کوئی پچاس سال قبل اپنے چھوٹے سے قصبے میں گھومتے ہوئے مرغی اور اس کے ننھے منے پیارے سے چوزوں کو اس کے ارد گرد گھومتے دیکھا تو بے ساختہ لپک کر ایک چوزے کو پکڑ لیا‘ یک لخت مرغی مجھ پر جھپٹی اور اس کی چونچ میری ناک کے اندر گھس گئی اور ناک سے بے تحاشا خون بہنے لگا۔ اس وقت میرا قد اتنا ہی تھا کہ میری ناک تک پہنچنا مرغی کے لیے مشکل نہ تھا۔ چوزہ میرے ہاتھ سے گرا‘ جسے وہ اپنے پروں میں لے کر چلی گئی۔
آج بھی اس مرغی کی ہمت اور جذبہ مجھے اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے پر اکساتا رہتا ہے۔ یہی بات جب میں اپنے دوستوں کو سناتا ہوں تو کوئی اسے مامتا کی تڑپ اور کچھ اسے اپنے سے بہت زیا دہ طاقتور کی طاقت کی پروا کیے بغیر اپنی چھینی ہوئی متاع واپس لینے کا جذبہ کہتے ہیں۔ ایک دوست نے اس کمزور ترین پرندے کی ہمت اور جذبے کا ایک اور واقعہ سنا کر مجھے اور بھی حیران کر دیا۔ وہ بتاتے ہیں: میں اپنے گائوں میں گھر کے باہر گلی میں کھڑا تھا‘ جہاں ایک مرغی اپنے بہت سے چوزوں کے ساتھ پھر رہی تھی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ اچانک ایک چیل جھپٹا مار کر اس کے ایک چوزے کو اپنے پنجوں میں دبوچ کر لے گئی۔ میں نے وہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا مگر آج بھی یقین نہیں آتا کہ کس طرح مرغی چند قدم چیل کی جانب دوڑتے ہوئے میرے گھر کی چھت کی بلندی تک اس کے پیچھے اڑی اور وہاں سے پھڑ پھڑاتی ہوئی نیچے آ گری۔کیا آپ اس قوت کو اپنے تصور میں لا سکتے ہیں جس نے مرغی کو چیل کے پیچھے مکان کی چھت تک اڑایا؟۔کیا یہ قوت انسانوں میں پیدا نہیں ہو سکتی؟ ۔یقیناََ ہو سکتی ہے اور جن انسانوں میں اپنے حق کی حفاظت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے وہ کبھی کسی کے محتاج نہیں رہتے اور وہی معاشرے میں سر بلند اور با وقار زندگی گزارتے ہیں۔
آج کہا جا رہا ہے کہ ان پانچ ہزار لوگوں کو‘ جو اسلام آباد میں مجھ سے اپنی چھینی جانے والی متاع عزیز واپس لینے کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں‘ جب چاہوں انہیں اٹھا کر جہاں چاہوں لے جائوں۔ اور 1984ء میں لاہور کے یکی گیٹ تھانے میں تعینات اے ایس آئی جو آج نہ جانے کس طرح ملک کے دارالحکومت کے آئی جی بنے بیٹھے ہیں‘ بڑے ہی فخر سے ٹی وی کیمروں کے سامنے فرماتے ہیں کہ ''مجھے حکومت نے نتھ ڈالی ہوئی ہے ورنہ میں ایک منٹ میں ان سب دھرنے والوں کو اٹھا کر راول ڈیم میں پھینک دوں‘‘۔شکر ہے کہ نتھ والی یہ بات ہم اپنی جانب سے نہیں لکھ رہے‘ ان کے یہ الفاظ کل ہی ملک بھر کے اخبارات کی زینت بنے ہیں۔
آئی جی صاحب کو اگر مرغی کا واقعہ سمجھ میں نہیں آیا تو انہیں ایک اور تاریخی واقعہ یاد دلاتا ہوں۔ 1980ء میں لندن کے مشہور ترین اور دنیا بھر سے آئے ہوئے سیاحوں کے مرکزِ نگاہ ٹریفالگر اسکوائر میں لڑکوں اور لڑکیوں کے گروہ ہاتھوں میں نیلسن منڈیلا کی رہائی کے لیے لکھے گئے پلے کارڈز اٹھائے بڑی تمیز اور استقامت سے کھڑے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ آج تو ٹریفالگر اسکوائر اس لحاظ سے اجڑ کر رہ گیا ہے۔ اب وہاں پر کونسل کا ایک دفتر اور ایک بہت اچھی لائبریری بن چکی ہے۔ 34 سال قبل کے ان منا ظر کو دیکھنے والے اور تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ شروع کے چند ماہ میں صرف ایک نوجوان لڑکا اور لڑکی وہاں آ کر کھڑے دکھائی دیا کرتے لیکن بعد میں پانچ چھ جوڑے اور ان کے ساتھ آ کر مل گئے اور پھر وہ آواز لندن اور دنیا بھر کی ہر سڑک اور ہر گھر تک پہنچ گئی۔
وہ لوگ جووہاں سے آتے جاتے ہوئے انہیں کئی دنوں سے کھڑے ہوئے دیکھ رہے تھے‘ ان سے ایک انسیت سی محسوس کرنے لگے۔ ایسے ہی ایک لکھاری جو انہیں عرصے سے وہاں کھڑے ہوئے دیکھ رہے تھے‘ نے ایک دن ان سے پوچھا ''آپ لوگ کب سے یہاں کھڑے ہیں؟‘‘ انہوں نے جواب دیا کہ پانچ برس سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے۔ لکھاری نے پوچھا ''اور کب تک آپ لوگوں کا یہاں کھڑے رہنے کا ارادہ ہے؟‘‘ نوجوانوں نے سوال کرنے والے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دیا ''جب تک نیلسن منڈیلا رہا نہیں ہو جاتا‘‘۔ اس دانشور نے ان سے کہا کہ پانچ سال آپ کو یہاں پُرامن احتجاج کرتے ہوئے گزر چکے ہیں لیکن ابھی تک منڈیلا رہا نہیں ہوا اور نہ ہی دور دور تک اس کی رہائی کا کوئی امکان نظر آتا ہے‘ کیا ابھی بھی آپ کو منڈیلا کی رہائی کی امید ہے؟ لمبے قد کے نوجوان نے اپنے دوسرے ساتھیوں کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا''احتجاج حق کی بنیاد پر کیا جاتا ہے‘ کامیابی کی ضمانت کی بنیاد پر نہیں‘‘۔
آج سے 35 سال قبل نیلسن منڈیلا کی رہائی کے لیے ٹریفالگر اسکوائر لندن میں کھڑے ہوئے نوجوانوں کی چھوٹی سی تعداد اپنے حق کے لیے کھڑی ہوئی اور پھر یہ تحریک دنیا کے ہر گھر اور ہر دل میں پہنچ گئی۔ دنیا بھر کی سڑکیں نیلسن منڈیلا کی رہائی کیلئے انسانی سروں کا سمندر بن گئیں۔ اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے بوڑھوں‘ جوانوں‘ خواتین اور بچوں کو آج 37 دن ہونے کو ہیں۔ یہ گوشت پوست کے انسان اپنے گھروں سے دور دن کو تپتی اور رات کو ٹھٹھرتی ہوئی سڑکوں پر ڈیرے جمائے ہوئے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں مردو خواتین اپنے ننھے منے بچوں سمیت صبر اور استقامت کا پہاڑ بنے ایک نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ اس دوران موسم کی کون سی سختیاں ہیں جن کا انہوں نے جم کر مقابلہ نہیں کیا۔ کئی کئی گھنٹے کی موسلا دھار بارش‘ تند و تیز آندھیاں‘ رات گئے سرد ہوائیں‘ بھوک پیاس‘ پختہ اینٹوں کے بستر اور ہر وقت بندوقوں کی گولیوں ، زہریلے کیمیکل کی بارش اور بے رحمانہ ریا ستی دہشت گردی کی چکی میں پسنے کا ڈر۔
لند ن کے تاریخی ٹریفالگر اسکوائر میں کھڑے ہو کر نیلسن منڈیلا کی رہائی کی تحریک کا آغاز کرنے والے صرف دوتھے لیکن ان دونوجوانوں کے صبر ،استقامت اور اپنے نظریے کی تکمیل کے یقین محکم کو دیکھ کر لوگ آتے گئے‘ بڑھتے گئے اور پھر دنیا بھر میں پھیل گئے ۔ہمارے حکمران اس قدر پابندیوں اور جبر و تشدد کے با جود اسلام آباد میں جمع انسانی سر گننے کی صلاحیت سے اگر محروم ہو چکے ہیں تو وہ ان انسانی دلوں کا حال کس طرح جان سکتے ہیں جو ٹیلی ویژن کی سکرینوں کے سامنے بیٹھے ہیں؟