصل لے کر آیا۔ شیخ صاحب نے غلہ منڈی کے چند لوگوں کو بھی اس کے پاس بھیجا لیکن کسان کسی وعدے پر پورا نہ اُتر سکا۔ کاروباری لوگ عموماً لڑائی جھگڑوں سے اجتناب کرنے والے ہوتے ہیں؛ چنانچہ شیخ صاحب بھی تھک ہار کر صبر کر کے بیٹھ گئے۔
ایک دن عجب واقعہ ہوا کہ وہ کسان جو کئی سال سے شیخ صاحب کو اپنی شکل نہیں دکھا رہا تھا‘ صبح صبح ہی لمبی سی سلام کے ساتھ ان کے پاس منڈی پہنچ گیا۔ شیخ صاحب اسے دیکھ کر کچھ حیران ہوئے لیکن اس کے سلام کے جواب میں کوئی گرم جوشی نہ دکھائی، بلکہ غصے سے منہ دوسری جانب پھیر لیا ۔کسان ان کی بے رخی دیکھ کر کہنے لگا :شیخ صاحب! میں آج صبح صبح ایسے ہی نہیں آیا بلکہ آپ کی رقم کی ادائیگی کا پورا بندو بست کر کے آیا ہوں، آپ کے چہرے سے لگتا ہے کہ مجھ سے کچھ ناراض ہیں ،اپنا غصہ تھوک دیجئے اور میرے ساتھ چلیں۔شیخ صاحب کہنے لگے :بھائی !مجھے اب اتنے برسوں بعد کہاں لے کر جا رہے ہو ،میں تو تم پر اعتماد کرتے ہوئے تمہیں ادھار دینے کے بعد اتنے برسوں سے صبر کر کے بیٹھ گیا تھا، میری جو رقم ہے ،وہ تمہیں بھی پتہ ہے ،اگر دینی ہے تو یہاں پر ہی مجھے دے دو ۔اس پر کسان کہنے لگا کہ میں آپ کی ناراضگی دور کرنے کے لیے ہی آپ کو ساتھ لے کر جانا چاہتا ہوں تاکہ آپ کو اندازہ ہو جائے کہ اتنے دنوں تک میں آپ کی ادائیگی کیلئے کیا کچھ جتن کرتا رہا ہوں۔شیخ صاحب نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے ایک ملازم کو ساتھ لیے کسان کے ساتھ چل پڑے۔ کافی دیر چلنے کے بعد کسان شیخ صاحب کو ایک جگہ کھڑا کر کے کہنے لگا :یہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ میں نے اس سڑک کے دونوں جانب بیریوں کے پودے لگا دیئے ہیں۔ شیخ صاحب کہنے لگے کہ ہاں میں دیکھ رہا ہوں لیکن ان کا میری ڈوبی ہوئی رقم سے کیا تعلق بنتا ہے؟اس پر کسان نے بڑے پیار سے شیخ صاحب کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا:جناب یہیں پر تو آپ کی رقم ہے۔ شیخ صاحب حیران ہوتے ہوئے اس کی شکل دیکھنے کے بعد کہنے لگے :یہاں کہاں ہے ،مجھے تو نظر نہیں آ رہی۔ کسان کہنے لگا‘ جناب! وہ اس طرح کہ بیریوں کے یہ درخت بڑے ہو کر سڑک کی دونوںجانب پھیلیں گے اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں یہ کپاس والا علاقہ ہے، زمیندار اور جننگ فیکٹریوں والے جب کپاس اپنی ٹریکٹر ٹرالیوں پر لاد کر اس سڑک سے گزریں گے تو بیری کے ان درختوں کے کانٹوں کے ساتھ لازمی طور پر اوپر تک لدی کپاس اٹکے گی اور ان کانٹوں کے ساتھ چمٹنے والی کپاس اتار کر بازار میں اسے بیچ کر آپ کی ادھار لی ہوئی رقم ادا کروں گا۔یہ سنتے ہی شیخ صاحب کی بے ساختہ ہنسی چھوٹ گئی اور وہ ہنستے ہنستے دہرے ہو گئے۔ کسان کہنے لگا: ''شیخ جی ہاسے تے آئونے ای نیں ، پتہ اے نا کہ پیسے ترن لگے نیں‘‘ (شیخ صاحب! ہنسی تو آئے گی، پتہ جو چل گیا ہے کہ اب آپ کی رقم کی ادائیگی کا بندوبست ہو گیا ہے)
کنونشن سنٹر، ریڈیو اور ٹی وی پر قوم سے اپنی نشری تقریر ، تیرہ اگست کی رات پارلیمنٹ کے سامنے اور پھر چودہ اگست کو زیارت میں تقاریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے بجا فرمایا کہ انہیں اب تک جم کر کام کرنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا اور آمروں نے سازشیں کر کر کے ان کی اور پیپلز پارٹی کی حکومتیں ختم کر دیں۔انہوں نے کہا : کبھی ہمیں اٹھارہ ماہ دیے گئے تو کبھی ڈھائی سال مشکل سے ملے ۔وزیر اعظم کی اس تقریر پر نہ جانے کس ''عقلمند‘‘ نے تبصرہ کرتے ہوئے کہہ دیا کہ'' چلیں آپ 18 ماہ اور ڈھائی سال کی حکومت میں اپنی اور اس ملک کے عوام کی ترقی اور خوش حالی کا موازنہ کر لیں کہ کس کی دولت اور خوش حالی بڑھی ہے‘‘۔ اس تبصرے پر جب میں نے کچھ کہنا چاہا تو میرے استاد محترم گوگا دانشور مجھے کسان اور آڑھتی والا قصہ سنانے لگ گئے ۔ گوگا دانشورخیر سے خود بھی شیخ ہیں۔ جب گوگا دانشور یہ قصہ سناچکے تو چند ہی لمحوں بعد ہمارے قابل احترام وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی اسلام آباد کے کنونشن سینٹر میں احسن اقبال کے تیار کر دہ وژن 2025ء کی تقریب سے خطاب کی جھلکیاں ٹی وی چینل پر دکھائی جانے لگیں۔ جناب وزیر اعظم فرما رہے تھے کہ ہمارے دور حکومت میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کر
دی جائے گی، لیکن یہاں میں آپ کو خاتمے کی کوئی حتمی تاریخ نہیں دے سکتا؛تاہم اگر ہمیں دس سال دے دیے جائیں تو ہم ملک کے کو نے کونے میں خوشحالی کے باغ لگاتے ہوئے عوام کے سب مسائل حل کر دیں گے۔انہوں نے بتایا: ملک میں بجلی پیدا کرنے والے اتنے پلانٹ لگا رہے ہیں کہ دس سال بعد ہر طرف روشنی ہی روشنی ہو جائے گی۔ آپ رات کی بات کر رہے ہیں پاکستان میں دن کو بھی ہر طرف بجلی کی روشنیاں چمکتی دمکتی نظر آئیں گی بلکہ اگر مسلم لیگ نواز کو دس برس اور مل گئے تو ہم چین کو بھی بجلی فروخت کرنے لگیں گے۔ استاد محترم گوگا دانشور کے ڈیرے پر بیٹھے ہوئے لوگ جناب وزیراعظم کی یہ تقریر سنتے سنتے اس قدر بلند آواز سے قہقہے لگانے لگے کہ ایسا لگتا تھا ، سب پاگل ہو گئے ہیں۔ میں نے سوالیہ نظروں سے گوگا دانشور سے پوچھا :جناب آپ کے یہ شاگرد نا ہنجار پاگلوں کی طرح ہنسے کیوں جا رہے رہے ہیں؟ اس پر گوگا استاد میری جانب غور سے دیکھتے ہوئے کہنے لگے ''یہ اس لیے خوشی سے پاگل ہو کر ہنسے جا رہے ہیں کہ انہیں پتہ چل گیا ہے کہ وزیر اعظم کے وعدے اور احسن اقبال کے تیار کر دہ وژن 2025ء کے مکمل ہونے کے بعد ان لوگوں کے سب مسئلے مسائل چٹکی بجاتے ہی حل ہو جائیں گے ، ان کی جیبیں ہر وقت پیسوں سے بھری رہیں گی، لوڈ شیڈنگ نہیں ہو گی اور نہ ہی پانچ بچوں کے باپ بھوک اور ننگ کے ہاتھوں مجبور ہو کر راوی میں چھلانگیںلگایا کریں گے۔