میرے چار اگست کو شائع ہونے والے آرٹیکل '' اصل بات یہ ہے‘‘ کے حوالے سے بہت سے لوگوں نے پوچھا ہے کہ امریکیوں نے ایک ادارے کی جانب سے بار بار اس کی لوکیشن بتانے پر بھی بیت اﷲ محسود کو ڈرون کے ذریعے ہلاک کیوں نہیں کیا تھا؟ اور بعد میں کیا وجہ ہوئی کہ ڈرون حملے میں اسے ہلاک کر دیا؟۔ یہ سوال بہت اہم ہے کہ آخر امریکیوں کو ایسا کیوںکرنا پڑا ؟ کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں تھی کہ امریکی با خبر ہو چکے تھے کہ ان کا دوست ''ٹرپل ایجنٹ‘‘ ہے‘ یا امریکی محترمہ بے نظیر بھٹو کا مشن مکمل ہونے کے بعد اس سے جلد از جلد نجات چاہتے تھے کیونکہ آئی ایس آئی اس کی زندہ گرفتاری کیلئے انتہائی سر گرم ہو چکی تھی تاکہ بے نظیر کے اصل قاتل سامنے لائے جا سکیں۔ امریکہ نے اگر محسود پر پانچ ملین ڈالر کا انعام رکھا ہوا تھا تو پاکستان نے ساڑھے چھ ملین ڈالر کی بھاری رقم اس کی گرفتاری کیلئے مختص کر رکھی تھی۔ امریکیوں کو خدشہ تھا کہ اس طرح پاکستان کی فوج بے نظیر کے اصل قاتلوں کو بھی سامنے لے آئے گی۔
واشنگٹن کے وقت کے مطا بق شام کے چار بجے تھے اور امریکی سی آئی اے کے ڈائریکٹر لیون پنیٹا وہائٹ ہائوس میں ایک اہم اجلاس میں مصروف تھے۔ اس اجلاس میں شریک لوگوں کو اس وقت انتہائی حیرت ہوئی جب لیون پنیٹا شرکاء سے معذرت کرتے ہوئے تیز تیز چلتے ہوئے کانفرنس روم سے باہر نکل گئے۔ انہوں نے فون کانوں سے لگایا تو دوسری جانب سے جو الفاظ سنائی دیے‘ اس سے وہ لڑکھڑا گئے۔ ایک لمحے کے لیے ان کے چہرے پر کئی رنگ آئے اور گزر گئے۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ شدید قسم کی گھبراہٹ میں ہیں۔ کئی منٹ تک وہ موبائل اپنے کانوں سے لگائے اپنے مخاطب سے سوال وجواب کرتے رہے اور لیون پنیٹا کو بتایا جا رہا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان کا امیر اس وقت ان کے نشانے پر ہے۔
یہ بات تو ظاہر ہے کہ صرف اور صرف امریکی سی آئی اے کی منظوری اور ان کی دی جانے والی ڈائریکشن کے مطا بق ہی ڈرون کے ذریعے پاکستان میں میزائل فائر کیے جاتے ہیں۔ابھی لیون پنیٹا بات کر کے فارغ ہوئے ہی تھے کہ موبائل کی گھنٹی دوبارہ بجی۔ اس وقت دوسری طرف لیون پنیٹا کے چیف آف سٹاف جیریمی بیش اور کائونٹر ٹیررزم کے سینئر ایڈوائزر انہیں بتا رہے تھے کہ جس گھر میں بیت اﷲ محسود اس وقت موجود ہے‘ وہ مکمل طور پر ہماری رینج میں ہے اور جیسے ہی آپ کی طرف سےOK کہا جائے گا‘ 23 ہزار فٹ کی بلندی سے اسے نشانہ بنا دیا جائے گا۔ گو کہ یہ ایک انتہائی پیچیدہ اور مشکل ٹارگٹ ہے لیکن ہم یہ کر سکتے ہیں۔ ہم آپ کو یہ بتانا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ اس وقت ہماری اطلاع کے مطا بق اس گھر میں درجنوں افراد موجود ہیں جن میں محسود کی بیوی بھی شامل ہے۔ ''کیا یہ سب لوگ بھی نشانے کی زد میں آئیں گے؟ ۔۔۔کیا یہ سب محسود کے ارد گرد موجود ہیں؟‘‘ لیون پنیٹا نے اپنے چیف آف سٹاف جریمی سے پوچھا۔ انہیں بتایا گیا کہ ایسا ہی ہے۔اس طرح تو ''ہمارے لوگوں‘‘ سمیت بہت سے لوگ بھی مارے جائیں گے؟ پنیٹا کے اس سوال پر کہا گیا کہ اس کے لیے سی آئی اے کم تباہی مچانے والا بم استعمال کرے گی جس پر لیون پنیٹا نے اپنے چیف آف سٹاف جریمی بیش کو 'او کے‘ کا سگنل دے دیا۔اس طرح امریکیوں نے اپنے ہدف کو جو اس وقت اپنے نئے گھر کی دوسری منزل پر لیٹا ہوا تھا، ڈرون کے ذریعے نشانہ بنانے کی منظوری دے دی۔
وزیرستان میں پانچ اور چھ اگست 2009ء کی درمیانی انتہائی گرم رات تھی۔ تحریک طالبان کا امیر بیت اﷲ محسود دو منزلہ گھر کی دوسری منزل پر اپنے بستر پر بے چینی سے کروٹیں بدل رہا تھا۔ پتہ چل رہا تھا کہ اس وقت اس کی حالت ٹھیک نہیں۔ وہ کافی عرصے سے ذیا بیطس کا شکار تھا لیکن اس وقت اس کی بیماری اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ بار بار پیاس محسوس ہونے کے علا وہ شوگر کی وجہ سے اس کی ٹانگیں سوجی ہوئی تھیں۔ تھوڑی دیر بعد باہر ہلکی سی آہٹ ہوئی تو اس نے بڑی مشکل سے دروازہ کھولا،جہاں اسی جیسی داڑھی والا ایک شخص کھڑا تھا‘ جس کے ہاتھ میں میڈیکل باکس اور دو چھوٹی چھوٹی مشینیں آسانی سے دیکھی جا سکتی تھیں۔ محسود کو سہارا دے کر
اس دومنزلہ گھر کی چھت پر پہنچایا گیا ،جہاں ایک بڑے سائز کا میٹرس پہلے سے ہی موجود تھا۔ بیت اﷲمحسود کو اس میٹرس پر بڑے آرام سے لٹا دیا گیا۔ اس رات چاند بھی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا اور چھت پر لیٹے ہوئے بیت اﷲ محسود کو دور سے ہی دیکھا جا سکتا تھا لیکن اس وقت اوپر چھت پر جانا اس کی مجبوری تھی کیونکہ نیچے اندھیرا تھا اور اوپر کی روشنی میں ہی اس کی رگوں میں ڈرپ اور دوسرے میڈیکل آلات لگائے جا سکتے تھے۔ سیٹلائٹ کے ذریعے سی آئی اے یہ سب مانیٹر کر رہی تھی۔ یہ دیکھ کر اسے زبردست جھٹکا لگاکیونکہ اس سے پہلے سی آئی اے کاخیال تھا کہ دوسرا آدمی جو محسود کو آئی، وی ڈرپ لگا نے آیا ہے‘ وہ کوئی عام ڈاکٹر ہو گا لیکن سیٹلائٹ سے غور سے اس شخص کو دیکھا تو وہ یہ جان کر حیران رہ گئے کہ یہ کوئی عام ڈاکٹر نہیں بلکہ اردن کا فزیشن حمام البلاوی ہے‘ جو انتہائی مطلوب افراد میں شامل ہے۔
محسود کے ساتھ البلاوی کی موجو دگی نے صورت حال کو بدل کر رکھ دیاتھا جس پر اپنے مطلوبہ ہدف کو نشانہ بنانے کے لیے سی آئی اے کے آپریٹروں نے اپنے''HELLFIRES'' کو دوبارہ چیک کرنا شروع کر دیا لیکن اچانک بدلتے منظر نے ان کے آپریشن کو تھوڑی دیر کے لیے ملتوی کر دیا کیونکہ اس سے پیشتر لیون پنیٹا نے جو حکم جاری کیا تھا،اس میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ ڈرون اٹیک صرف دوسری منزل کے اس بیڈ روم پر ہی کیا جائے جہاں اس وقت بیت اﷲ محسود موجود ہیں لیکن محسود کو چونکہ آئی وی لگائی جانی تھی‘ جس کے لیے روشنی ضروری تھی اس لئے محسود کو چھت پر لے جا نا پڑا۔ اب ظاہر ہے کہ ڈرون حملہ چھت پر کرنا تھا اور اس طرح گھر میں موجود سب لوگ زد میں آنے والے تھے جس کے لیے لیون پنیٹا سے وہائٹ ہائوس میں ایک بار پھر ہنگامی رابطہ کیا گیا جو اس وقت سی آئی اے ہیڈ کوارٹر میں نہیں بلکہ وہائٹ ہائوس میں ہونے والی نیشنل سکیورٹی کونسل کی میٹنگ میں شریک تھے۔ چیف آف سٹاف جریمی کی بتائی جانے والی تازہ صورت حال کی روشنی میں لیون پنیٹا نے یہ کہتے ہوئے اجا زت دے دی ''Use a smaller,less destructive missile.''
پانچ اور چھ اگست 2009ء کی درمیانی رات تھی۔ اردن کے فزیشن ڈاکٹرحمام البلاوی آئی وی مشین کے ذریعے بیت اللہ محسود کی رگوں میں ڈرپ لگارہے تھے اور چھوٹی عمر کی ایک لڑکی جسے بعد میں اس کی نئی بیوی کے طور پر شنا خت کیا گیاتھا‘ محسود کی سوجی ہوئی ٹانگوں کو دبا رہی تھی۔جونہی البلاوی ڈرپ لگانے کے بعد اس گھر کی نچلی منزل کی طرف گیا‘ محسود نے اچانک آسمان سے ایک تیز لائٹ کو اپنی جانب آتے دیکھا تو اس کے منہ سے ایک لمبی ٹھنڈی آہ نکلی اور اگلے ہی لمحے ایک چھوٹے سے دھماکے کی آواز پہاڑوں میں گونجی اور پھر خاموشی چھا گئی۔ ڈرون میزائل نے محسود کے جسم کے دو ٹکڑے کر دیئے اور اس کے پاس بیٹھی ہوئی اس کی نئی بیوی بھی اس حملے میں ہلاک ہو گئی۔