"MABC" (space) message & send to 7575

وہ حملہ کیوں بھول گئے؟

اسلام آباد میں تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنے پندرہ دن تک جاری رہے لیکن ایک پتہ بھی نہ ٹوٹا لیکن جونہی یہ دھرنے بلیو ایریا سے ریڈ زون کی جانب بڑھے تو ان پر آفت ٹوٹ پڑی۔ شہدا اور زخمیوں کی صحیح تعداد فی الحال معلوم نہیں۔ کوئی اسے لشکر کشی تو کوئی اسے حیا باختہ لوگوں کے اجتماع کا نام دے رہا ہے۔ بعض وزرا انہیں گھس بیٹھئے اور دہشت گردوں کا نام دے رہے ہیں۔ یہ کہتے ہوئے وہ بھول گئے کہ وہ خود کیا کرتے رہے۔ کسے یاد نہیں کہ انہوں نے آٹھ سال قبل پنجاب اسمبلی پر حملہ کیا اور ایوان میں لگی قائد اعظم کی تصویر کو نذر آتش کر دیا۔ ان سب کی قیا دت خواجہ سعد رفیق کہہ رہے تھے۔ میرے بھائی نے جو اس وقت پولیس میںڈی ایس پی تھے، قائد اعظم کی تصویر کو بچانے کی کوشش کی تو حملہ آوروں نے ان کا ہاتھ توڑ دیا۔ 
14 فروری2006ء کو لاہور کی مال روڈ، ایجرٹن روڈ اور ڈیوس روڈ پر مسلم لیگ نواز کی جانب سے جو کچھ کیا گیا وہ بے شمار لوگوں کے ذہنوں میں ابھی تازہ ہے۔ اس دن برپا کی جانے والی بربادی اور سفاکی مختلف ٹی وی چینلز کے آرکائیو میںآج بھی موجود ہے۔ لاہور کی سڑکوں اور فضائوں میں ہر طرف آگ اور دھوئیں کے بادل اٹھ رہے تھے۔ اخبارات کی فائلیں گواہ ہیں کہ اس وقت نواز لیگ کے بہت بڑے رہنما نے ان واقعات پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا '' شکر ہے آج لاہور بیدار ہو گیا‘‘۔ 
مال روڈ، ایجرٹن روڈ، ڈیوس روڈ پر دکانیں، مکانات، گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں تو دور کی بات، غریب عوام کی درجنوں سائیکلیں تک جلادی گئیں۔ جو زیادہ ''گستاخ‘‘ تھے ان کی گاڑیاں، ریسٹورنٹ اور دکانیں جلا دی گئیں۔ مال روڈ اور اس سے ملحقہ سڑکوں پر کھڑے درجنوںٹھیلے اور ریڑھیاں جن سے غریب اور ''گستاخ‘‘ لوگ روزانہ رزق کماتے تھے وہ بھی احتجاجی کارکنوں کی مہربانی سے آگ کی نذر کر دی گئیں۔ جب نواز لیگ کے کارکنوں کی جانب سے یہ سب کچھ کیا جا رہا تھا تب اُس وقت وزیراعلیٰ چودھری پرویزالٰہی نے پولیس کو ایک گولی بھی چلانے کا حکم نہیں دیا تھا۔ میاں عامر محمود نے، جو لاہور کے ناظم تھے‘ ان سب غریب لوگوں کو نئی سائیکلوں اور موٹر سائیکلوں کے علا وہ نئی ریڑھیاں بھی خرید کر دیں تاکہ یہ وہ اپنا اور اپنے بچوں کا رزق کما سکیں۔ 
لاہور کے لوگ بھولے تو نہیں ہوں گے کہ 14 فروری 2006ء کی صبح گیارہ بجے سے ہی نوجوانوں کی ٹولیاں مختلف علاقوں سے مال روڈ کی طرف بڑھ رہی تھیں ان سب کے ہاتھوں میں پٹرول کی بوتلیں، ڈنڈے اور لاٹھیاں تھیں اور ان کی آپس میں بے ہودہ گفتگو اور ظاہری حالت سے لگ رہا تھا کہ انہیں ناموس رسالت کے تحفظ کا نہیں بلکہ کوئی اور ہی ٹاسک دے کر بھیجا جا رہا ہے۔ کسے یاد نہیں کہ یہ لوگ پاس سے گزرنے والی گاڑیوں اور ان میں بیٹھی خواتین کی طرف بے ہودہ اشارے کرتے تھے۔ سوچئے! ایسا کرنے والے تو خود گستاخی کے مرتکب ہو رہے تھے۔ دوبجے تک مال روڈ پر جمع ہونے والے ہجوم اور ان کے نعروںسے یہ صاف ظاہر ہوگیا تھا کہ ان کے ارادے نیک نہیں۔ آج مال روڈ کو آگ اور خون میں نہلا دیا جائے گا۔ اخباری اور نشریاتی اداروں سے وابستہ سبھی لوگ کہہ رہے تھے کہ آج لاہور کی تاریخ کا بدترین دن بننے جا رہا ہے ۔
نیلا گنبد سے مال روڈ اور وہاں سے ایجرٹن روڈ اور پھر ڈیوس روڈ پر جو کچھ ہوا، چاروں طرف سے آسمان کی طرف اٹھنے والے سیاہ دھوئیں کے بادل چودہ فروری کی شام غریباں بن کر رہ گئے۔ ایجرٹن روڈ پر ایک غیر ملکی ریستوران اور پانچ بینک ان کا نشانہ بنے۔ بینکوں کے دروازے توڑنے کی کوشش کی گئی لیکن ناکامی ہوئی۔ وہاں سے یہ لوگ ریگل چوک آئے اور یہاں بھی انہوں نے بینکوں کو نشانہ بنایا۔ جو لوٹ مار ہوئی اُسے لاکھوں پاکستانیوں نے دیکھا اور سنا۔ 
فسادیوں کے یہ گروپ منصوبہ بندی سے آگے بڑھتے رہے۔ نقی مارکیٹ مال روڈ کے دائیں بائیں دکانوں اور پیزا ہٹ کو لوٹتے اور فاسٹ فوڈ ریستورانوں جلاتے ہوئے یہ ہجوم پنجاب اسمبلی پہنچ گیا۔ ان کی قیا دت آج کے ایک وفاقی وزیر کر رہے تھے۔ انہوں نے اسمبلی ہال پر دھاوا بول دیا جو کچھ سامنے آیا تہس نہس کردیا۔ اسمبلی ہال میں لگی ہوئی قائد اعظم کی تصویر کی بے حرمتی کی۔ پھر انہوں نے جیبوں سے پٹرول کی چھوٹی چھوٹی بوتلیں نکال کر جس تیزی سے چاروں طرف آگ لگائی اس سے وہاں موجود میڈیا کے لوگ بھی حیران رہ گئے۔ 8سال قبل 25 کروڑ روپے سے زائد کی املاک جلانے والے اس وفاقی وزیراور اس کے ساتھیوں کے خلاف اس رات درج کئے گئے وہ تمام مقدمات ختم کیے جا چکے ہیں۔ ان پر مال روڈ، اسمبلی ہال اور ایجرٹن روڈ پر درجنوں دوکانوں اور بینکوں کے علاوہ دو سو کے قریب موٹر سائیکلوںاور سائیکلوں کو جلانے اور انہیںتباہ برباد کرنے کے الزامات تھے۔ آپ کو وہ دن نہیں بھولنے چاہئیں جب آپ نے زرداری صاحب کے دور میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خلاف پنجاب بھر میں پھیلے ہوئے واپڈا کے دفاتر کو پولیس کی سرکاری پرستی میں راکھ کا ڈھیر بنایا۔ آج وہی لوگ 16 جون کو منہاج القران پر گولیوں کی بارش برساتے ہوئے حاملہ عورتوں سمیت 14 انسانوں کو بے دردی سے شہید کرنے کے بعد بھی ٹی وی چینلزپر بڑے فخر سے فرمارہے ہیں کہ'' ان شر پسندوں نے پولیس پر پتھرائو کیوں کیا تھا...! ‘‘

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں