"MABC" (space) message & send to 7575

پہاڑ کا صبر

پاکستان کی سرزمین کے محافظوں کے بارے میں بعض سیاسی رہنمائوں کی جانب سے گزشتہ چند روز سے جس قسم کی زبان استعمال کی جا رہی ہے۔کیا وہ مناسب ہے ؟وہ کون سا الزام ہے جو نہیں لگایا جا رہا۔ ایک ''عالم دین‘‘ جب اپنے اندر کا زہر اگل رہے تھے تو اس لمحے لائن آف کنٹرول باغ آزاد کشمیر کی ایک چوٹی سے گرنے والے مٹی کے تودے نے وطن کی برفیلی سرحدوں پر پہرہ دیتے ہوئے ہماری فوج کے ایک افسر اور تین جوانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیاتھا۔جب اس نوجوان افسر اور تین جوانوں کی میتیں اٹھائی جا رہی تھیں تو ان کے لواحقین‘ جن میں ان کے ماں‘ باپ‘ بیوی‘ بچے شامل تھے ،ان کے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بچھڑنے کے غم میں آہ و زاری کر رہے تھے۔ بچے باپ کی شفقت سے محروم ہو گئے تھے اور بیوائوں کی مانگ اجڑ چکی تھی۔ 
جب اس قومی ادارے کو مختلف قسم کے القابات سے نواز ا جارہا تھا‘انہی لمحات میںسیالکوٹ میں سیلاب میں ڈوبے ہوئے قوم کے بچوں کو بچاتے ہوئے پاک فوج کا ایک جوان اپنی جان کا نذرانہ پیش کر رہا تھا۔ہر کوئی ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر گلے پھاڑ پھاڑ کر شہیدوں کی روحوں کو کچوکے لگا رہا ہے‘ لیکن ''پہاڑ ‘‘اپنی جگہ پر خاموش ہے۔ وہ صبر سے کراہ رہا ہے۔ کوئی بیلچے سے، تو کوئی پھائوڑے سے اس پہاڑ کے پرخچے اڑانے میں لگا ہوا ہے۔ ان گروہوں نے جمہوریت کے نام پر اس ملک کے غریب عوام کی کھینچی ہوئی کھالوں کو اپنی ڈھال بنایا ہوا ہے۔ ان میں سے ایک گروہ ،جو کالا باغ ڈیم کو بم سے اڑانے کی کھلم کھلا دھمکیاں دیتا رہا‘پارلیمنٹ ہائوس کے باہر بیٹھے ہوئوں کو دہشت گرد کہہ رہا ہے۔ اگر یہ گروہ چار سال قبل ایبٹ آباد کا12 اپریل2010ء کا وہ دن بھول گیا ہے تو اسے یاد کرائے دیتا ہوں کہ اس روز ہزارہ کے عوام پر پشاور سے بلائی گئی خاص پولیس نے اندھا دھند فائرنگ کرکے 12افراد کو شہید کر دیا تھا۔ بھول گئے ہو ان درجنوں لوگوں کو ، جنہیں با چا خان کی پولیس نے ایبٹ آباد کی سڑکوں پر گولیوں سے اسی طرح چھلنی کردیا تھا جس طرح سترہ جون کو ماڈل ٹائون میں پنجاب پولیس نے کیا۔ 
جمہوریت کے ان نام لیوائوں کی طرف سے عائد کیے گئے ہر الزام کو نظر انداز کیاگیا لیکن ان کا اپنا ظرف دیکھیے کہ جب ان میں سے ایک نے دوسرے کے خلاف تھوڑی سی زبان کھولی تو لوگوں نے دیکھا کہ سب آگ بگولہ ہو گئے۔ آئین کے محافظوں نے پارلیمنٹ میں ایک طوفان کھڑا کر دیا۔ سب کی میانوں سے تلواریں نکل کر ایک دوسرے پر کوندنا شروع ہو گئیں ۔ ان کے صبر کے پیمانے لبریز ہو گئے اور ایک دوسرے کے خلاف وہ زبان استعمال کی گئی کہ الامان و الحفیظ۔ ایک طرف مولانا صاحب ان کی مدد کو آرہے تھے تو دوسری طرف شیرپائو تھے۔ اس ملک کے عوام سمیت سب نے دیکھا کہ ایک چھوٹے سے الزام پر وزیراعظم کو پارلیمنٹ میں دست بستہ کھڑے ہو کر چودھری اعتزاز احسن سے معافی مانگنی پڑی۔ اسی پر بس نہیں بلکہ راجہ ظفر الحق‘ خورشید شاہ صاحب اور دس سے زیا دہ وزراء ایک فرد کی شان میں کی جانے والی بے ادبی پر تڑپنے لگ گئے اور پھر سب نے ہاتھ جوڑتے ہوئے معاف کرنے کو کہا۔
ان سب کا کہنا تھا کہ اگر اس گالی گلوچ کو بڑھاوا دیا گیا تو ہم اپنے مقصد سے ہٹ جائیں گے اور ہماری قوت منتشر ہو کر کمزور پڑجائے گی۔ اس وقت ہمیں جس ''دشمن ‘‘کا سامنا ہے اس کے مقابلے میں ہمیں متحد ہونا پڑے گالیکن اس کے با وجود سب کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جا رہا تھا ۔ دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں نے دیکھا اور سنا کہ وزیر اعظم اپنے ہی اداروں پر عائد کیے گئے الزامات پر تو زور زور سے ڈیسک بجاتے رہے لیکن اپنے وزیر کی جانب سے دوسری جماعت سے تعلق رکھنے والے سینیٹ کے ایک رکن کی شان میں ذرا سی گستاخی پر اس سے معافیاں مانگتے نہیں تھکے۔قومی اداروں پر یہ لوگ ہرزہ سرائی کرنے کو برا نہیں سمجھتے ۔
بد بختی ملاحظہ کریں کہا کہ ایک جانب اغیار ملک کو کمزور کرنے کی سازشوں میں لگے ہوئے ہیں تو دوسری جانب آستین میں چھپے ہوئے سانپ اس کی رگوں میں اپنا زہر
انڈیلے جا رہے ہیں۔ افسوس کہ وہی نام نہاد علماء جنہیں ہندو نے وطنیت کا باطل تصور دے کر تحریک پاکستان کا دشمن بنایا تھا‘ پاکستان کی سیا ست میں کھمبیوں کی طرح اُگنے شروع ہو گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس قوم کو فرقوں میں بانٹ کرایک دوسرے کے سامنے لا کھڑا کیا۔ 
یہ نام نہاد جمہوریت پسندوں کا ایوان ہے جس میں مفاد پرستوں کے گروہ اپنے ہی اداروں اور جوانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں جن کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ اپنی جانیں نچھاور کرتے ہوئے اس ملک کی املاک بچا رہے ہیں ‘ اپنی اور اپنی قوم کی گردنوں پر چھریاںچلانے والے دہشت گردوں کے پنجوں سے اس ملک کی گردن چھڑا رہے ہیں ۔ اگر یہ لوگ اپنے اداروں کے ساتھ نہیں ہیں تو کوئی غم نہیں ہے کیونکہ ان مفاد پرستوں کے مقابلے میں پاکستان کی سڑکوں پر پھیلا ہوا وہ کھلا ایوان ہے جہاں اس ملک کے 19کروڑ عوام بستے ہیں۔ عوام اور دفاعی ادارے دونوں لازم و ملزوم ہیں۔تم لاکھ کوشش کر لو‘ تم لاکھ ستم ڈھا لو یہ رشتہ کبھی نہیں ٹوٹے گا۔ کبھی بھی نہیں۔ دو جسم اور ایک روح ہیں اور یہ تا قیامت ایک دوسرے میں سمائے رہیں گے...! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں