کوئی دو سال ہوئے 26 اپریل کی شام لیہ کے جلسہ عام میںمسلم لیگ نواز کے سربراہ جناب نواز شریف کی تقریر سننے کا اتفاق ہو ا اپنی پوری تقریر میں ان کا بار بار یہی فرمانا تھا کہ اگر جنرل مشرف میری حکومت ختم نہ کرتا تو یہ ملک ان کی قیا دت میں ترقی کر رہا تھا ،لوگ خوش حال تھے۔ اس جلسہ عام میں انہوں نے فوج کے سابق جرنیلوں پر،ان کا نام لیے بغیر تنقید کی ۔ پاکستان کے ایک مشہور صحافی نے '' غدار کون‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جو جناب نواز شریف اور ان کے خاندان سے جدہ کے سرور پیلس اور لندن کے پارک لین میں ریکارڈ کئے گئے طول انٹر ویوز پر مشتمل ہے ۔اس کتاب میں لکھے گئے ایک ایک حرف کی سچائی جاننے کیلئے یہی کافی ہے کہ جب اس کتاب کا مسودہ تیار ہو گیا تو اسے حتمی منظوری کیلئے جناب نوا ز شریف کے پاس بھیجا گیا ۔ اس کتاب کا مسودہ دیکھنے کے بعد میاں صاحب نے اس کی اشاعت کو کچھ عرصہ کیلئے ملتوی کرنے کو کہا۔جب میاں صاحب جدہ سے لندن پہنچ گئے تو پھر اس کتاب کو شائع ہونے کے لیے بھیجنے سے پہلے اپریل2006 ء میں کتاب کے حتمی مسودہ کی تحریر اورریکارڈنگ کو تفصیل سے پڑھنے اور سننے کے بعد اس کی اشاعت کی با قاعدہ منظوری دی۔
لیہ کے جلسہ عام میں جناب نواز شریف نے کہا کہ جب 99 ء میں ان کی حکومت ختم کی گئی تو اس وقت ملک ترقی کر رہا تھا۔ صرف لیہ ہی نہیں بلکہ ملک کے ہر حصے میں جہاں بھی میاں صاحب انتخابی مہم کے لیے جاتے ہیں ،ان کا جلسہ عام میں آئے ہوئے لوگوں سے یہی سوال ہو تا ہے کہ بھائیو ،بتائو ملک میری حکومت میں ترقی کر رہا تھا یا نہیں؟بھائیو ،بتائو میری حکومت میںملک میں لوڈشیڈنگ تھی ؟میاں صاحب نے لیہ کے جلسہ میں تو یہ تک کہہ دیا کہ ملک میں اتنی بجلی تھی کہ وہ بھارت کو بیچنے جا رہے تھے جبکہ ان کے دور کے اخبارات کا ایک ایک صفحہ گواہ ہے کہ ملک میں دس گھنٹے سے بھی زائد بجلی کی لوڈ شیڈنگ تھی اورپاور لومز بند تھیں۔ اگر کسی کو ذراسا بھی شک ہے تو اس دور کے اخبارات دیکھ لے جب لوگ لوڈ شیڈنگ کے خلاف ملک بھر میں اور خاص طور پر پنجاب میں جگہ جگہ مظاہرے کر رہے تھے۔ بھارت کو بجلی دینے کی بات پر میاں صاحب کی تقریر کے اس حصے پر ان کاطاہر القادری کے بارے میں کہا ہوا جملہ صادق آتا ہے ''پلے نئیں دھیلا تے کر دی میلہ میلہ‘‘۔ لیہ میں انہوں نے جو کہا کہ ملک میں خوش حالی تھی ،لوگ خوش تھے ،اس پر ان کی مذکورہ بالا کتاب کے صفحہ192 میں وہ اپنی حکومت کی نا قص کار کردگی کو ان الفاظ میں تسلیم کرتے ہیں '' یہ درست ہے کہ جب ہماری حکومت ختم ہوئی تو اس وقت لوگ ہم سے خوش نہیں تھے ،ناراض تھے جس کی وجہ سے وہ ہماری حکومت کے خاتمے کے لیے سڑکوں پر نہیں آئے ‘‘۔۔۔۔۔۔ اب میں اپنے ملک کے نوجوانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنی زندگی کے چند گھنٹے نکال کر کسی بڑی سرکاری لائبریری یا اخبار کے دفتر میں جائیں اور جناب نواز شریف کی دوسری حکومت کے دور کے اخبارات دیکھتے ہوئے بجلی کی بد ترین لوڈ شیڈنگ کا نظارہ اپنی آنکھوں سے کریں تاکہ جھوٹ اور سچ ان کے سامنے آ جائے۔ آج کا بیس پچیس سال کا نوجوان جو اس وقت دس پندرہ سال کی عمرمیں تھا ،مسلم لیگ نواز کی حکومتی کار کردگی سے یقینا بے خبر ہو گا۔ اس دور کے اخبارات دیکھنے کے بعد وہ ان کے دور حکومت کی اصل حقیقت جان سکے گا۔
جناب نواز شریف نے لیہ کے جلسہ عام میں بار بار فرمایا کہ امریکی صدر بل کلنٹن نے انہیں پانچ فون کئے جس میںوہ انہیں اس شرط پرپانچ ملین ڈالر دے رہا تھا کہ ایٹمی دھماکے مت کرو ۔اس رقم کو انہوں نے لیہ کے جلسہ عام میں روپوں میں بھی تقسیم کر کے بتایا ۔
اگرلیہ یا اس ملک کے دوسرے عوام سچ جاننا چاہتے ہیں تو وہ میاں نواز شریف کی کتاب'' غدار کون‘‘ کے صفحہ435 پر مسلم لیگ نوازکی سینٹرل کمیٹی کے رکن اور ان کے دور حکومت میں وزارت خارجہ کے ایڈیشنل سیکرٹری طارق فاطمی (CIS&AE) کی ایٹمی دھماکے کرنے سے قبل جناب نواز شریف اور امریکی صدر بل کلنٹن کی 23 مئی 1998 ء کو ریکارڈ کی گئی گفتگو ملاحظہ کریں جس میں کلنٹن میاں نواز شریف سے یہ کہتے ہیں '' میں آپ کی طرف واجب الادا کچھ قرضے معاف کرانے کی کوشش کروں گا لیکن مجھے اس معاملے میں کانگریس سے منظوری لینا پڑے گی اس لیے میں یہ وعدہ نہیں کر سکتا کہ میں یہ کر سکوں گا ۔ میں پاکستان پر لگی پریسلر ترمیم کی منسوخی اور سمینگٹن ترمیم کی پابندیاں ہٹانے کی پوری پوری کوشش کروں گا ۔ہو سکتا ہے کہ مجھے اس میں کامیابی مل جائے ماسوائے اس کے کہ سینٹ میں کوئی دائو نہ چل جائے ۔میں اس کی گارنٹی نہیں دے سکتا۔‘‘
عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر تیسری بار حکومت کرنے والے دونوں بھائیوں کے دلی جذبات کا اندازہ کرنے کے لیے ...ان کی اسی کتاب کے صفحہ37 پر جناب نواز شریف نے جو گفتگو کی ہے خود اپنی آنکھوں سے ملاحظہ فرمائیں۔ میاں نواز شریف فرماتے ہیں '' پنجابیوں اور سندھیوں کے کردار میں بہت فرق ہے ۔میرے مقدمے میں سندھی جج پر بہت زور پڑا لیکن اس نے مجھے سزائے موت نہیں دی،اس کی بجائے پنجابی جج ہوتا تو پہلے سے سز الکھ چھوڑتا۔جنرل محمود اور جنرل مشرف نے سندھی جج رحمت حسین جعفری پر بہت زور دیا لیکن وہ نہ مانے‘‘( صدر زرداری نے ایک روزنامہ کو خصوصی انٹر ویو دیتے ہوئے بتایا ہے کہ رحمت حسین جعفری کو میں نے نواز شریف کو طیارہ ہائی جیکنگ کیس میں سزائے موت نہ دینے پر قائل کیا تھا )۔ جناب نواز شریف اپنی اس کتاب میں لکھتے ہیں کہ '' پنجاب کا کردار کبھی بھی درست نہیں رہا ۔پنجابیوں نے ہر فاتح کو سلام کیا ، کبھی مزاحمت نہیں کی البتہ سکندر اعظم کے مقابلہ میں مسلمانوں کی بجائے ہندو راجہ پورس کا کردار بہت ہی جرأت مندانہ تھا ۔‘‘... ''انہوں نے تو1857ء کی جنگ آزادی میں بھی حصہ نہیں لیا تھا‘‘کیا وہ اپنی کتاب کے صفحہ 37 کو دوبارہ پڑھنے کے بعد یہ بتانا پسند فرمائیں گے کہ اگر ہم اتنے ہی کمتر ہیں تو انہوں نے پانچ دفعہ پنجاب پر حکومت کیوں کی؟ انہی کو جنہیں آپ اپنی کتاب ''غدار کون ‘‘میں بزدل اور نہ جانے کیا کیا کہہ گئے ہیں، ان سے ووٹ کیوں مانگتے ہیں؟