کہتے ہیں کسی زمانے میں ایک ریاست میں سموسے والے قیمتوں میں اضافہ کرکے بارہ روپے فی سموسہ بیچنے لگے۔ لوگوں نے احتجاج کیا لیکن کوئی اثر نہ ہوا۔ اتفاقاً ایک شام دارالحکومت کے کسی بڑے گھر کا ملازم بیگم صاحبہ کے حکم پر سپر مارکیٹ سے سموسے لینے گیا۔ واپسی پر اس نے بیگم صاحبہ کو بل دیا تو وہ حیران رہ گئیں کہ منافع خوروں نے سموسے کی قیمت بارہ روپے کر دی ہے۔ اسی وقت حکم ہوا کہ کل اس کا سو موٹو ایکشن لیا جائے؛ چنانچہ حسب حکم اگلے دن سموسے والے منافع خوروں کے خلاف کارروائی شروع ہو گئی۔ پھر سب نے دیکھا کہ ٹی وی کی سکرینوں پر سموسے والوں کی مذمت کی فلمیں چلنا شروع ہو گئیں۔ اسی دوران پاکستان بھر سے اپنے مقدمات کی پیروی کے لیے آئے سینکڑوں لوگوں کو کہہ دیا گیا کہ وہ واپس گھروں کو چلے جائیں۔ آج آپ کے مقدمات کی سماعت نہیں ہوگی؛ بلکہ آج صرف عوام کیلئے سموسے کی قیمتیں کم کرنے کا دن ہے۔ پھر چیف کمشنر اور آئی جی کو حکم جاری ہوا کہ سموسے کی قیمت فوری طور پر کم کرائی جائے ورنہ تمہارے سمیت سب کو سلا خوں کے پیچھے بند کر دیا جائے گا۔
اﷲ نے کرم کیا اور ریاست کی اس آبادی کو آپ اٹھارہ کہہ لیں یا انیس کروڑ، سب نے سکھ کا سانس لیا اور سموسہ بارہ روپے سے کم ہو کر کہیںآٹھ تو کہیں دس روپے کا بکنا شروع ہو گیا۔لوگ دھڑا دھڑسموسے کھاتے اور پھر'' صاحب بہادر‘‘ کو دعائیں دیتے جن کی وجہ سے ان کا اہم ترین مسئلہ فوراً حل ہو گیا۔اب یہ علیحدہ بات ہے کہ سموسوں میں سبزی، قیمہ کے علا وہ مٹن، بیف اور چکن بھی استعمال ہوتا ہے اس لیئے ان سب سموسوں کی قیمتیں الگ الگ مقرر کرنا پڑیں، لیکن حکم جاری ہونے کی وجہ سے یہ ہوا کہ سب طرح کے سموسوں کی قیمتیں پہلے کی نسبت کم ہو گئیں اور انصاف کی کرسی پر بیٹھے ہوئے یہ بیش بہا کارنامہ سر انجام دینے والے قاضی کیلئے دلوں سے دعائیں نکلنا شروع ہو گئیں۔
ہو سکتا ہے کہ کئی سال بعد کوئی ''صاحب ایمان‘‘ جس نے یہ کہانی پڑھ رکھی ہو‘ سوچنے پر مجبور ہو جائے کہ کیا اس جہاں میں ''ادارہ منہاج القرآن ماڈل ٹائون لاہور میں ماں کے پیٹ میں پانچ ماہ کا گولیوں کی بو چھاڑ سے ہلاک ہونے والا اﷲ کا مہمان ایک سموسے جتنی وقعت بھی نہیں رکھتا تھا؟‘‘ اس پانچ ماہ کے بچے اور اس کی ماں تنزیلہ کی ارواح یہ سوال تو ضرور کرتی ہوں گی: یا اللہ! کیا تیری دنیا میں سموسہ‘ انسانی جان سے زیا دہ عزت اور توقیر والا بن گیا ہے؟ کیا سموسے انسانی جانوں سے زیادہ قابل
احترام ہو گئے ہیں؟ شازیہ شہید کی روح ضرور سوچتی ہو گی کہ خدا کی اس دنیا میں اگر میری جان کی وقعت ایک سموسے کے برا بر بھی نہیں تھی تو مجھے پیدا کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ تنزیلہ شہید نے سرور کائنات محمد مصطفیٰ ؐ سے ضرور عرض کیا ہو گا ''یا رسول اﷲ! اس اسلامی ریاست میں بیٹھے ہوئے یہ کیسے منصف ہیں؟ یہ کیسے لوگ ہیں؟ یہ کیسا پاکستان ہے؟ جہاں میرے پیٹ میں اﷲ کے حکم سے پرورش پانے والی روح کے قتل کا سموسے کی طرح کا
نوٹس بھی نہیں لیا جا سکا؟۔ وہ ننھی روح اپنے رب سے ضرور شکوہ کرتی ہوگی اگر میرے قاتلوں کیلئے تیری اس دنیا میں کوئی باز پرس نہیں ہے تو پھر مجھے اشرف المخلوقات کی شکل کی بجائے ایک سموسہ ہی بنا دیا ہوتا تاکہ مجھے دو روپے مہنگا بیچنے والوں کے خلاف سو مو ٹو کے ذریعے قانون ہی حرکت میں آ جاتا؟ ‘‘
زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ انگریز کے دور میں عدالت اور پولیس کا نظام ایسا تھا کہ ایک عام انسان کو بھی اہمیت دی جاتی تھی۔ اُسے انصاف ملتا تھا۔ آج تذلیل انسانیت کا یہ عالم ہے کہ تنزیلہ اور شازیہ کو گولیوں سے اُڑانے کے بعد ان کی لاشوں کو کئی گز گھسیٹنے کے بعد پولیس کی وین میں بوریوں کی طرح پھینکا گیا ۔ چودہ افراد گولیوں سے چھلنی کر دیئے گئے۔ 83 افراد کو قتل کی نیت سے کلاشنکوفوں اورجی تھری رائفل کی گولیاں ماری گئیں۔ ان زخمیوں پر مظالم کی اس دنیا میں کوئی شنوائی نہیں؟ اسلامی ریاست کا ایک چھوٹا مگر باہمت منصف ،قانون کا احترام کرتے ہوئے چودہ افراد کے قاتلوں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیتا ہے۔ دس روز
گزر گئے لیکن مقدمہ درج نہیں ہوا۔ اسی اسلامی ریاست کے اندر سانحہ ماڈل ٹائون کے مقتولین اور زخمی انصاف سے محروم ہیں۔ عدل و انصاف کی فراہمی اور مظلوم کی دا د رسی اور مجرم کو اس کی سماجی حیثیت کی پروا نہ کرتے ہوئے اسے قرارواقعی سزا دینا اسلام کے قانون عدل کا روشن پہلو ہے۔ افسوس کہ آج روشن اسلامی تعلیمات سے روگردانی کی جا رہی ہے۔ سب دیکھ رہے ہیں لیکن چپ ہیں۔ سب سن رہے ہیں لیکن خاموش ہیں۔ کوئی بھی آگے بڑھ کر نوٹس نہیں لیتا اور یہ نہیں پوچھتا کہ اسلام کے نام پر قائم اس مملکت خداداد میں اسلام کے انصاف اور جرم و سزا کے بارے میں احکام پر کیوں عمل نہیں ہو رہا؟ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں صاف صاف ارشاد فرمایا ہے ''ولقد کرمنا بنی آدم‘ یعنی ہم نے بنی آدم کو مکرم بنایا‘‘ ایک اسلامی ملک میں‘ جو لا الہ کی بنیاد پر وجود میں آیا ہو‘ انسان اور انصاف کی اس قدر بے حرمتی‘ اللہ ہمیں معاف کرے! اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی کرنے والی بستیاں‘ کبھی فروغ نہیں پاتیں! یاد رکھیں‘ ''کوئی ملک کفر کے ساتھ قائم رہ سکتا ہے‘ ظلم کے ساتھ نہیں‘‘۔ جس ملک میں جس معاشرے میں ایک سموسہ چودہ انسانوں کی جان سے زیا دہ اہمیت رکھتا ہو وہ معاشرہ کم از کم اسلامی معاشرہ کہلانے کا مستحق نہیں۔